مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر

مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
--. حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے کھانے میں برکت
حدیث نمبر: 5908
Save to word اعراب
وعن انس قال: قال ابو طلحة لام سليم لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء؟ فاخرجت اقراصا من شعير ثم اخرجت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت يدي ولاثتني ببعضه ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ارسلك ابو طلحة؟» قلت نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه قوموا فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فقال ابو طلحة يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم فقالت الله ورسوله اعلم قال فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة معه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هلمي يا ام سليم ما عندك فاتت بذلك الخبز فامر به ففت وعصرت ام سليم عكة لها فادمته ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان يقول ثم قال ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم اذن لعشرة فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون او ثمانون رجلا. متفق عليه وفي رواية لمسلم انه قال: «اذن لعشرة» فدخلوا فقال: «كلوا وسموا الله» . فاكلوا حتى فعل ذلك بثمانين رجلا ثم اكل النبي صلى الله عليه وسلم واهل البيت وترك سؤرا وفي رواية للبخاري قال: «ادخل علي عشرة» . حتى عد اربعين ثم اكل النبي صلى الله عليه وسلم فجعلت انظر هل نقص منها شيء؟ وفي رواية لمسلم: ثم اخذ ما بقي فجمعه ثم دعا فيه با لبركة فعاد كما كان فقال: «دونكم هذا» وَعَن أنسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ من شَيْء؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟» قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْت أَبَا طَلْحَة فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُوله أعلم قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بذلك الْخبز فَأمر بِهِ ففت وعصرت أم سليم عكة لَهَا فأدمته ثمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثمَّ خَرجُوا ثمَّ أذن لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لمُسلم أَنه قَالَ: «أذن لِعَشَرَةٍ» فَدَخَلُوا فَقَالَ: «كُلُوا وَسَمُّوا اللَّهَ» . فَأَكَلُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكَ سُؤْرًا وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: «أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً» . حَتَّى عَدَّ أَرْبَعِينَ ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ هَلْ نَقَصَ مِنْهَا شَيْءٌ؟ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيهِ با لبركة فَعَاد كَمَا كَانَ فَقَالَ: «دونكم هَذَا»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز کمزور سی سنی ہے، جس سے میں نے بھوک کا اندازہ لگایا ہے، کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور روٹیوں کو لپیٹ کر چادر کے ایک کونے میں باندھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیج دیا، میں وہ لے کر چلا گیا، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حاضرین سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ۔ آپ چلے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا حتیٰ کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر انہیں بتایا تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ام سُلیم! رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چند ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے ہیں، جبکہ ہمارے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں جو انہیں کھلانے کے لیے پیش کر سکیں، انہوں نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کی، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سلیم! تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ لے آؤ۔ وہ وہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فرمان پر ان روٹیوں کو چورا کیا گیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہ نے ان پر گھی کا مشکیزہ نچوڑا اور اسے سالن بنایا، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کھانے کے بارے میں وہ دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے چاہی پھر فرمایا: دس آدمیوں کو بلاؤ، انہیں بلایا گیا انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا، پھر وہ چلے گئے، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس کو بلاؤ، اس طرح سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا، وہ ستر یا اسّی افراد تھے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس افراد کو بلاؤ۔ ‘��� وہ آئے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ انہوں نے کھایا حتیٰ کہ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسّی افراد سے ایسے ہی فرمایا، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس دس آدمی بھیجو، حتیٰ کہ آپ نے چالیس افراد گنے، پھر نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا کھایا، میں دیکھنے لگا کہ کیا اس میں کوئی کمی آتی ہے؟ اور صحیح مسلم کی روایات میں، پھر جو کھانا بچ گیا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اکٹھا کیا، پھر اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ جتنا تھا اتنا ہی ہو گیا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے لے لو۔ متفق علیہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«متفق عليه، رواه البخاري (3578) و مسلم (142/ 2040) الرواية الثانية، رواھا مسلم (143/ 2040) و الرواية الثالثة، رواھا البخاري (5450) و الرواية الرابعة، رواھا مسلم (143/ 2040)»

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.