وعن ابي هاشم بن عتبة قال: عهد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله» . رواه احمد والترمذي والنسائي وابن ماجه. وفي بعض نسخ «المصابيح» عن ابي هاشم بن عتيد بالدال بدل التاء وهو تصحيف وَعَن أبي هَاشم بن عُتبَةَ قَالَ: عَهِدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ. وَفِي بَعْضِ نسخ «المصابيح» عَن أبي هَاشم بن عتيد بِالدَّال بدل التَّاء وَهُوَ تَصْحِيف
ابوہاشم بن عتبہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ”تمہارے لیے اتنا مال جمع کرنا ہی کافی ہے کہ ایک خادم ہو اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) ایک سواری ہو۔ “ احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اور مصابیح کے بعض نسخوں میں ابوہاشم بن عتبد یعنی تاء کے بجائے دال کا ذکر ہے، اور یہ تصحیف ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و نسائی و ابن ماجہ و مصابیح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (5/ 290 ح 22863) و الترمذي (2327) و النسائي (8/ 218. 219 ح 5374) و ابن ماجه (4103) و ذکره البغوي في مصابيح السنة (3/ 423. 424 ح 4027 و فيه ’’عتبة‘‘ بالتاء) ٭ أبو وائل رواه عن سمرة بن سھم وھو رجل مجھول و روي النسائي في الکبري (507/5 ح 9812) بسند حسن عن بريدة رضي الله عنه رفعه: ((يکفي أحدکم من الدنيا خادم و مرکب.)) وھو يغني عنه.»
وعن عثمان بن عفان رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: ليس لابن آدم حق في سوى هذه الخصال: بيت يسكنه وثوب يواري به عورته وجلف الخبز والماء. رواه الترمذي وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ: بَيْتٌ يَسْكُنُهُ وَثَوْبٌ يُوَارِي بِهِ عَوْرَتَهُ وجلف الْخبز وَالْمَاء. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کو ان تین چیزوں، رہائش کے لیے گھر، ستر ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور روٹی پانی کے سوا کسی چیز کا حق نہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2341 وقال: صحيح)»
وعن سهل بن سعد قال: جاء رجل فقال: يا رسول الله دلني على عمل إذا انا عملته احبني الله واحبني الناس. قال: «ازهد في الدنيا يحبك الله وازهد فيما عند الناس يحبك الناس» رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ. قَالَ: «ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبُّكَ اللَّهُ وَازْهَدْ فِيمَا عِنْدَ النَّاسِ يُحِبَّكَ النَّاسُ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیں جب میں وہ عمل کر لوں تو میں اللہ اور لوگوں کا محبوب بن جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا سے بے رغبت ہو جا اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبت ہو جا تو لوگ تجھ سے محبت کریں گے۔ “ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه الترمذي (لم أجده) و ابن ماجه (4102) ٭ فيه خالد بن عمرو القرشي: کذاب وضاع و له متابعات مردودة و شواھد ضعيفة فالسند موضوع و الحديث ضعيف.»
وعن ابن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم نام على حصير فقام وقد اثر في جسده فقال ابن مسعود: يا رسول الله لو امرتنا ان نبسط لك ونعمل. فقال: «ما لي وللدنيا؟ وما انا والدنيا إلا كراكب استظل تحت شجرة ثم راح وتركها» . رواه احمد والترمذي وابن ماجه وَعَن ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَسَدِهِ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَبْسُطَ لَكَ وَنَعْمَلَ. فَقَالَ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا؟ وَمَا أَنَا وَالدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چٹائی پر سو گئے جب اٹھے تو آپ کے جسد اطہر پر اس (چٹائی) کے نشانات تھے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں حکم فرمائیں تو ہم آپ کے لیے نرم بستر تیار کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرا دنیا سے کیا سروکار، میں اور دنیا تو ایسے ہیں جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے رکتا ہے اور پھر کوچ کر جاتا ہے اور اسے وہیں چھوڑ جاتا ہے۔ “ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (1/ 391 ح 3709) و الترمذي (2377 وقال: صحيح) و ابن ماجه (4109)»
وعن ابي امامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اغبط اوليائي عندي لمؤمن خفيف الحاذ ذو حظ من الصلاة احسن عبادة ربه واطاعه في السر وكان غامضا في الناس لا يشار إليه بالاصابع وكان رزقه كفافا فصبر على ذلك» ثم نقد بيده فقال: «عجلت منيته قلت بواكيه قل تراثه» . رواه احمد والترمذي وابن ماجه وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَغْبَطُ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلَاةِ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَأَطَاعَهُ فِي السِّرِّ وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَى ذَلِكَ» ثُمَّ نَقَدَ بِيَدِهِ فَقَالَ: «عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ قَلَّتْ بَوَاكِيهِ قَلَّ تُراثُه» . رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
ابوامامہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے دوستوں میں سے وہ مومن میرے نزدیک زیادہ قابل رشک ہے جس کے پاس سازو سامان کم ہو، نماز میں اسے لذت حاصل ہوتی ہو، اپنے رب کی عبادت خوب اچھی طرح کرتا ہو اور وہ پوشیدہ حالت میں بھی اس کی اطاعت کرتا ہو، لوگوں میں مشہور نہ ہو، اس کی طرف انگلیاں نہ اٹھتی ہوں، اس کا رزق گزارہ لائق ہو اور وہ اس پر صابر ہو۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چٹکی بجائی اور فرمایا: ”اس کی موت جلدی آ گئی، اسے رونے والیاں کم ہیں اور اس کی میراث بھی کم ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 252 ح 22520) و الترمذي (2347) [و ابن ماجه (4117 بسند آخر فيه صدقة بن عبد الله و أيوب بن سليمان ضعيفان)]٭ علي بن يزيد: ضعيف جدًا و عبيد الله بن زحر: ضعيف. و للحديث طرق کلھا ضعيفة کما حققته في تخريج مسند الحميدي (911) و النھاية (30)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عرض علي ربي ليجعل لي يطحاء مكة ذهبا فقلت: لا يارب ولكن اشبع يوما واجوع يوما فإذا جعت تضرعت إليك وذكرتك وإذا شبعت حمدتك وشكرتك. رواه احمد والترمذي وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي لِيَجْعَلَ لِي يطحاء مَكَّة ذَهَبا فَقلت: لَا يارب وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا وَأَجُوعُ يَوْمًا فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَيْكَ وَذَكَرْتُكَ وَإِذَا شَبِعَتُ حَمِدْتُكَ وَشَكَرْتُكَ. رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے رب نے مجھے پیش کش کی کہ وہ مکہ کی وادی بطحا (یا مکہ کے سنگ ریزوں) کو سونا بنا دے، میں نے کہا: رب جی! نہیں، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں ایک روز شکم سیر ہوں اور ایک روز بھوکا رہوں، جب میں بھوکا رہوں تو تیرے حضور عاجزی کروں اور تیرا ذکر کروں، اور جب شکم سیر ہوں تو تیری حمد بیان کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ احمد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه أحمد (254/5 ح 22543) و الترمذي (2347) ٭ علي بن يزيد ضعيف جدًا و عبيد الله بن زحر ضعيف، انظر الحديث السابق (5189)»
وعن عبيد الله بن محصن قال: قال رسول الله صلى الله عليه: «من اصبح منكم آمنا في سربه معافى في جسده عنده قوت يومه فكانما حيزت له الدنيا» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن عبيدِ الله بنِ مِحْصَنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ: «مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
عبید اللہ بن محصن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے اپنے اہل و عیال کے متعلق کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ تندرست ہو، اور اس کے پاس ایک دن کا کھانا موجود ہو تو گویا اس کے لیے تمام اطراف سے دنیا جمع کر دی گئی۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2346)»
وعن مقدام بن معدي كرب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما ملا آدمي وعاء شرا من بطن بحسب ابن آدم اكلات يقمن صلبه فإن كان لا محالة فثلث طعام وثلث شراب وثلث لنفسه» . رواه الترمذي وابن ماجه وَعَن مقدامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ طَعَامٌ وَثُلُثٌ شَرَابٌ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کسی آدمی نے ایسا کوئی برتن نہیں بھرا جو اس کے پیٹ سے زیادہ برا ہو، انسان کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھ سکیں، اگر زیادہ کھانا ضروری ہی ہو تو پھر (پیٹ کا) تہائی حصہ کھانے کے لیے، تہائی پانی کے لیے اور تہائی سانس کے لیے ہو۔ “ صحیح، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (2380 وقال: حسن صحيح) و ابن ماجه (3349)»
وعن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يتجشا فقال: «اقصر من جشائك فإن اطول الناس جوعا يوم القيامة اطولهم شبعا في الدنيا» . رواه في «شرح السنة» . وروى الترمذي نحوه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَتَجَشَّأُ فَقَالَ: «أَقْصِرْ مِنْ جُشَائِكَ فَإِنَّ أَطْوَلَ النَّاسِ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَطْوَلُهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا» . رَوَاهُ فِي «شرح السّنة» . وروى التِّرْمِذِيّ نَحوه
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو ڈکار لیتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اپنا ڈکار کم کر، کیونکہ روز قیامت وہ شخص لوگوں سے بہت دیر تک بھوکا رہے گا جو دنیا میں خوب سیر ہو کر کھاتا تھا۔ “ شرح السنہ، اور امام ترمذی نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (14/ 250 تحت 4049) بلا سند عن يحيي البکاء عن ابن عمر، و أسنده الترمذي (2478) و قال: ’’حسن غريب‘‘ و سنده ضعيف. ٭ يحيي البکاء ضعيف و للحديث شواھد ضعيفة عند ابن ماجه (3351) وغيره.»
وعن كعب بن عياض قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن لكل امة فتنة وفتنة امتي المال» . رواه الترمذي وَعَن كَعْب بن عِياضٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمتي المالُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر امت کے لیے ایک فتنہ (آزمائش و امتحان) رہا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2336 وقال: حسن صحيح غريب)»