Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كتاب الرقاق
كتاب الرقاق
دنیا کی حیثیت، سواری کے کچھ دیر رکنے کی طرح
حدیث نمبر: 5188
وَعَن ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ عَلَى حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَسَدِهِ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَبْسُطَ لَكَ وَنَعْمَلَ. فَقَالَ: «مَا لِي وَلِلدُّنْيَا؟ وَمَا أَنَا وَالدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْن مَاجَه
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک چٹائی پر سو گئے جب اٹھے تو آپ کے جسد اطہر پر اس (چٹائی) کے نشانات تھے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں حکم فرمائیں تو ہم آپ کے لیے نرم بستر تیار کر دیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا دنیا سے کیا سروکار، میں اور دنیا تو ایسے ہیں جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے رکتا ہے اور پھر کوچ کر جاتا ہے اور اسے وہیں چھوڑ جاتا ہے۔ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أحمد (1/ 391 ح 3709) و الترمذي (2377 وقال: صحيح) و ابن ماجه (4109)»

قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته

قال الشيخ زبير على زئي: حسن