وعن محمد بن كعب القرظي قال: حدثني من سمع علي بن ابي طالب قال: إنا لجلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد فاطلع علينا مصعب بن عمير ما عليه إلا بردة له مرقوعة بفرو فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكى للذي كان فيه من النعمة والذي هو فيه اليوم ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كيف بكم إذا غدا احدكم في حلة وراح في حلة؟ ووضعت بين يديه صحفة ورفعت اخرى وسترتم بيوتكم كما تستر الكعبة؟» . فقالوا: يا رسول الله نحن يومئذ خير منا اليوم نتفرغ للعبادة ونكفى المؤنة. قال: «لا انتم اليوم خير منكم يومئذ» . رواه الترمذي وَعَن مُحَمَّد بن كَعْب الْقرظِيّ قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالب قَالَ: إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فَاطَّلَعَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ وَالَّذِي هُوَ فِيهِ الْيَوْمَ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ؟ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَة؟» . فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ. قَالَ: «لَا أَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
محمد بن کعب قرظی بیان کرتے ہیں، مجھے اس شخص نے حدیث بیان کی جس نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سنا: انہوں نے فرمایا: ہم مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے ان پر صرف ایک ہی چادر تھی جس پر چمڑے کے پیوند لگے ہوئے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا تو آپ ان کی سابقہ نعمتوں والی حالت اور آج کی حالت کا فرق دیکھ کر رونے لگے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری حالت کیا ہو گی جب تم میں سے کوئی شخص دن کے پہلے پہر ایک جوڑا پہنے گا اور دن کے دوسرے پہر دوسرا جوڑا پہنے گا، ان کے دسترخوان پر ایک طشتری رکھی جائے گی اور دوسری اٹھائی جائے گی، اور تم اپنے گھروں کو (پردوں اور سجاوٹ کی چیزوں سے) اس طرح ڈھانپو گے جس طرح کعبہ کو (غلافوں کے ساتھ) ڈھانپا جاتا ہے۔ “ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس وقت ہم آج کی نسبت بہتر ہوں گے، ہم عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور ہم کام کاج سے فارغ کر دیے جائیں گے (ملازم کام کریں گے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس وقت کی نسبت آج تم بہتر ہو۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2476 وقال: حسن غريب) ٭ فيه ’’من سمع‘‘ وھو مجھول.»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ياتي على الناس زمان الصابر فيهم على دينه كالقابض على الجمر» رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب إسنادا وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادًا
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ اس وقت اپنے دین پر قائم رہنے والا انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہو گا۔ “ ترمذی، اور فرمایا: اس حدیث کی سند غریب ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2260) ٭ عمر بن شاکر ضعيف و حديث الترمذي (3058) يغني عنه.»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كان امراؤكم خياركم واغنياؤكم سمحاءكم واموركم شورى بينكم فظهر الارض خير لكم من بطنها. وإذا كان امراؤكم شراركم واغنياؤكم بخلاؤكم واموركم إلى نسائكم فبطن الارض خير لكم من ظهرها» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنِكُمْ فَظَهْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا. وَإِذَا كَانَ أمراؤكم شِرَاركُمْ وأغنياؤكم بخلاؤكم وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ من ظهرهَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا حديثٌ غَرِيب
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے امراء وہ ہوں گے جو تم میں سب سے بہتر ہوں گے، تمہارے مال دار لوگ سخی اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوں گے تو پھر تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہو گی (یعنی زندگی موت سے بہتر ہو گی) اور جب تمہارے حکمران برے لوگ ہوں گے، تمہارے مال دار لوگ بخیل اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں گے تو پھر تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہو گا۔ “(موت زندگی سے بہتر ہو گی) ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2266) ٭ صالح بن بشير المري ضعيف و فيه علة أخري.»
وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يوشك الامم ان تداعى عليكم كما تداعى الاكلة إلى قصعتها» . فقال قائل: ومن قلة نحن يومئذ؟ قال: «بل انتم يومئذ كثير ولكن غثاء كغثاء السيل ولينزعن الله من صدور عدوكم المهابة منكم وليقذفن في قلوبكم الوهن» . قال قائل: يا رسول الله وما الوهن؟ قال: «حب الدنيا وكراهية الموت» . رواه ابو داود والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا» . فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «بَلْ أَنْتُم يَوْمئِذٍ كثير وَلَكِن غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ» . قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ “ کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔ “ کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! وہن کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (4297) [وعنه] والبيھقي في دلائل ا لنبوة (6/ 534)»
عن ابن عباس قال: «ما ظهر الغلول في قوم إلا القى الله في قلوبهم الرعب ولا فشا الزنا في قوم إلا كثر فيهم الموت ولا نقص قوم المكيال والميزان إلا قطع عنهم الرزق ولا حكم قوم بغير حق إلا فشا فيهم الدم ولا ختر قوم بالعهد إلا سلط عليهم عدوهم» . رواه مالك عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: «مَا ظَهَرَ الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ إِلَّا أَلْقَى اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ وَلَا فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ إِلَّا كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ وَلَا نَقَصَ قَوْمُ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا قَطَعَ عَنْهُمُ الرِّزْقَ وَلَا حَكَمَ قَوْمٌ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الدَّمُ وَلَا خَتَرَ قَوْمٌ بالعهد إِلا سُلِّطَ عَلَيْهِم عدوهم» . رَوَاهُ مَالك
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جس قوم میں خیانت عام ہو جائے تو اللہ ان کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے، جس قوم میں زنا پھیل جائے تو ان میں اموات بڑھ جاتی ہیں، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو ان سے رزق روک لیا جاتا ہے، جو قوم ناحق فیصلے کرنے لگے تو ان میں قتل عام ہو جاتا ہے اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے تو ان پر دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ املک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (2/ 460 ح 1013) ٭ السند فيه بلاغ، أي ھو غير متصل و حديث ابن ماجه (4019 حسن بتحقيقي): ’’يا معشر المھاجرين خصال خمس ابتليتم بھن‘‘ إلخ يغني عنه.»
عن عياض بن حمار المجاشعي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذات يوم في خطبته: الا إن ربي امرني ان اعلمكم ما جهلتم مما علمني يومي هذا: كل مال نحلته عبدا حلال وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم وإنه اتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم وحرمت عليهم ما احللت لهم وامرتهم ان يشركوا بي ما لم انزل به سلطانا وإن الله نظر إلى اهل الارض فمقتهم عربهم وعجمهم إلا بقايا من اهل الكتاب وقال: إنما بعثتك لابتليك وابتلي بك وانزلت عليك كتابا لا يغسله الماء تقرؤه نائما ويقظان وإن الله امرني ان احرق قريشا فقلت: يا رب إذا يثلغوا راسي فيدعوه خبزة قال: استخرجهم كما اخرجوك واغزهم نغزك وانفق فسننفق عليك وابعث جيشا نبعث خمسة مثله وقاتل بمن اطاعك من عصاك. رواه مسلم عَن عِيَاض بن حمَار الْمُجَاشِعِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ: أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا: كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حلالٌ وإِني خلقت عبَادي حنفَاء كلهم وَإنَّهُ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا وَإِنَّ اللَّهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَمَقَتَهُمْ عَرَبَهُمْ وَعَجَمَهُمْ إِلَّا بَقَايَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُكَ لِأَبْتَلِيَكَ وَأَبْتَلِيَ بِكَ وَأَنْزَلَتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لَا يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ وَإِنَّ الله أَمرنِي أَن أحرقَ قُريْشًا فَقلت: يَا رَبِّ إِذًا يَثْلَغُوا رَأْسِي فَيَدَعُوهُ خُبْزَةً قَالَ: اسْتَخْرِجْهُمْ كَمَا أَخْرَجُوكَ وَاغْزُهُمْ نُغْزِكَ وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقُ عَلَيْكَ وَابْعَثْ جَيْشًا نَبْعَثْ خَمْسَةً مِثْلَهُ وَقَاتِلْ بِمن أطاعك من عصاك. رَوَاهُ مُسلم
عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: ”سن لو! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس سے، جو اس نے مجھے آج تعلیم دی ہے، وہ چیزیں سکھاؤں جو تم نہیں جانتے، وہ تمام مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا ہے وہ حلال ہے، میں نے اپنے تمام بندوں کو حنفا (باطل سے دور رہنے والے اور حق قبول کرنے کے لیے تیار رہنے والے) پیدا کیا ہے، بے شک شیاطین ان کے پاس آتے ہیں اور وہ انہیں ان کے دین سے دور کر دیتے ہیں، اور میں نے ان کے لیے جو حلال کیا تھا وہ ان چیزوں کو ان پر حرام کر دیتے ہیں، اور وہ انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ شریک کریں جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری، بے شک اللہ نے اہل زمین کی طرف دیکھا تو اس نے اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے سوا ان کے عرب و عجم کو مبغوض ٹھہرا دیا، اور فرمایا: میں نے آپ کو صرف اس لیے مبعوث کیا ہے تا کہ میں آپ کو آزماؤں اور آپ کے ذریعے (آپ کی قوم کو) آزماؤں، میں نے آپ پر کتاب اتاری جسے پانی نہیں دھو سکتا (ناقابل تنسیخ ہے)، آپ اسے سوتے جاگتے پڑھیں گے، بے شک اللہ نے مجھے قریش کو ہلاک کرنے کا حکم فرمایا تو میں نے عرض کیا: میرے پروردگار! وہ میرا سر کچل دیں گے اور اسے روٹی بنا دیں گے، فرمایا: آپ انہیں نکال دیں جیسے انہوں نے آپ کو نکال دیا تھا آپ ان سے جہاد کریں، ہم آپ کو تیار کریں گے، آپ خرچ کریں، آپ پر خرچ کیا جائے گا، آپ لشکر بھیجیں، ہم بھی اس کی مثل (فرشتوں کے) پانچ لشکر بھیجیں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اطاعت گزاروں کے ساتھ نافرمانوں کے خلاف قتال کریں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (62/ 2865)»
وعن ابن عباس قال: لما نزلت (وانذر عشيرتك الاقربين) صعد النبي صلى الله عليه وسلم الصفا فجعل ينادي: «يا بني فهر يا بني عدي» لبطون قريش حتى اجتمعوا فقال: «ارايتكم لو اخبرتكم ان خيلا بالوادي تريد ان تغير عليكم اكنتم مصدقي؟» قالوا: نعم ما جربنا عليك إلا صدقا. قال: «فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد» . فقال ابو لهب: تبا لك سائر اليوم الهذا جمعتنا؟ فنزلت: (تبت يدا ابي لهب وتب) متفق عليه. وفي رواية نادى: «يا بني عبد مناف إنما مثلي ومثلكم كمثل رجل راى العدو فانطلق يربا اهله فخشي ان يسبقوه فجعل يهتف يا صباحاه» وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين) صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا فَجَعَلَ يُنَادِي: «يَا بَنِي فِهْرٍ يَا بَنِي عَدِيٍّ» لِبُطُونِ قُرَيْشٍ حَتَّى اجْتَمَعُوا فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟» قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا. قَالَ: «فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٌ شَدِيدٌ» . فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ: (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ) مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ نَادَى: «يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ فَانْطَلَقَ يَرْبَأُ أَهْلَهُ فَخَشِيَ أَنْ يسبقوه فَجعل يَهْتِف يَا صَبَاحَاه»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت: ”اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔ “ نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر آواز دینے لگے: بنو فہر! بنو عدی! (جو کہ قریش کے قبیلے ہیں) حتیٰ کہ وہ اکٹھے ہو گئے، تو فرمایا: ”مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟“ انہوں نے کہا: جی، ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں عذاب شدید سے پہلے تمہیں آگاہ کرنے والا ہوں۔ “ ابولہب نے کہا: باقی ایام میں تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا، تب سورت (تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ)”ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ “ نازل ہوئی۔ ایک دوسری روایت میں ہے، آپ نے آواز دی ”بنو عبد مناف! میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ اپنے اہل و عیال کو بچانے چلا تو اسے اندیشہ ہوا کہ وہ (دشمن) اس پر سبقت لے جائیں گے تو وہ (دشمن کی اطلاع دینے کے لیے) زور زور سے کہتا ہے: یا صبا حاہ۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4770) و مسلم (355/ 208 و 353 / 207)»
وعن ابي هريرة قال: لما نزلت (وانذر عشيرتك الاقربين) دعا النبي صلى الله عليه وسلم قريشا فاجتمعوا فعم وخص فقال: «يا بني كعب بن لؤي انقذوا انفسكم من النار يا بني مرة بن كعب انقذوا انفسكم من النار. يا بني عبد شمس انقذوا انفسكم من النار يا بني عبد مناف انقذوا انفسكم من النار. با بني هاشم انقذوا انفسكم من النار. يا بني عبد المطلب انقذوا انفسكم من النار. يا فاطمة انقذي نفسك من النار فإني لا املك لكم من الله شيئا غير ان لكم رحما سابلها ببلالها» . رواه مسلم وفى المتفق عليه قال: «يا معشر قريش اشتروا انفسكم لا اغني عنكم من الله شيئا ويا صفية عمة رسول الله لا اغني عنك من الله شيئا. ويا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا اغني عنك من الله شيئا» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين) دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَاجْتَمَعُوا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ: «يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ من النَّار يَا بني عبد منَاف أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. با بَنِي هَاشِمٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بني عبد الْمطلب أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفَى الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ قَالَ: «يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا. وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت: ”اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈراؤ۔ “ نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو آواز دی، وہ سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام و خاص سبھی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے بنی کعب بن لؤی! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے آزاد کرا لو، اے بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، اے بنو عبد شمس! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، بنو عبد المطلب! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، فاطمہ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔ میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، البتہ جو حق قرابت ہے میں اسے احسان کے ساتھ نبھاؤں گا۔ “ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو (ایمان کے ساتھ آگ سے) بچاؤ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، بنو عبد مناف! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، عباس بن عبد المطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا، فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو لے لو، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ “ رواہ مسلم و البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (348/ 204) و حديث ’’يا معشر قريش‘‘ إلخ متفق عليه (البخاري: 2753 و مسلم: 351 / 206)»
عن ابي موسى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: امتي هذه امة مرحومة ليس عليها عذاب في الآخرة عذابها في الدنيا: الفتن والزلازل والقتل. رواه ابو داود عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا: الْفِتَنُ وَالزَّلَازِلُ وَالْقَتْلُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری یہ امت، امت مرحومہ (جس پر رحم کیا گیا) ہے، اس پر آخرت میں (شدید) عذاب نہیں، دنیا میں اس کا عذاب فتنوں، زلزلوں اور قتل کی صورت میں ہو گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (4278)»
وعن ابي عبيدة ومعاذ بن جبل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن هذا الامر بدا نبوة ورحمة ثم يكون خلافة ورحمة ثم ملكا عضوضا ثم كان جبرية وعتوا وفسادا في الارض يستحلون الحرير والفروج والخمور يرزقون على ذلك وينصرون حتى يلقوا الله» رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ بَدَأَ نُبُوَّةً وَرَحْمَةً ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً ثُمَّ مُلْكًا عَضُوضًا ثُمَّ كَانَ جَبْرِيَّةً وَعُتُوًّا وَفَسَادًا فِي الْأَرْضِ يَسْتَحِلُّونَ الْحَرِيرَ وَالْفُرُوجَ وَالْخُمُورَ يُرْزَقُونَ عَلَى ذَلِكَ وَيُنْصَرُونَ حَتَّى يَلْقَوُا اللَّهَ» رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
ابو عبیدہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس دین کا آغاز نبوت و رحمت سے ہوا، پھر خلافت و رحمت ہو گی، پھر ظالم بادشاہ ہوں گے، پھر زمین میں جبر، زیادتی اور فساد ہو گا، وہ ریشم، شرم گاہوں (زنا) اور شراب کو حلال سمجھیں گے، انہیں اسی حالت پر رزق دیا جائے گا اور ان کی مدد کی جاتی رہے گی حتیٰ کہ وہ اللہ سے جا ملیں گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «[5375. 5376] إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (5616، نسخة محققة: 5228) [و أبو يعلي (873)] ٭ ليث بن أبي سليم: ضعيف، و للحديث شواھد.»