Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كتاب الرقاق
كتاب الرقاق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرانے کا حکم
حدیث نمبر: 5372
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين) صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا فَجَعَلَ يُنَادِي: «يَا بَنِي فِهْرٍ يَا بَنِي عَدِيٍّ» لِبُطُونِ قُرَيْشٍ حَتَّى اجْتَمَعُوا فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟» ‏‏‏‏ قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا. قَالَ: «فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٌ شَدِيدٌ» . فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ: (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ) مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ نَادَى: «يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ فَانْطَلَقَ يَرْبَأُ أَهْلَهُ فَخَشِيَ أَنْ يسبقوه فَجعل يَهْتِف يَا صَبَاحَاه»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب یہ آیت: اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔ نازل ہوئی تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر آواز دینے لگے: بنو فہر! بنو عدی! (جو کہ قریش کے قبیلے ہیں) حتیٰ کہ وہ اکٹھے ہو گئے، تو فرمایا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ انہوں نے کہا: جی، ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں عذاب شدید سے پہلے تمہیں آگاہ کرنے والا ہوں۔ ابولہب نے کہا: باقی ایام میں تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا، تب سورت (تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ) ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ نازل ہوئی۔ ایک دوسری روایت میں ہے، آپ نے آواز دی بنو عبد مناف! میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ اپنے اہل و عیال کو بچانے چلا تو اسے اندیشہ ہوا کہ وہ (دشمن) اس پر سبقت لے جائیں گے تو وہ (دشمن کی اطلاع دینے کے لیے) زور زور سے کہتا ہے: یا صبا حاہ۔ متفق علیہ۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (4770) و مسلم (355/ 208 و 353 / 207)»

قال الشيخ الألباني: مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه