وعن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «بحسب امريء من الشر ان يشار إليه بالاصابع في دين او دنيا إلا من عصمه الله» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بِحَسب امريءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يُشَارَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فِي دِينٍ أَوْ دُنْيَا إِلَّا مَنْ عَصَمَهُ اللَّهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے یہی شر کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے معاملے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں (اس کی شہرت ہو جائے) مگر وہ شخص جسے اللہ محفوظ رکھے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6978، نسخة محققة: 6580) ٭ کلثوم بن محمد بن أبي سدرة الحلبي ضعيف علي الراجح و عطاء بن أبي مسلم الخراساني عن أبي ھريرة: مرسل.»
عن ابي تميمة قال: شهدت صفوان واصحابه وجندب يوصيهم فقالوا: هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سمع إن اول ما ينتن من الإنسان بطنه فمن استطاع ان لا ياكل إلا طيبا فليفعل ومن استطاع ان لا يحول بينه وبين الجنة ملء كف من دم اهراقه فليفعل. رواه البخاري عَن أبي تَمِيمَة قَالَ: شَهِدْتُ صَفْوَانَ وَأَصْحَابَهُ وَجُنْدَبٌ يُوصِيهِمْ فَقَالُوا: هَلْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ سَمَّعَ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُنْتِنُ مِنَ الْإِنْسَانِ بَطْنُهُ فَمن اسْتَطَاعَ أَن لَا يَأْكُل إِلا طيبا فَلْيَفْعَلْ وَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ مِلْءُ كَفٍّ مِنْ دَمٍ أَهَرَاقَهُ فَلْيفْعَل. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوتمیمہ ؒ بیان کرتے ہیں، میں صفوان ؒ اور ان کے ساتھیوں کے پاس موجود تھا اور جندب رضی اللہ عنہ انہیں وعظ و نصیحت فرما رہے تھے، انہوں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص شہرت کی خاطر کوئی عمل کرتا ہے تو روز قیامت اللہ اس کو رسوا کرے گا (کہ یہ اس نیت سے عمل کرتا تھا) اور جو اپنی جان کو مشقت میں ڈالتا ہے تو اللہ روز قیامت اسے مشقت میں مبتلا کر دے گا۔ “ انہوں نے کہا: ہمیں وصیت فرمائیں: انہوں نے فرمایا: انسان کے جسم سے اس کا پیٹ سب سے پہلے خراب ہوتا ہے، لہذا جو شخص استطاعت رکھتا ہو کہ وہ صرف حلال ہی کھائے گا تو اسے ایسے ہی کرنا چاہیے، اور جو شخص استطاعت رکھے کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک چلو خون، جو اس نے ناجائز بہایا ہو وہ حائل نہ ہو تو وہ ضرور ناجائز خون بہانے سے بچے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (7152)»
وعن عمر بن الخطاب انه خرج يوما إلى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد معاذ بن جبل قاعدا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم يبكي فقال: ما يبكيك؟ قال: يبكيني شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن يسير الرياء شرك ومن عادى لله وليا فقد بارز الله بالمحاربة إن الله يحب الابرار الاتقياء الاخفياء الذين إذا غابوا لم يتفقدوا وإن حضروا لم يدعوا ولم يقربوا قلوبهم مصابيح الهدى يخرجون من كل غبراء مظلمة» . رواه ابن ماجه والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن عمر بن الْخطاب أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَاعِدًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: يُبْكِينِي شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ وَمَنْ عَادَى لِلَّهِ وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَ اللَّهَ بِالْمُحَارَبَةِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِيَاءَ الْأَخْفِيَاءَ الَّذِينَ إِذَا غَابُوا لَمْ يُتَفَقَّدُوا وَإِنْ حَضَرُوا لَمْ يُدْعَوْا وَلَمْ يُقَرَّبُوا قُلُوبُهُمْ مَصَابِيحُ الْهُدَى يَخْرُجُونَ مِنْ كُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد کی طرف آئے تو انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس روتا ہوا دیکھ کر ان سے پوچھا: تمہیں کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے وہ چیز رلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”معمولی سی ریا کاری بھی شرک ہے، اور جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی تو وہ شخص اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے میدان میں اتر آیا، بے شک اللہ ایسے نیک، متقی اور گم نام لوگوں کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ غائب ہوں تو انہیں تلاش نہ کیا جاتا ہو اور اگر موجود ہوں تو انہیں مدعو نہیں کیا جاتا اور نہ انہیں قریب کیا جاتا ہے۔ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، وہ ہر قسم کے گرد و غبار سے دور ہیں۔ “(کسی فتنے کا شکار نہیں ہوتے) اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (3989) و البيھقي في شعب الإيمان (6812)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن العبد إذا صلى في العلانية فاحسن وصلى في السر فاحسن قال الله تعالى: هذا عبدي حقا. رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا صَلَّى فِي الْعَلَانِيَةِ فَأَحْسَنَ وَصَلَّى فِي السِّرِّ فَأَحْسَنَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: هَذَا عَبْدِي حَقًّا. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بندہ جب علانیہ نماز پڑھتا ہے تو اچھے طریقے سے پڑھتا ہے اور تنہائی میں نماز پڑھتا ہے تو بھی اچھے طریقے سے پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ میرا بندہ مخلص ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (4200) ٭ بقية مدلس وعنعن و قال أبو حاتم: ’’ھذا حديث منکر، يشبه أن يکون من حديث عباد بن کثير‘‘.»
وعن معاذ بن جبل ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يكون في آخر الزمان اقوام إخوان العلانية اعداء السريرة» . فقيل: يا رسول الله وكيف يكون ذلك. قال: «ذلك برغبة بعضهم إلى بعض ورهبة بعضهم من بعض» وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ إِخْوَانُ الْعَلَانِيَةِ أَعْدَاءُ السَّرِيرَةِ» . فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ. قَالَ: «ذَلِكَ بِرَغْبَةِ بَعْضِهِمْ إِلَى بَعْضٍ وَرَهْبَةِ بَعْضِهِمْ من بعض»
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آخری دور میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے کہ وہ ظاہری طور پر دوست ہوں گے جبکہ باطنی طور پر دشمن ہوں گے۔ “ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک دوسرے سے رغبت (یعنی مفاد) اور ایک دوسرے سے خوف (یعنی نقصان) کے پیش نظر ہو گا۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 235 ح 22405) ٭ فيه أبو بکر بن أبي مريم الغساني: ضعيف مختلط، رواه عن حبيب بن عبيد عن معاذ به و حبيب بن عبيد الرحبي لم يدرک سيدنا معاذ بن جبل رضي الله عنه فالسند منقطع.»
وعن شداد بن اوس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من صلى يرائي فقد اشرك ومن صام يرائي فقد اشرك ومن تصدق يرائي فقد اشرك» رواهما احمد وَعَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «من صَلَّى يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ وَمَنْ صَامَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ وَمَنْ تَصَدَّقَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ» رَوَاهُمَا أَحْمد
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص دکھلاوے کی خاطر نماز پڑھتا ہے تو اس نے شرک کیا، جو شخص دکھلاوے کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس نے شرک کیا، اور جو شخص دکھلاوے کی خاطر صدقہ کرتا ہے تو اس نے شرک کیا۔ “ دونوں احادیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (4/ 126 ح 17270)»
وعنه انه بكى فقيل له: ما يبكيك؟ قال: شيء سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول فذكرته فابكاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اتخوف على امتي الشرك والشهوة الخفية» قال: قلت يا رسول الله اتشرك امتك من بعدك؟ قال: «نعم اما إنهم لا يعبدون شمسا ولا قمرا ولا حجرا ولا وثنا ولكن يراؤون باعمالهم. والشهوة الخفية ان يصبح احدهم صائما فتعرض له شهوة من شهواته فيترك صومه» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَنْهُ أَنَّهُ بَكَى فَقِيلَ لَهُ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: شَيْءٌ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فَذَكَرْتُهُ فَأَبْكَانِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «أَتَخوَّفُ على أمتِي الشِّرْكِ وَالشَّهْوَةِ الْخَفِيَّةِ» قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُشْرِكُ أُمَّتُكَ مِنْ بَعْدِكَ؟ قَالَ: «نَعَمْ أَمَا إِنَّهُمْ لَا يَعْبُدُونَ شَمْسًا وَلَا قَمَرًا وَلَا حَجَرًا وَلَا وَثَنًا وَلَكِنْ يُرَاؤُونَ بِأَعْمَالِهِمْ. وَالشَّهْوَةُ الْخَفِيَّةُ أَنْ يُصْبِحَ أَحَدُهُمْ صَائِمًا فَتَعْرِضَ لَهُ شَهْوَةٌ مِنْ شَهَوَاتِهِ فَيَتْرُكَ صَوْمَهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رونے لگے، ان سے پوچھا گیا، تمہیں کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: وہ چیز جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی سنی، میں نے اسے یاد کیا تو اس نے مجھے رلا دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے اپنی امت کے بارے میں شرک اور مخفی خواہش کا اندیشہ ہے۔ “ راوی بیان کرتا ہے، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، البتہ وہ سورج کی چاند کی پوجا نہیں کریں گے اور نہ ہی پتھر و صنم کی، بلکہ وہ اپنے اعمال کا دکھلاوا کریں گے، اور مخفی خواہش یہ ہے کہ ان میں سے کوئی روزے کی حالت میں صبح کرے گا، لیکن اس کی خواہشات میں سے کوئی خواہش اس کے سامنے آ جائے گی تو وہ اپنا روزہ توڑ دے گا۔ “ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6830، نسخة محققة: 6411) [و أحمد (4/ 123. 124)] ٭ فيه عبد الواحد بن زيد البصري ضعيف متروک کما في الجرح و التعديل (6/ 20) و للحديث طريق آخر عند ابن ماجه (4205) وسنده ضعيف و للحديث شواھد ضعيفة والأحاديث الصحيحة تخالفه في عبادة الأوثان.»
وعن ابي سعيد الخدري قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نتذاكر المسيح الدجال فقال: «الا اخبركم بما هو اخوف عليكم عندي من المسيح الدجال؟» فقلنا: بلى يا رسول الله قال: «الشرك الخفي ان يقوم الرجل فيصلي فيزيد صلاته لما يرى من نظر رجل» . رواه ابن ماجه وَعَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: «أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ؟» فَقُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «الشِّرْكُ الْخَفِيُّ أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ فَيُصَلِّيَ فَيَزِيدَ صَلَاتَهُ لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رجلٍ» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم مسیح دجال کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس چیز کے متعلق نہ بتاؤں جس کا مجھے، تمہارے متعلق، مسیح دجال سے بھی زیادہ اندیشہ ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ضرور بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”شرک خفی، وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص مجھے دیکھ رہا ہے تو وہ (اسے دکھانے کے لیے) اپنی نماز لمبی کر دیتا ہے (آہستہ آہستہ لمبی قراءت کے ساتھ زیادہ وقت لگاتا ہے)۔ “ حسن، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه ابن ماجه (4204)»
وعن محمود بن لبيد ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن اخوف ما اخاف عليكم الشرك الاصغر» قالول: يا رسول الله وما الشرك الاصغر؟ قال: «الرياء» . رواه احمد. وزاد البيهقي في «شعب الإيمان» : يقول الله لهم يوم يجازي العباد باعمالهم: اذهبوا إلى الذين كنتم تراؤون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء وخيرا؟ وَعَن مَحْمُود بن لبيد أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ» قالول: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: «الرِّيَاءُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَزَادَ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» : يَقُولُ اللَّهُ لَهُمْ يَوْمَ يُجَازِي الْعِبَادَ بِأَعْمَالِهِمْ: اذْهَبُوا إِلَى الَّذِينَ كُنْتُمْ تُرَاؤُونَ فِي الدُّنْيَا فَانْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً وَخَيْرًا؟
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہارے متعلق شرک اصغر کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے۔ “ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! شرک اصغر سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ریا کاری۔ “ اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں یہ اضافہ نقل کیا ہے: ”جس روز اللہ بندوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا تو وہ ان (ریاکاروں) کو فرمائے گا: انہی کی طرف چلے جاؤ جن کو تم دنیا میں (اپنے اعمال) دکھایا کرتے تھے، دیکھو کیا تم ان کے پاس جزا اور خیر و بھلائی پاتے ہو؟“ اسنادہ حسن، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (5/ 428 ح 24036) والبيھقي في شعب الإيمان (6831، نسخة محققة: 6412)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو ان رجلا عمل عملا في صخرة لا باب لها ولا كوة خرج عمله إلى الناس كائنا ما كان» وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ أَنَّ رَجُلًا عَمِلَ عَمَلًا فِي صَخْرَةٍ لَا بَابَ لَهَا وَلَا كَوَّةَ خَرَجَ عَمَلُهُ إِلَى النَّاسِ كَائِنا مَا كَانَ»
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی آدمی کسی ایسی چٹان میں کوئی عمل کرتا ہے جس کا کوئی دروازہ اور روشن دان نہیں، تو اس کا یہ عمل جیسا بھی ہو لوگوں پر آشکار ہو جاتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6940، نسخة محققة: 6541) [و أحمد (3/ 28) والحاکم (4/ 314 ح 7877) و ابن حبان (الإحسان:5649/ 5678) و ابن وھب صرح بالسماع عنده] و أصله عند ابن ماجه (4167)»