وعن جندب قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من سمع سمع الله به ومن يرائي يرائي الله به» . متفق عليه وَعَنْ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ وَمَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللَّهُ بِهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص شہرت کی خاطر کوئی عمل کرتا ہے تو (روز قیامت) اللہ اس شخص کو (لوگوں کے سامنے) ذلیل فرمائے گا (کہ اس نے اس نیت سے عمل کیا تھا) اور جو دکھلاوا کرتا ہے تو اللہ اسے (لوگوں کو) دکھلا دے گا (کہ یہ شخص ریا کار ہے)۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6499) و مسلم (48/ 2987)»
وعن ابي ذر قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارايت الرجل يعمل الخير ويحمده الناس عليه. وفي رواية: يحبه الناس عليه قال: «تلك عاجل بشرى المؤمن» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْخَيْرِ وَيَحْمَدُهُ النَّاسُ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: يُحِبُّهُ النَّاسُ عَلَيْهِ قَالَ: «تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، آپ بتائیں، ایک آدمی نیکی کا کام کرتا ہے، اس پر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، ایک دوسری روایت میں ہے، اس پر لوگ اسے پسند کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومن کے لیے پیشگی بشارت ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (166/ 2642)»
عن ابي سعد بن ابي فضالة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا جمع الله الناس يوم القيامة ليوم لا ريب فيه نادى مناد: من كان اشرك في عمل عمله لله احدا فليطلب ثوابه من عند غير الله فإن الله اغنى الشركاء عن الشرك. رواه احمد عَن أبي سعدِ بن أبي فَضَالَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا جَمَعَ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ نَادَى مُنَادٍ: مَنْ كانَ أشركَ فِي عملٍ عملَه للَّهِ أحدا فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ
ابوسعید بن ابی فضالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ لوگوں کو روز قیامت، جس میں کوئی شک نہیں، (حساب کے لیے) جمع فرمائے گا تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: جس نے کسی ایسے عمل میں، جسے اس نے اکیلے اللہ کے لیے کیا تھا، شریک بنایا تو وہ اپنا ثواب، اللہ کے علاوہ کسی اور سے طلب کرے، کیونکہ اللہ (دوسرے) تمام شریکوں کے مقابلے میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہے۔ “ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (3/ 466 ح 15932) [و الترمذي (3154) و ابن ماجه (4203)]»
وعن عبد الله بن عمرو انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من سمع الناس بعمله سمع الله به اسامع خلقه وحقره وصغره» . رواه البيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن عبد الله بن عَمْرو أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَمَّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ أَسَامِعَ خَلْقِهِ وَحَقَّرَهُ وَصَغَّرَهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اپنے عمل کے متعلق لوگوں کو سناتا ہے تو اللہ اس کے متعلق اپنی مخلوق کے کانوں تک سنا دیتا ہے اور وہ اسے حقیر و ذلیل کر دیتا ہے۔ “ صحیح، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه البيھقي في شعب الإيمان (6822، نسخة محققة: 6403) [و أحمد (2/ 162، 212، 223)] ٭ قلت: فيه رجل يقال له أبو يزيد وھو خيثمة بن عبد الرحمٰن کما في حلية الأولياء (4/ 123) و مجمع الزوائد (10/ 222) فالحديث صحيح والحمد للّٰه.»
وعن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كانت نيته طلب الآخرة جعل الله غناه في قلبه وجمع له شمله واتته الدنيا وهي راغمة ومن كانت نيته طلب الدنيا جعل الله الفقر بين عينيه وشتت عليه امره ولا ياتيه منها إلا ما كتب له» . رواه الترمذي ورواه احمد وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ طَلَبَ الْآخِرَةِ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ طَلَبَ الدُّنْيَا جَعَلَ اللَّهُ الْفَقْرَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَشَتَّتَ عَلَيْهِ أَمْرَهُ وَلَا يَأْتِيهِ مِنْهَا إِلاَّ مَا كُتِبَ لَهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَرَوَاهُ أَحْمد
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی نیت طلب آخرت ہو تو اللہ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے، اور اس کے معاملے کو مجتمع فرما دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس چلی آتی ہے، اور جس شخص کی نیت طلب دنیا ہو تو اللہ اس کی پیشانی پر فقر ثبت فرما دیتا ہے، اس کے معاملے کو منتشر کر دیتا ہے اور دنیا اسے اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ نے اس کے لیے لکھ دی ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2465 وقال: حسن غريب) و أحمد (5/ 183 ح 21925) و للحديث الآتي يغني عنه) ٭ يزيد بن أبان الرقاشي زاھد ضعيف.»
والدارمي عن ابان عن زيد بن ثابت وَالدَّارِمِيُّ عَنْ أَبَانٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ
امام دارمی نے اسے ابان کی سند سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الدارمي (1/ 75 ح 235) ٭ أبان ھو ابن عثمان و سنده صحيح، وانظر سنن أبي داود (3660) و الترمذي (2656) وغيرهما.»
وعن ابي هريرة قال: قلت: يا رسول الله بينا انا في بيتي في مصلاي إذ دخل علي رجل فاعجبني الحال التي رآني عليها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رحمك الله يا ابا هريرة لك اجران: اجر السر واجر العلانية. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بَيْنَا أَنَا فِي بَيْتِي فِي مُصَلَّايَ إِذْ دَخَلَ عَلَيَّ رَجُلٌ فَأَعْجَبَنِي الْحَالُ الَّتِي رَآنِي عَلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَكَ اللَّهُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ لَكَ أَجْرَانِ: أَجْرُ السِّرِّ وَأَجْرُ الْعَلَانِيَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس اثنا میں کہ میں اپنے گھر میں اپنی جائے نماز پر ہوتا ہوں تو اچانک ایک آدمی میرے پاس آتا ہے مجھے وہ اپنی حالت اچھی لگتی ہے جس میں وہ مجھے دیکھتا ہے، (کیا یہ بھی ریا کاری ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! اللہ تم پر رحم فرمائے، تمہارے لیے دگنا اجر ہے، پوشیدہ کا اجر اور ظاہر کا اجر۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2384) [و ابن ماجه (4226)] ٭ حبيب بن أبي ثابت مدلس و عنعن.»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يخرج في آخر الزمان رجال يختلون الدنيا بالدين يلبسون للناس جلود الضان من اللين السنتهم احلى من السكر وقلوبهم قلوب الذئاب يقول الله: «ابي يغترون ام علي يجترؤون؟ فبي حلفت لابعثن على اولئك منهم فتنة تدع الحليم فيهم حيران» . رواه الترمذي وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ يَقُولُ اللَّهُ: «أَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عليَّ يجترؤون؟ فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تدع الْحَلِيم فيهم حيران» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو دین کے بدلے میں دنیا طلب کریں گے، وہ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بکری کی کھال پہنیں گے، ان کی زبانیں (یعنی گفتگو) چینی سے زیادہ میٹھی ہو گی، اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں جیسے ہوں گے، اللہ فرماتا ہے، وہ دھوکے میں مبتلا ہیں (کہ میں انہیں مہلت دے رہا ہوں) یا وہ میرے خلاف جرأت کرتے ہیں، میں اپنی قسم اٹھاتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں پر انہی میں سے ایک فتنہ برپا کروں گا کہ وہ ان کے حلیم و بردبار شخص کو بھی حیران چھوڑ دے گا۔ “ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2404) ٭ فيه يحيي بن عبيد الله متروک و أفحش الحاکم فرماه بالوضع، قلت: رواية المتروک مثل رواية الکذاب، لا يستشھد به ولا يعتبر أبدًا.»
وعن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله تبارك وتعالى قال: لقد خلقت خلقا السنتهم احلى من السكر وقلوبهم امر من الصبر فبي حلفت لاتيحنهم فتنة تدع الحليم فيهم حيران فبي يغترون ام علي يجترؤون؟ رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: لَقَدْ خَلَقْتُ خَلْقًا أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ وَقُلُوبُهُمْ أَمَرُّ مِنَ الصَّبْرِ فَبِي حَلَفْتُ لَأُتِيحَنَّهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ فِيهِمْ حَيْرَانَ فَبِي يغترّون أم عليَّ يجترؤونَ؟ رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا حديثٌ غَرِيب
ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے کہ ان کی زبانیں چینی سے زیادہ شیریں اور ان کے دل ایلوے سے زیادہ کڑوے ہیں، میں اپنی ذات کی قسم اٹھاتا ہوں! میں انہیں ایک فتنے میں مبتلا کروں گا کہ وہ ان کے حلیم (عقل مند و بردبار) شخص کو بھی حیران چھوڑ دے گا، کیا وہ میری وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہوئے ہیں یا میرے خلاف جرأت کرتے ہیں؟“ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2405) ٭ حمزة بن أبي محمد: ضعيف.»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لكل شيء شرة ولكل شرة فترة فإن صاحبها سدد وقارب فارجوه وإن اشير إليه بالاصابع فلا تعدوه» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ شِرَّةٌ وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةٌ فَإِنْ صَاحِبُهَا سَدَّدَ وَقَارَبَ فَارْجُوهُ وَإِنْ أُشِيرَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فَلَا تعدوه» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک ہر چیز کے لیے رغبت و نشاط ہوتی ہے اور ہر رغبت و نشاط کے لیے ضعف و سستی بھی ہوتی ہے، اگر اس رغبت رکھنے والے نے میانہ روی رکھی اور افراط سے احتراز کیا تو اس کی (کامیابی کی) امید رکھو اور اگر اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں (اس کی مشہوری ہو جائے) تو اسے شمار نہ کرو۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (2452 وقال: حسن صحيح غريب)»