وعن ابن عمر قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يتختم في يساره. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يتختم فِي يسَاره. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4227) و حديثه بطوله شاذ و لھذا المتن شاھد في صحيح مسلم (2095) و به صح ھذا المتن فقط دون المتن الطويل.»
وعن علي رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه واخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: «إن هذين حرام على ذكور امتي» . رواه احمد وابو داود والنسائي وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ حَرِيرًا فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ وَأَخَذَ ذَهَبًا فَجَعَلَهُ فِي شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمتي» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریشم پکڑا اور اسے اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونا پکڑا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ لیا، پھر فرمایا: ”بے شک یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ “ صحیح، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (96/1 ح 751) و أبو داود (4057) و النسائي (160/8ح 5147. 5150)»
وعن معاوية إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ركوب النمور وعن لبس الذهب إلا مقطعا. رواه ابو داود والنسائي وَعَن مُعَاوِيَةُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ رُكُوبِ النُّمُورِ وَعَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چیتوں کی کھال پر سواری کرنے اور سونا پہننے سے منع فرمایا، ہاں البتہ ٹکڑوں کی شکل میں پہننے کی رخصت فرمائی۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4239) و النسائي (161/8 ح 5152. 5154)»
وعن بريدة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لرجل عليه خاتم من شبه: «ما لي اجد منك ريح الاصنام؟» فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد فقال: «ما لي ارى عليك حلية اهل النار؟» فطرحه فقال: يا رسول الله من اي شيء اتخذه؟ قال: «من ورق ولا تتمه مثقالا» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وَعَنْ بُرَيْدَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ عَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ شَبَهٍ: «مَا لِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ؟» فَطَرَحَهُ ثُمَّ جَاءَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَى عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَهْلِ النَّارِ؟» فَطَرَحَهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ أَتَّخِذُهُ؟ قَالَ: «مِنْ وَرِقٍ وَلَا تُتِمَّهُ مِثْقَالا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تو اسے فرمایا: ”مجھے کیا ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو محسوس کر رہا ہوں؟“ اس شخص نے اسے پھینک دیا۔ پھر وہ آیا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کیا ہے کہ میں تجھ پر جہنمیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں؟“ اس نے اسے پھینک دیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کس دھات سے انگوٹھی بنواؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چاندی سے اور وہ بھی مثقال سے کم ہو۔ “ اور محی السنہ ؒ نے فرمایا: حق مہر کے بارے میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ”تلاش کرو خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہو۔ “ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (1785 وقال: غريب) و أبو داود (4223) والنسائي (172/8 ح 5198) والبغوي في شرح السنة (59/12 بعد ح 3130) و الحديث المذکور تقدم (3202)»
وعن ابن مسعود قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يكره عشر خلال: الصفرة يعني الخلوق وتغيير الشيب وجر الازرار والتختم بالذهب والتبرج بالزينة لغير محلها والضرب بالكعاب والرقى إلا بالمعوذات وعقد التمائم وعزل الماء لغير م حله وفساد الصبي غير محرمه. رواه ابو داود والنسائي وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ عَشْرَ خِلَالٍ: الصُّفْرَةَ يَعْنِي الخلوق وتغييرَ الشيب وجر الأزرار وَالتَّخَتُّمَ بِالذَّهَبِ وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحِلِّهَا وَالضَّرْبَ بِالْكِعَابِ وَالرُّقَى إِلَّا بِالْمُعَوِّذَاتِ وَعَقْدَ التَّمَائِمِ وَعَزْلَ الْمَاءِ لِغَيْرِ م حِلِّهِ وَفَسَادَ الصَّبِيِّ غَيْرَ مُحَرِّمِهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس باتیں ناپسند فرماتے تھے۔ زعفران لگانا، بڑھاپے کو (کالا خضاب لگا کر) تبدیلی کرنا، تہبند گھسیٹنا، سونے کی انگوٹھی پہننا، موقع محل کے بغیر بناؤ سنگار ظاہر کرنا، شطرنج کھیلنا، معوذات کے علاوہ کسی اور ورد سے دم کرنا، منکے باندھنا، پانی (یعنی منی) کا اس کی اصل جگہ (شرم گاہ) کے بغیر خارج کرنا اور بچے کے دودھ کو خراب کرنا (یعنی مدت رضاعت میں عورت سے جماع کرنا) لیکن اسے حرام قرار نہیں دیا گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4222) و النسائي (141/8 ح 5091) ٭ عبد الرحمٰں بن حرملة صدوق و ثقه الجمھور و لکن في سماعه من عبد الله بن مسعود رضي الله عنه نظر فالخبر معلول.»
وعن ابن الزبير: ان مولاة لهم ذهبت بابنة الزبير إلى عمر بن الخطاب وفي رجلها اجراس فقطعها عمر وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «مع كل جرس شيطان» . رواه ابو داود وَعَن ابنِ الزبيرِ: أَنَّ مَوْلَاةً لَهُمْ ذَهَبَتْ بِابْنَةِ الزُّبَيْرِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَفِي رِجْلِهَا أَجْرَاسٌ فَقَطَعَهَا عمر وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَعَ كُلِّ جَرَسٍ شَيْطَانٌ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی تھی وہ زبیر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو، جس کے پاؤں میں گھنگھروں تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئی، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کاٹ ڈالا اور فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر گھنٹی (گھونگرو) کے ساتھ شیطان ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4230) ٭ قال المنذري: ’’و مولاة لھم مجھولة و عامر (ابن عبد الله بن الزبير) لم يدرک عمر بن الخطاب‘‘.»
وعن بنانة مولاة عبد الرحمن بن حيان الانصاري كانت عند عائشة إذ دخلت عليها بجارية وعليها جلاجل يصوتن فقالت: لا تدخلنها علي إلا ان تقطعن جلاجلها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تدخل الملائكة بيتا فيه اجراس» . رواه ابو داود وَعَنْ بُنَانَةَ مَوْلَاةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَيَّانَ الْأنْصَارِيّ كانتْ عندَ عائشةَ إِذْ دُخِلَتْ عَلَيْهَا بِجَارِيَةٍ وَعَلَيْهَا جَلَاجِلُ يُصَوِّتْنَ فَقَالَتْ: لَا تُدْخِلُنَّهَا عَلَيَّ إِلَّا أَنْ تُقَطِّعُنَّ جَلَاجِلَهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ أَجْرَاس» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبدالرحمٰن بن حیان انصاری رضی اللہ عنہ کی آزاد کردہ لونڈی بنانہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھی، اچانک کوئی بچی ان کے پاس لائی گئی اس نے گھنگھرو پہن رکھے تھے جن سے آواز آ رہی تھی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے میرے پاس اس وقت تک مت آنے دینا جب تک تم اس کے گھنگھرو نہیں کاٹ دیتے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس گھر میں گھنٹی ہو اس میں (رحمت کے) فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (4231) ٭ في السند بنانة لا تعرف و ابن جريج مدلس و عنعن.»
وعن عبد الرحمن بن طرفة ان جده عرفجة بن اسعد قطع انفه يوم الكلاب فاتخذ انفا من ورق فانتن عليه فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يتخذ انفا من ذهب. رواه الترمذي وابو داود والنسائي وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ أَنَّ جَدَّهُ عَرفجةَ بن أسعد قُطِعَ أَنْفُهُ يَوْمَ الْكُلَابِ فَاتَّخَذَ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيْهِ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
عبد الرحمن بن طرفہ سے روایت ہے کہ کلاب کی لڑائی کے دن ان کے دادا عرفجہ بن اسد رضی اللہ عنہ کی ناک کاٹ دی گئی تو انہوں نے چاندی کی ناک لگا لی، وہ بدبودار ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1770 و قال:حسن) و أبو داود (4232) و النسائي (163/8. 164 ح 5164. 5165)»
وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من احب ان يحلق حبيبه حلقة من نار فليحلقه حلقة من ذهب ومن احب ان يطوق حبيبه طوقا من نار فليطوقه طوقا من ذهب ومن احب ان يسور حبيبه سوارا من نار فليسوره من ذهب ولكن عليكم بالفضة فالعبوا بها» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُحَلِّقَ حَبِيبَهُ حَلَقَةً مِنْ نَارٍ فَلْيُحَلِّقْهُ حَلَقَةً مِنْ ذَهَبٍ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُطَوِّقَ حَبِيبَهُ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَلْيُطَوِّقْهُ طَوْقًا مِنْ ذَهَبٍ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُسَوِّرَ حَبِيبَهُ سِوَارًا مِنْ نَار فليسوره مِنْ ذَهَبٍ وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِالْفِضَّةِ فَالْعَبُوا بِهَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے دوست کو آگ کا چھلا پہنانا پسند کرتا ہے تو وہ اسے سونے کا چھلا پہنا دے، جو شخص اپنے دوست کو آگ کا طوق پہنانا پسند کرتا ہے تو وہ اسے سونے کا طوق پہنا دے، جو شخص اپنے دوست کو آگ کے کنگن پہنانا پسند کرتا ہے تو وہ اسے سونے کے کنگن پہنا دے، لیکن تم چاندی کو لازم پکڑو اور اس کے زیور بناؤ۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (4236) ٭ المراد بالحبيب: الرجل من الأولاد والإخوة وغيرهم و أما النساء فالذھب لھن حلال، و جاء في مسند أحمد (414/4): ’’و حبيبته‘‘ و سنده ضعيف معلول، الراوي: لم يحفظ السند و خبره شاذ.»