(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني مالك بن اوس النصري، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذكرا من ذلك، فدخلت على مالك فسالته؟، فقال: انطلقت حتى ادخل على عمر اتاه حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان، وعبد الرحمن، والزبير، وسعد يستاذنون، قال: نعم، فدخلوا، فسلموا وجلسوا فقال: هل لك في علي وعباس فاذن لهما، قال العباس:" يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين الظالم استبا، فقال الرهط عثمان واصحابه: يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، فقال: اتئدوا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث ما تركنا صدقة، يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه، قال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي، وعباس، فقال: انشدكما بالله هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك: قالا: نعم، قال عمر: فإني محدثكم عن هذا الامر إن الله كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم في هذا المال بشيء لم يعطه احدا غيره فإن الله يقول: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم سورة الحشر آية 6، فكانت هذه خالصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم ولا استاثر بها عليكم وقد اعطاكموها وبثها فيكم حتى بقي منها هذا المال وكان النبي صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال ثم ياخذ ما بقي، فيجعله مجعل مال الله، فعمل النبي صلى الله عليه وسلم بذلك حياته، انشدكم بالله هل تعلمون ذلك؟، فقالوا: نعم ثم قال لعلي وعباس: انشدكما الله هل تعلمان ذلك؟، قالا: نعم، ثم توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبضها ابو بكر، فعمل فيها بما عمل فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتما حينئذ واقبل على علي، وعباس تزعمان ان ابا بكر فيها كذا والله يعلم انه فيها صادق بار راشد تابع للحق ثم توفى الله ابا بكر، فقلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، فقبضتها سنتين اعمل فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر ثم جئتماني وكلمتكما على كلمة واحدة وامركما جميع جئتني تسالني نصيبك من ابن اخيك واتاني هذا يسالني نصيب امراته من ابيها، فقلت: إن شئتما دفعتها إليكما على ان عليكما عهد الله وميثاقه لتعملان فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم وبما عمل فيها ابو بكر وبما عملت فيها منذ وليتها وإلا فلا تكلماني فيها فقلتما ادفعها إلينا بذلك، فدفعتها إليكما بذلك انشدكم بالله هل دفعتها إليهما بذلك؟، قال الرهط: نعم، فاقبل على علي، وعباس، فقال: انشدكما بالله هل دفعتها إليكما بذلك؟، قالا: نعم، قال: افتلتمسان مني قضاء غير ذلك فوالذي بإذنه تقوم السماء والارض لا اقضي فيها قضاء غير ذلك حتى تقوم الساعة فإن عجزتما عنها، فادفعاها إلي فانا اكفيكماها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قال: أخبرني مالك بن أوس النصري، وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذِكْرًا مِنْ ذَلِكَ، فَدَخَلْتُ عَلَى مَالِكٍ فَسَأَلْتُهُ؟، فَقَالَ: انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ، قَالَ: نَعَمْ، فَدَخَلُوا، فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَذِنَ لَهُمَا، قَالَ الْعَبَّاسُ:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ اسْتَبَّا، فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ: اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ: قَالَا: نَعَمْ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي مُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ سورة الحشر آية 6، فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟، فَقَالُوا: نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ: أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكِ وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِكَ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ؟، قَالَ الرَّهْطُ: نَعَمْ، فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا، فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم» الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، پھر واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ (علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، اس میں، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔
Narrated Malik bin Aus An-Nasri: I proceeded till I entered upon `Umar (and while I was sitting there), his gate-keeper Yarfa came to him and said, " `Uthman, `Abdur-Rahman, Az-Zubair and Sa`d ask your permission to come in." `Umar allowed them. So they entered, greeted, and sat down. (After a while the gatekeeper came) and said, "Shall I admit `Ali and `Abbas?'' `Umar allowed them to enter. Al-`Abbas said "O Chief of the believers! Judge between me and the oppressor (`Ali)." Then there was a dispute (regarding the property of Bani Nadir) between them (`Abbas and `Ali). `Uthman and his companions said, "O Chief of the Believers! Judge between them and relieve one from the other." `Umar said, "Be patient! beseech you by Allah, with Whose permission the Heaven and the Earth Exist! Do you know that Allah's Apostle said, 'Our property is not to be inherited, and whatever we leave is to be given in charity,' and by this Allah's Apostle meant himself?" On that the group said, "He verily said so." `Umar then faced `Ali and `Abbas and said, "I beseech you both by Allah, do you both know that Allah's Apostle said so?" They both replied, "Yes". `Umar then said, "Now I am talking to you about this matter (in detail) . Allah favored Allah's Apostle with some of this wealth which He did not give to anybody else, as Allah said: 'What Allah bestowed as Fai (Booty on His Apostle for which you made no expedition... ' (59.6) So that property was totally meant for Allah's Apostle, yet he did not collect it and ignore you, nor did he withhold it with your exclusion, but he gave it to you and distributed it among you till this much of it was left behind, and the Prophet, used to spend of this as the yearly expenditures of his family and then take what remained of it and spent it as he did with (other) Allah's wealth. The Prophet did so during all his lifetime, and I beseech you by Allah, do you know that?" They replied, "Yes." `Umar then addressed `Ali and `Abbas, saying, "I beseech you both by Allah, do you know that?" Both of them replied, "Yes." `Umar added, "Then Allah took His Apostle unto Him. Abu Bakr then said 'I am the successor of Allah's Apostle' and took over all the Prophet's property and disposed of it in the same way as Allah's Apostle used to do, and you were present then." Then he turned to `Ali and `Abbas and said, "You both claim that Abu Bakr did so-and-so in managing the property, but Allah knows that Abu Bakr was honest, righteous, intelligent, and a follower of what is right in managing it. Then Allah took Abu Bakr unto Him, 'I said: I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I took over the property for two years and managed it in the same way as Allah's Apostle, and Abu Bakr used to do. Then you both (`Ali and `Abbas) came to me and asked for the same thing! (O `Abbas! You came to me to ask me for your share from nephew's property; and this (`Ali) came to me asking for his wives share from her father's property, and I said to you both, 'If you wish, I will place it in your custody on condition that you both will manage it in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did and as I have been doing since I took charge of managing it; otherwise, do not speak to me anymore about it.' Then you both said, 'Give it to us on that (condition).' So I gave it to you on that condition. Now I beseech you by Allah, did I not give it to them on that condition?" The group (whom he had been addressing) replied, "Yes." `Umar then addressed `Abbas and `Ali saying, "I beseech you both by Allah, didn't I give you all that property on that condition?" They said, "Yes." `Umar then said, "Are you now seeking a verdict from me other than that? By Him with Whose Permission the Heaven and the Earth exists I will not give any verdict other than that till the Hour is established; and if you both are unable to manage this property, then you can hand it back to me, and I will be sufficient for it on your behalf." (See, Hadith No. 326, Vol. 4)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 408
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا عاصم، قال: قلت لانس: احرم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة؟، قال: نعم، ما بين كذا إلى كذا لا يقطع شجرها من احدث فيها حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين"، قال عاصم: فاخبرني موسى بن انس، انه قال: او آوى محدثا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ؟، قَالَ: نَعَمْ، مَا بَيْنَ كَذَا إِلَى كَذَا لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"، قَالَ عَاصِمٌ: فَأَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَوْ آوَى مُحْدِثًا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے؟ فرمایا کہ ہاں فلاں جگہ عیر سے فلاں جگہ (ثور) تک۔ اس علاقہ کا درخت نہیں کاٹا جائے گا جس نے اس حدود میں کوئی نئی بات پیدا کی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ عاصم نے بیان کیا کہ پھر مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ انس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ ”یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو پناہ دی۔“
Narrated `Asim: I said to Anas, "Did Allah's Apostle make Medina a sanctuary?" He replied, "Yes, (Medina is a sanctuary from such-and-such place to such-and-such place. It is forbidden to cut its trees, and whoever innovates an heresy in it or commits a sin therein, will incur the curse of Allah, the angels, and all the people." Then Musa bin Anas told me that Anas added, "..... or gives refuge to such an heretic or a sinner..."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 409
(مرفوع) حدثنا سعيد بن تليد، حدثني ابن وهب، حدثني عبد الرحمن بن شريح وغيره، عن ابي الاسود، عن عروة، قال: حج علينا عبد الله بن عمرو، فسمعته يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الله لا ينزع العلم بعد ان اعطاكموه انتزاعا ولكن ينتزعه منهم مع قبض العلماء بعلمهم، فيبقى ناس جهال يستفتون، فيفتون برايهم، فيضلون ويضلون، فحدثت به عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ثم إن عبد الله بن عمرو حج بعد، فقالت: يا ابن اختي انطلق إلى عبد الله فاستثبت لي منه الذي حدثتني عنه، فجئته، فسالته، فحدثني به كنحو ما حدثني، فاتيت عائشة فاخبرتها، فعجبت، فقالت: والله لقد حفظ عبد الله بن عمرو".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: حَجَّ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاكُمُوهُ انْتِزَاعًا وَلَكِنْ يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ مَعَ قَبْضِ الْعُلَمَاءِ بِعِلْمِهِمْ، فَيَبْقَى نَاسٌ جُهَّالٌ يُسْتَفْتَوْنَ، فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ، فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ، فَحَدَّثْتُ بِهِ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَجَّ بَعْدُ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي انْطَلِقْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَاسْتَثْبِتْ لِي مِنْهُ الَّذِي حَدَّثْتَنِي عَنْهُ، فَجِئْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَحَدَّثَنِي بِهِ كَنَحْوِ مَا حَدَّثَنِي، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَأَخْبَرْتُهَا، فَعَجِبَتْ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَفِظَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو".
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن شریح اور ان کے علاوہ ابن لیعہ نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود نے اور ان سے عروہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں لے کر حج کیا تو میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو، اس کے بعد کہ تمہیں دیا ہے ایک دم سے نہیں اٹھا لے گا بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا پھر کچھ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے، ان سے فتویٰ پوچھا جائے گا اور وہ فتویٰ اپنی رائے کے مطابق دیں گے۔ پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور وہ خود بھی گمراہ ہوں گے۔ پھر میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی۔ ان کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دوبارہ حج کیا تو ام المؤمنین نے مجھ سے کہا کہ بھانجے عبداللہ کے پاس جاؤ اور میرے لیے اس حدیث کو سن کر خوب مضبوط کر لو جو حدیث تم نے مجھ سے ان کے واسطہ سے بیان کی تھی۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، اسی طرح جیسا کہ وہ پہلے مجھ سے بیان کر چکے تھے، پھر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی تو انہیں تعجب ہوا اور بولیں کہ واللہ عبداللہ بن عمرو نے خوب یاد رکھا۔
Narrated `Abdullah bin `Amr: I heard the Prophet saying, "Allah will not deprive you of knowledge after he has given it to you, but it will be taken away through the death of the religious learned men with their knowledge. Then there will remain ignorant people who, when consulted, will give verdicts according to their opinions whereby they will mislead others and go astray."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 410
(موقوف) حدثنا عبدان، اخبرنا ابو حمزة، سمعت الاعمش، قال: سالت ابا وائل: هل شهدت صفين؟، قال: نعم، فسمعت سهل بن حنيف، يقول:. ح وحدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن الاعمش، عن ابي وائل، قال: قال سهل بن حنيف:" يا ايها الناس، اتهموا رايكم على دينكم لقد رايتني يوم ابي جندل ولو استطيع ان ارد امر رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه لرددته وما وضعنا سيوفنا على عواتقنا إلى امر يفظعنا إلا اسهلن بنا إلى امر نعرفه غير هذا الامر، قال: وقال ابو وائل: شهدت صفين وبئست صفون".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ: هَلْ شَهِدْتَ صِفِّينَ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَسَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، يَقُولُ:. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ لَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا إِلَى أَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرَ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ: شَهِدْتُ صِفِّينَ وَبِئْسَتْ صِفُّون".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا میں نے اعمش سے سنا، کہا کہ میں نے ابووائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں، پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے (جنگ صفین کے موقع پر) کہا کہ لوگوں! اپنے دین کے مقابلہ میں اپنی رائے کو بےحقیقت سمجھو میں نے اپنے آپ کو ابوجندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ کے دن (صلح حدیبیہ کے موقع پر) دیکھا کہ اگر میرے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہٹنے کی طاقت ہوتی تو میں اس دن آپ سے انحراف کرتا (اور کفار قریش کے ساتھ ان شرائط کو قبول نہ کرتا) اور ہم نے جب کسی مہم پر اپنی تلواریں کاندھوں پر رکھیں (لڑائی شروع کی) تو ان تلواروں کی بدولت ہم کو ایک آسانی مل گئی جسے ہم پہچانتے تھے مگر اس مہم میں (یعنی جنگ صفین میں مشکل میں گرفتار ہیں دونوں طرف والے اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں) ابواعمش نے کہا کہ ابووائل نے بتایا کہ میں صفین میں موجود تھا اور صفین کی لڑائی بھی کیا بری لڑائی تھی جس میں مسلمان آپس میں کٹ مرے۔
Narrated Al-A`mash: I asked Abu Wail, "Did you witness the battle of Siffin between `Ali and Muawiya?" He said, "Yes," and added, "Then I heard Sahl bin Hunaif saying, 'O people! Blame your personal opinions in your religion. No doubt, I remember myself on the day of Abi Jandal; if I had the power to refuse the order of Allah's Apostle, I would have refused it. We have never put our swords on our shoulders to get involved in a situation that might have been horrible for us, but those swords brought us to victory and peace, except this present situation.' " Abu Wail said, "I witnessed the battle of Siffin, and how nasty Siffin was!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 411
8. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا۔
(8) Chapter. Whenever the Prophet (p.b.u.h.) was asked about something regarding which no Verse was revealed, he would either say, "I do not know," or give no reply, but he never gave a verdict based on opinion or on Qiyas.
او لم يجب حتى ينزل عليه الوحي، ولم يقل براي ولا بقياس لقوله تعالى: {بما اراك الله}.أَوْ لَمْ يُجِبْ حَتَّى يُنْزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، وَلَمْ يَقُلْ بِرَأْيٍ وَلاَ بِقِيَاسٍ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ}.
بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس بارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے میں نہیں جانتا یا وحی اترنے تک خاموش رہتے کچھ جواب نہ دیتے کیونکہ اللہ پاک نے (سورۃ نساء میں) فرمایا تاکہ اللہ، جیسا تجھ کو بتلائے اس کے موافق تو حکم دے۔
وقال ابن مسعود سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الروح فسكت حتى نزلت الآية.وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ فَسَكَتَ حَتَّى نَزَلَتِ الآيَةُ.
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری۔
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: سمعت ابن المنكدر، يقول: سمعت جابر بن عبد الله، يقول:" مرضت، فجاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، وابو بكر وهما ماشيان، فاتاني وقد اغمي علي، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صب وضوءه علي، فافقت، فقلت: يا رسول الله، وربما قال سفيان، فقلت: يا رسول الله، كيف اقضي في مالي كيف اصنع في مالي؟، قال: فما اجابني بشيء حتى نزلت آية الميراث".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" مَرِضْتُ، فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي؟، قَالَ: فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا میں نے محمد بن المنکدر سے سنا، بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I fell ill, Allah's Apostle and Abu Bakr came to visit me on foot. The Prophet came to me while I was unconscious. Allah's Apostle performed ablution and poured the Remaining water of his ablution over me whereupon I became conscious and said, 'O Allah's Apostle! How should I spend my wealth? Or how should I deal with my wealth?" But the Prophet did not give me any reply till the Verse of the laws of inheritance was revealed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 412
9. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے مردوں و عورتوں کو وہی باتیں سکھانا جو اللہ نے آپ کو سکھائی تھیں باقی رائے اور تمثیل آپ نے نہیں سکھائی۔
(9) Chapter. The way the Prophet (p.b.u.h.) taught his followers, whether men or women, of what Allah taught him.He did not impart his own opinions, nor did he give a verdict based on Qiyas.
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن عبد الرحمن بن الاصبهاني، عن ابي صالح ذكوان، عن ابي سعيد،" جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ذهب الرجال بحديثك، فاجعل لنا من نفسك يوما ناتيك فيه تعلمنا مما علمك الله، فقال: اجتمعن، في يوم كذا وكذا في مكان كذا وكذا، فاجتمعن، فاتاهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعلمهن مما علمه الله، ثم قال: ما منكن امراة تقدم بين يديها من ولدها ثلاثة إلا كان لها حجابا من النار، فقالت امراة منهن: يا رسول الله، او اثنين، قال: فاعادتها مرتين، ثم قال: واثنين، واثنين، واثنين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،" جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ، فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ: اجْتَمِعْنَ، فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا فِي مَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَاجْتَمَعْنَ، فَأَتَاهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَلَّمَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيْهَا مِنْ وَلَدِهَا ثَلَاثَةً إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوِ اثْنَيْنِ، قَالَ: فَأَعَادَتْهَا مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ، وَاثْنَيْنِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن الاصبہانی نے، ان سے ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کی تمام احادیث مرد لے گئے، ہمارے لیے بھی آپ کوئی دن اپنی طرف سے مخصوص کر دیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہو جاؤ۔ چنانچہ عورتیں جمع ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی تعلیم دی جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے جو عورت بھی اپنی زندگی میں اپنے تین بچے آگے بھیج دے گی۔ (یعنی ان کی وفات ہو جائے گی) تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ اس پر ان میں سے ایک خاتون نے کہا: یا رسول اللہ! دو؟ انہوں نے اس کلمہ کو دو مرتب دہرایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں دو، دو، دو بھی یہی درجہ رکھتے ہیں۔“
Narrated Abu Sa`id: A woman came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Men (only) benefit by your teachings, so please devote to us from (some of) your time, a day on which we may come to you so that you may teach us of what Allah has taught you." Allah's Apostle said, "Gather on such-and-such a day at suchand- such a place." They gathered and Allah's Apostle came to them and taught them of what Allah had taught him. He then said, "No woman among you who has lost her three children (died) but that they will screen her from the Fire." A woman among them said, "O Allah's Apostle! If she lost two children?" She repeated her question twice, whereupon the Prophet said, "Even two, even two, even two!" (See Hadith No. 341, Vol. 2)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 413