(موقوف) حدثنا عبدان، اخبرنا ابو حمزة، سمعت الاعمش، قال: سالت ابا وائل: هل شهدت صفين؟، قال: نعم، فسمعت سهل بن حنيف، يقول:. ح وحدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن الاعمش، عن ابي وائل، قال: قال سهل بن حنيف:" يا ايها الناس، اتهموا رايكم على دينكم لقد رايتني يوم ابي جندل ولو استطيع ان ارد امر رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه لرددته وما وضعنا سيوفنا على عواتقنا إلى امر يفظعنا إلا اسهلن بنا إلى امر نعرفه غير هذا الامر، قال: وقال ابو وائل: شهدت صفين وبئست صفون".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ: هَلْ شَهِدْتَ صِفِّينَ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَسَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، يَقُولُ:. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ لَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا إِلَى أَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرَ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ: شَهِدْتُ صِفِّينَ وَبِئْسَتْ صِفُّون".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا میں نے اعمش سے سنا، کہا کہ میں نے ابووائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں، پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے (جنگ صفین کے موقع پر) کہا کہ لوگوں! اپنے دین کے مقابلہ میں اپنی رائے کو بےحقیقت سمجھو میں نے اپنے آپ کو ابوجندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ کے دن (صلح حدیبیہ کے موقع پر) دیکھا کہ اگر میرے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہٹنے کی طاقت ہوتی تو میں اس دن آپ سے انحراف کرتا (اور کفار قریش کے ساتھ ان شرائط کو قبول نہ کرتا) اور ہم نے جب کسی مہم پر اپنی تلواریں کاندھوں پر رکھیں (لڑائی شروع کی) تو ان تلواروں کی بدولت ہم کو ایک آسانی مل گئی جسے ہم پہچانتے تھے مگر اس مہم میں (یعنی جنگ صفین میں مشکل میں گرفتار ہیں دونوں طرف والے اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں) ابواعمش نے کہا کہ ابووائل نے بتایا کہ میں صفین میں موجود تھا اور صفین کی لڑائی بھی کیا بری لڑائی تھی جس میں مسلمان آپس میں کٹ مرے۔
Narrated Al-A`mash: I asked Abu Wail, "Did you witness the battle of Siffin between `Ali and Muawiya?" He said, "Yes," and added, "Then I heard Sahl bin Hunaif saying, 'O people! Blame your personal opinions in your religion. No doubt, I remember myself on the day of Abi Jandal; if I had the power to refuse the order of Allah's Apostle, I would have refused it. We have never put our swords on our shoulders to get involved in a situation that might have been horrible for us, but those swords brought us to victory and peace, except this present situation.' " Abu Wail said, "I witnessed the battle of Siffin, and how nasty Siffin was!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 411
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7308
حدیث حاشیہ: 1۔ صفین شام میں رقہ اور بالس کے درمیان دریائے فرات کی دائیں جانب ایک مقام کا نام ہے جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوئی تھی جس میں ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوئے تھے اور ابو جندل کے دن سے مراد صلح حدیبیہ کا دن ہے۔ 2۔ لوگوں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ صفین میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے کوتاہی کے ساتھ متہم کیا ان پر یہ باتیں بہت گراں گزریں۔ انھوں نے کہا: میں نے اس جنگ میں شرکت سے کوتاہی نہیں کی اور نہ میری یہ عادت ہی ہے کہ ضرورت کے وقت کسی قسم کی کوتاہی کا ارتکاب کروں جب حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی شرائط کے مطابق انھیں مشرکین کی طرف واپس کر دیا تو اس وقت بھی مجھ پر یہ چیز بہت گراں گزری تھی۔ ہم اس وقت اس پوزیشن میں تھے کہ اگر ہم ابو جندل کو واپس نہ کرتے تو مشرکین ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے لیکن ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کومقدم رکھا اور حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واپس ہونے کو برداشت کیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرنے کا حکم دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مسترد کرنے کی ہم میں طاقت نہ تھی اس مقام پر بھی میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوں۔ اس لیے تم مجھے کو تاہی کا الزام دینے کے بجائے اپنے آپ پر غور کرو۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ دینی معاملات میں محض رائے پر عمل کرنا مستحسن اقدام نہیں۔ 3۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں ایک عبارت زائد پائی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسئلے میں جب تک کتاب وسنت سے دلیل نہ ہو تو اپنی رائے سے اس مسئلے کو صحیح خیال نہ کرو اور رائے کے مطابق فتوی نہ دو بلکہ کتاب و سنت پر غور کر کے اس سے مسئلے کا حکم ثابت کرو۔ بہر حال محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مذموم رائے مراد ہے کہ انسان کتاب و سنت کو چھوڑ کر اس کے مطابق عمل کرے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7308