وعن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اسهم للرجل ولفرسه ثلاثة اسهم: سهما له وسهمين لفرسه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْهَمَ لِلرَّجُلِ وَلِفَرَسِهِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ: سَهْمًا لَهُ وَسَهْمَيْنِ لِفَرَسِهِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجاہد آدمی اور اس کے گھوڑے کے لیے تین حصے مقرر فرمائے، ایک حصہ اس شخص کے لیے اور دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2863) و مسلم (57 / 1762)»
وعن يزيد بن هرمز قال: كتب نجدة الحروري إلى ابن عباس يساله عن العبد والمراة يحضران لمغنم هل يقسم لهما؟ فقال ليزيد: اكتب إليه انه ليس لهما سهم إلا ان يحذيا. وفي رواية: كتب إليه ابن عباس: إنك كتبت إلي تسالني: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء؟ وهل كان يضرب لهن بسهم؟ فقد كان يغزو بهن يداوين المرضى ويحذين من الغنيمة واما السهم فلم يضرب لهن بسهم. رواه مسلم وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَة يحْضرَانِ لمغنم هلْ يُقسَمُ لَهما؟ فَقَالَ ليزيدَ: اكْتُبْ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا سَهْمٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا. وَفِي رِوَايَةٍ: كَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّكَ كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ فَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ يُدَاوِينَ الْمَرْضَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ وَأَمَّا السَّهْمُ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ بِسَهْمٍ. رَوَاهُ مُسلم
یزید بن ہرمز رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نجدہ حروری نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا جس میں اس نے مسئلہ دریافت کیا کہ اگر مال غنیمت کی تقسیم کے وقت غلام اور عورت موجود ہوں تو کیا ان کا حصہ نکالا جائے گا؟ انہوں نے یزید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اسے جواب لکھو ان دونوں کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں البتہ تھوڑا سا دے دیا جائے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے جواب لکھا: تم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عورتیں جہاد کیا کرتیں تھیں، اور کیا ان کا حصہ مقرر کیا جاتا تھا؟ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عورتیں جہاد میں شریک ہوتیں تھیں، وہ مریضوں کا علاج معالجہ کرتی تھیں، انہیں مال غنیمت میں سے دیا جاتا تھا، رہا حصہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں فرمایا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1390/ 1812 و الرواية الثانية 1812/137)»
وعن سلمة بن الاكوع قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بظهره مع رباح غلام رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه فلما اصبحنا إذا عبد الرحمن الفزاري قد اغار على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقمت على اكمة فاستقبلت المدينة فناديت ثلاثا يا صباحاه ثم خرجت في آثار القوم ارميهم بالنبل وارتجز واقول: انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع فما زلت ارميهم واعقر بهم حتى ما خلق الله من بعير من ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا خلفته وراء ظهري ثم اتبعتهم ارميهم حتى القوا اكثر من ثلاثين بردة وثلاثين رمحا يستخفون ولا يطرحون شيئا إلا جعلت عليه آراما من الحجارة يعرفها رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه حتى رايت فوارس رسول الله صلى الله عليه وسلم ولحق ابو قتادة فارس رسول الله صلى الله عليه وسلم بعبد الرحمن فقتله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير فرساننا اليوم ابو قتادة وخير رجالتنا سلمة» . قال: ثم اعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم سهمين: سهم الفارس وسهم الراجل فجمعهما إلي جميعا ثم اردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم وراءه على العضباء راجعين إلى المدينة. رواه مسلم وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْفَزَارِيُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُمْتُ عَلَى أَكَمَةٍ فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِينَةَ فَنَادَيْتُ ثَلَاثًا يَا صَبَاحَاهْ ثُمَّ خَرَجْتُ فِي آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِيهِمْ بِالنَّبْلِ وَأَرْتَجِزُ وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعْ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَمَا زِلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَعْقِرُ بِهِمْ حَتَّى مَا خلَقَ اللَّهُ مِنْ بَعِيرٍ مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي ثُمَّ اتَّبَعْتُهُمْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً وَثَلَاثِينَ رُمْحًا يَسْتَخِفُّونَ وَلَا يَطْرَحُونَ شَيْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ آرَامًا مِنَ الْحِجَارَةِ يَعْرِفُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى رَأَيْتُ فَوَارِسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَحِقَ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ وَخَيْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ» . قَالَ: ثُمَّ أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَيْنِ: سَهْمَ الْفَارِسِ وَسَهْمَ الرَّاجِلِ فَجَمَعَهُمَا إِلَيَّ جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعَيْنِ إِلَى الْمَدِينَةِ. رَوَاهُ مُسلم
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رباح، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، کے ساتھ اپنے اونٹ بھیجے، اور میں بھی اس کے ساتھ تھا، جب ہم نے صبح کی تو عبدالرحمٰن فرازی نے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا، میں ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف رخ کر کے تین بار آواز دی، لڑائی کا وقت آ گیا، پھر میں نے ان لوگوں کا پیچھا کیا، میں ان پر تیر برسا رہا تھا اور رجزیہ شعر پڑھ رہا تھا: میں ابن اکوع ہوں، اور آج رذیل لوگوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ چنانچہ میں ان پر تیر برساتا رہا اور ان کی سواریوں کو زخمی کرتا رہا، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اونٹ میں نے ان کے قبضہ سے آزاد کروا لیے، اور میں پھر بھی ان کا پیچھا کر کے ان پر تیر اندازی کرتا رہا حتی کہ انہوں نے وزن ہلکا کرنے کے لیے تیس چادریں اور تیس نیزے پھینک دیے، وہ جو بھی چیز پھینکتے میں اس پر پتھر کی نشانی لگاتا جاتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ اسے پہچان سکیں، حتی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہ سواروں کو دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہ سوار ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن فرازی کو جا لیا اور اسے قتل کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آج ہمارا بہترین شہ سوار ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہیں، اور ہمارا بہترین پیادہ سلمہ ہیں۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دو حصے دیے، ایک حصہ گھڑ سوار کا اور ایک حصہ پیادہ کا، آپ نے وہ دونوں میرے لیے جمع فرما دیے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ واپس آتے ہوئے مجھے (اپنی اونٹنی) عضباء پر اپنے پیچھے سوار کر لیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (132/ 1807)»
وعن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينفل بعض من يبعث من السرايا لانفسهم خاصة سوى قسمة عامة الجيش وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لِأَنْفُسِهِمْ خَاصَّةً سِوَى قِسْمَةِ عَامَّةِ الْجَيْشِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن دستوں کو روانہ فرماتے تو ان میں سے بعض مجاہدین کو ان کے حصہ کے علاوہ خصوصی حصہ عنایت فرمایا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3135) و مسلم (1750/40)»
وعنه قال: نفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم نفلا سوى نصيبنا من الخمس فاصابني شارف والشارف: المسن الكبير وَعَنْهُ قَالَ: نَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نَفَلًا سِوَى نَصِيبِنَا مِنَ الْخُمُسِ فَأَصَابَنِي شَارِفٌ والشارف: المسن الْكَبِير
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہمارے حصے کے علاوہ خمس میں سے بھی کچھ عطا فرمایا، سو مجھے خمس سے ایک ”شارف“ ملی۔ شارف بوڑھی اونٹنی کو کہتے ہیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (لم أجده بھذ اللفظ و عنده لون آخر: 3135، انظر الحديث السابق) و مسلم (1750/38)»
وعنه قال: ذهبت فرس له فاخذها العدو فظهر عليهم المسلمون فرد عليه في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم. وفي رواية: ابق عبد له فلحق بالروم فظهر عليهم المسلمون فرد عليه خالد بن الوليد بعد النبي صلى الله عليه وسلم. رواه البخاري وَعَنْهُ قَالَ: ذَهَبَتْ فَرَسٌ لَهُ فَأَخَذَهَا الْعَدُوُّ فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ فَرُدَّ عَلَيْهِ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَفِي رِوَايَةٍ: أَبَقَ عَبْدٌ لَهُ فَلَحِقَ بِالرُّومِ فَظَهَرَ عَلَيْهِمُ الْمُسْلِمُونَ فَرَدَّ عَلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بَعْدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ان کا گھوڑا بھاگ گیا تو دشمن نے اسے پکڑ لیا، مسلمان ان پر غالب آ گئے تو وہی گھوڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مجھے لوٹا دیا گیا۔ اور ایک روایت میں ہے، ان کا ایک غلام فرار ہو کر رومیوں سے جا ملا، جب مسلمان ان پر غالب آ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے وہ مجھے لوٹا دیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3067)»
وعن جبير بن مطعم قال: مشيت انا وعثمان بن عفان إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقلنا: اعطيت بني المطلب من خمس خيبر وتركتنا ونحن بمنزلة واحدة منك؟ فقال: «إنما بنو هاشم وبنو المطلب واحد» . قال جبير: ولم يقسم النبي صلى الله عليه وسلم لبني عبد شمس وبني نوفل شيئا. رواه البخاري وَعَن جُبيرِ بن مُطعمٍ قَالَ: مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ وَتَرَكْتَنَا وَنَحْنُ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْكَ؟ فَقَالَ: «إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو المطلبِ وَاحِدٌ» . قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَبَنِي نوفلٍ شَيْئا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو مطلب کو عطا کیا ہے اور ہمیں چھوڑ دیا ہے، جبکہ ہمارا اور ان کا آپ سے ایک رشتہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی چیز ہیں۔ “ جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کے درمیان کچھ بھی تقسیم نہ فرمایا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4229)»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ايما قرية اتيتموها واقمتم فيها فسهمكم فيها وايما قرية عصت الله ورسوله فإن خمسها لله ولرسوله ثم هي لكم» . رواه مسلم وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وأقمتمْ فِيهَا فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ثُمَّ هِيَ لَكُمْ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم جس بستی میں (بلا قتال) داخل ہو جاؤ اور وہاں اقامت اختیار کرو تو اس میں تمہارا حصہ ہے، اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو اس (سے حاصل ہونے والے مال) کا خمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے، پھر وہ (باقی) تمہارے لیے ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1756/47)»
وعن خولة الانصارية قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن رجالا يتخوضون في مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة» . رواه البخاري وَعَن خوْلَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ فِي مَالِ اللَّهِ بِغَيْرِ حَقٍّ فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ ��لیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں،، روزِ قیامت ان کے لیے (جہنم کی) آگ ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3118)»
وعن ابي هريرة قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فذكر الغلول فعظمه وعظم امره ثم قال: لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته بعير له رغاء يقول: يا رسول الله اغثني فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك. لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته فرس له حمحمة فيقول: يا رسول الله اغثني فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته شاة لها ثغاء يقول: يا رسول الله اغثني فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته نفس لها صياح فيقول: يا رسول الله اغثني فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته رقاع تخفق فيقول: يا رسول الله اغثني فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك لا الفين احدكم يجيء يوم القيامة على رقبته صامت فيقول: يا رسول الله اغثني فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك. وهذا لفظ مسلم وهو اتم وَعَن أبي هُرَيْرَة قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَذَكَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ ثُمَّ قَالَ: لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ. لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ فُرْسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ نَفْسٌ لَهَا صِيَاحٌ فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفُقُ فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئا قد أبلغتك. وَهَذَا لفظ مُسلم وَهُوَ أتم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر خطاب فرمایا اس میں آپ نے خیانت کا ذکر کیا اور آپ نے اس معاملے کو سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: ”میں تم سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو، اور وہ شخص مجھے کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیں، اور میں اس سے کہوں کہ: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو اور وہ آدمی کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیں، تو میں کہوں: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر بکری ممیا رہی ہو، وہ شخص کہے، اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیں، تو میں کہوں: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے روز آئے اور اس کی گردن پر کوئی نفس (یعنی مملوک) ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیں، اور میں کہوں: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر چادر حرکت کر رہی ہو تو وہ شخص کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیں، تو میں کہوں گا: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ روزِ قیامت آئے اور اس کی گردن پر کوئی غیر ناطق چیز (سونا، چاندی وغیرہ) ہو تو وہ شخص کہے: اللہ کے رسول! میری مدد فرمائیں، تو میں کہوں گا: میں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تمہیں مسئلہ بتا دیا تھا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3073) و مسلم (1831/24)»