وعن قتادة قال: ذكر لنا انس بن مالك عن ابي طلحة ان نبي الله صلى الله عليه وسلم امر يوم بدر باربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من اطواء بدر خبيث مخبث وكان ذا ظهر على قوم اقام بالعرصة ثلاث ليال فلما كان ببدر اليوم الثالث امر براحلته فشد عليها رحلها ثم مشى واتبعه اصحابه حتى قام على شفة الركي فجعل يناديهم باسمائهم واسماء آبائهم: «يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله؟ فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟» فقال عمر: يا رسول الله ما تكلم من اجساد لا ارواح لها؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: «والذي نفس محمد بيده ما انتم باسمع لما اقول منهم» . وفي رواية: «ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون» . متفق عليه. وزاد البخاري: قال قتادة: احياهم الله حتى اسمعهم قوله توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما وَعَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ فَقَذَفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ وَكَانَ ذَا ظهرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الْيَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَشَدَّ عَلَيْهَا رَحْلَهَا ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِيِّ فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وأسماءِ آبائِهم: «يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ؟ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجدتمْ مَا وعدَكم رَبُّكُمْ حَقًّا؟» فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تُكَلِّمَ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَهَا؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يُجِيبُونَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَزَادَ الْبُخَارِيُّ: قَالَ قَتَادَةُ: أَحْيَاهُمُ اللَّهُ حَتَّى أَسْمَعَهُمْ قولَه توْبيخاً وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما
قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی سند سے ہمیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ بدر کے روز قریش کے چوبیس سرداروں کے متعلق حکم فرمایا تو انہیں بدر کے ایک بند کنویں میں ڈال دیا گیا جو کہ خبیث اور خبیث بنا دینے والا تھا، اور آپ کا معمول تھا کہ جب آپ کسی قوم پر غالب آتے تو آپ میدان قتال میں تین راتیں قیام فرماتے، چنانچہ جب بدر میں تیسرا روز ہوا تو آپ نے رخت سفر باندھنے کا حکم فرمایا، سواریاں تیار کر دیں گئیں، پھر آپ چلے اور آپ کے صحابہ بھی آپ کے پیچھے چلنے لگے، حتی کہ آپ اس کنویں کے کنارے، جس میں سردارانِ قریش کی لاشیں پھینکی گئی تھیں، کھڑے ہو گئے اور آپ انہیں ان کے اور ان کے آباء کے نام لیکر پکارنے لگے: ”ٖفلاں بن فلاں! فلاں بن فلاں! اور تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے، چنانچہ ہمارے رب نے جس چیز کا ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے تو اسے سچ پا لیا، تمہارے رب نے جس چیز کا تم سے وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پایا؟“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ مردہ جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں تم اسے ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ “ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ”تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دیتے۔ “ بخاری، مسلم۔ اور امام بخاری ؒ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے انہیں زندہ کر دیا حتی کہ باعث توبیخ و تحقیر، انتقام و حسرت اور ندامت، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنا دی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3976 و الرواية الثانية: 1270) و مسلم (2875/78)»
وعن مروان والمسور بن مخرمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد من هوازن مسلمين فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم فقال: فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي وإما المال. قالوا: فإنا نختار سبينا. فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فاثنى على الله بما هو اهله ثم قال: «اما بعد فإن إخوانكم قد جاؤوا تائبين وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل» فقال الناس: قد طيبنا ذلك يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنا لا ندري من اذن منكم ممن لم ياذن فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم» . فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا. رواه البخاري وَعَنْ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفد من هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ: فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ. قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا. فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ: «أمَّا بعدُ فإِنَّ إِخْوانَكم قدْ جاؤوا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حظِّه حَتَّى نُعطِيَه إِيَّاهُ منْ أوَّلِ مَا يَفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ» فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ» . فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قد طيَّبوا وأَذنوا. رَوَاهُ البُخَارِيّ
مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ ان کے اموال اور ان کے قیدی لوٹا دیے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں میں سے ایک چیز اختیار کر لو، خواہ قیدی، خواہ مال۔ “ انہوں نے عرض کیا، ہم اپنے قیدی لینا چاہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے پھر اللہ کی شایان شان اس کی ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”امابعد! تمہارے بھائی مسلمان ہو کر آئے ہیں، میری رائے تو یہی ہے کہ ان کے قیدی انہیں لوٹا دیے جائیں، تم میں سے جو کوئی شخص بخوشی بے لوث ایسے کرنا چاہتا ہے تو وہ کرے اور اگر تم میں سے کوئی اپنا حصہ لینا پسند کرتا ہو تو وہ انتظار کرے حتی کہ اللہ ہمیں جو سب سے پہلے مال فے عطا فرمائے تو ہم اسے وہی چیز عطا کر دیں گے، لہذا اب وہ ایسا کر لے (کہ قیدی واپس کر دے)۔ “ لوگوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم نے یہ کام خوشی سے کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی اور کس نے اجازت نہیں دی، تم لوٹ جاؤ حتی کہ تمہارے رؤساء تمہارا معاملہ ہمارے سامنے پیش کریں۔ “ لوگ لوٹ گئے، ان کے رؤساء نے ان سے بات چیت کی، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ آئے اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ وہ راضی ہیں اور انہوں نے اجازت دی ہے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2307)»
وعن عمران بن حصين قال: كانت ثقيف حليفا لبني عقيل فاسرت ثقيف رجلين من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم واسر اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من بني عقيل فاوثقوه فطرحوه في الحرة فمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم فناداه: يا محمد يا محمد فيم اخذت؟ قال: «بجريرة حلفائكم ثقيف» فتركه ومضى فناداه: يا محمد يا محمد فرحمه رسول الله صلى الله عليه وسلم فرجع فقال: «ما شانك؟» قال: إني مسلم. فقال: «لو قلتها وانت تملك امرك افلحت كل الفلاح» . قال: ففداه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالرجلين اللذين اسرتهما ثقيف. رواه مسلم وَعَن عمرَان بن حُصَيْن قَالَ: كَانَت ثَقِيفٌ حَلِيفًا لِبَنِي عُقَيْلٍ فَأَسَرَتْ ثَقِيفٌ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ فَأَوْثَقُوهُ فَطَرَحُوهُ فِي الْحَرَّةِ فَمَرَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ فِيمَ أُخِذْتُ؟ قَالَ: «بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكُمْ ثَقِيفٍ» فَتَرَكَهُ وَمَضَى فَنَادَاهُ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ فَرَحِمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فرجعَ فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ. فَقَالَ: «لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ» . قَالَ: فَفَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالرجلينِ اللَّذينِ أسرَتْهُما ثقيفٌ. رَوَاهُ مُسلم
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ثقیف، بنو عُقیل کے حلیف تھے، ثقیف (قبیلے) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو صحابی قید کر لیے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی قید کر لیا اور اسے باندھ کر پتھریلی زمین پر پھینک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو اس نے آپ کو آواز دی: محمد! محمد! مجھے کس لیے پکڑا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کے بدلہ میں۔ “ آپ نے اسے اس کے حال پر چھوڑا اور آگے چل دیے، اس نے پھر آواز دی، محمد! محمد! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر ترس آ گیا اور واپس تشریف لا کر فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ اس نے کہا: میں مسلمان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس وقت کہتے جب کہ تم اپنے معاملے کے خود مختار تھے تو تم مکمل فلاح پا جاتے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ان دو آدمیوں، جنہیں ثقیف نے قید کر رکھا تھا، کے بدلے میں چھوڑ دیا۔ (یعنی تبادلہ کر لیا) رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1641/8)»
عن عائشة رضي الله عنها قالت: لما بعث اهل مكة في فداء اسرائهم بعثت زينب في فداء ابي العاص بمال وبعثت فيه بقلادة لها كانت عند خديجة ادخلتها بها على ابي العاص فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم رق لها رقة شديدة وقال: «إن رايتم ان تطلقوا لها اسيرها وتردوا عليها الذي لها» فقالوا: نعم وكان النبي صلى الله عليه وسلم اخذ عليه ان يخلي سبيل زينب إليه وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة ورجلا من الا صار فقال: «كونا ببطن ياحج حتى تمر بكما زينب فتصحباها حتى تاتيا بها» . رواه احمد وابو داود عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أُسَرَائِهِمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً وَقَالَ: «إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا» فَقَالُوا: نَعَمْ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَيْهِ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلًا مِنَ الْأَ ْصَارِ فَقَالَ: «كونا ببطنِ يأحج حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بهَا» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ بھیجا تو زینب رضی اللہ عنہ نے ابوالعاص (اپنے خاوند) کے فدیہ میں مال بھیجا اور اس میں اپنا ہار بھی بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہ کا تھا جو انہوں نے انہیں ابوالعاص کے ساتھ شادی کے موقع پر عطا کیا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (ہار) کو دیکھا تو ان (زینب رضی اللہ عنہ) کی خاطر آپ پر شدید رقت طاری ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم مناسب سمجھو تو اس کی خاطر قیدی کو رہا کرو اور اس کا ہار بھی واپس کر دو۔ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) ٹھیک ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوالعاص سے یہ عہد لیا کہ وہ زینب کو میرے پاس (مدینہ) آنے کی اجازت دے دے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار کے ایک آدمی کو (مکہ) بھیجا تو فرمایا: ”تم دونوں یا حج کے مقام پر ہونا حتی کہ زینب تمہارے پاس سے گزریں تو تم اس کے ساتھ ہو لینا حتی کہ تم انہیں (یہاں مدینہ) لے آنا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أحمد (276/6 ح 26894) و أبو داود (2692)»
وعنها: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما اسر اهل بدر قتل عقبة بن ابي معيط والنضر بن الحارث ومن على ابي عزة الجمحي. رواه في شرح السنة والشافعي وابن إسحاق في «السيرة» وَعَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَسَرَ أَهْلَ بَدْرٍ قَتَلَ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ وَالنَّضْرَ بْنَ الْحَارِثِ وَمَنَّ عَلَى أَبِي عَزَّةَ الْجُمَحِيِّ. رَوَاهُ فِي شَرْحِ السّنة وَالشَّافِعِيّ وَابْن إِسْحَاق فِي «السِّيرَة»
عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بدر کو قید کیا تو آپ نے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو قتل کیا اور ابوعزہ جمحی پر (بلا معاوضہ آزاد کرنے کا) احسان کیا۔ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (78/11 بعد ح 2711) بدون السند عن الشافعي و للحديث شواھد ضعيفة في السير و التاريخ.»
وعن ابن مسعود ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما اراد قتل عقبة بن ابي معيط قال: من للصبية؟ قال: «النار» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ قَتْلَ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ قَالَ: مَنْ لِلصِّبْيَةِ؟ قَالَ: «النَّار» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا: بچوں کے لیے کون (کفیل) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”(تم اپنی جان کی فکر کرو تمہارے لیے) آگ ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2686) ٭ إبراهيم النخعي مدلس و عنعن و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن علي رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان جبريل هبط عليه فقال له: خيرهم يعني اصحابك في اسارى بدر: القتل والفداء على ان يقتل منهم قابلا مثلهم قالوا الفداء ويقتل منا. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ جِبْرِيلَ هَبَطَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ: خَيِّرْهُمْ يَعْنِي أَصْحَابَكَ فِي أُسارى بدر: القتلَ والفداءَ عَلَى أَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ قَابِلًا مِثْلُهُمْ قَالُوا الْفِدَاءَ وَيُقْتَلَ مِنَّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
علی رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”جبریل ؑ کا نزول ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا، اپنے صحابہ کو بدر کے قیدیوں کے بارے میں اختیار دیں کہ وہ انہیں قتل کریں یا فدیہ لے لیں کہ آئندہ سال اتنے ہی (ستر) ان میں سے شہید کر دیے جائیں گے۔ “ انہوں نے عرض کیا، فدیہ قبول کرتے ہیں، اور ہمیں منظور ہے کہ ہم میں سے قتل کیے جائیں۔ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1567) ٭ هشام بن حسان مدلس و عنعن.»
عن عطية القرظي قال: كنت في سبي قريظة عرضنا على النبي صلى الله عليه وسلم فكانوا ينظرون فمن انبت الشعر قتل ومن لم ينبت لم يقتل فكشفوا عانتي فوجدوها لم تنبت فجعلوني في السبي. رواه ابو داود وابن ماجه. والدارمي عَن عَطِيَّة القَرظِي قَالَ: كنتُ فِي سَبي قُرَيْظَةَ عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانُوا يَنْظُرُونَ فَمَنْ أَنْبَتَ الشَّعَرَ قُتِلَ وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ لَمْ يُقْتَلْ فَكَشَفُوا عَانَتِي فَوَجَدُوهَا لَمْ تُنْبِتْ فَجَعَلُونِي فِي السَّبْيِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه. والدارمي
عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں قریظہ کے قیدیوں میں تھا، ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا، وہ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگے ہوتے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے بال نہ ہوتے اسے قتل نہ کیا جاتا، انہوں نے میری شرم گاہ سے پردہ اٹھایا اور دیکھا کہ وہاں بال نہیں اُگے تو انہوں نے مجھے قیدیوں میں شامل کر دیا۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4404) و ابن ماجه (2541) و الدارمي (223/2 ح 2467)»
وعن علي رضي الله عنه قال: خرج عبدان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني الحديبية قبل الصلح فكتب إليه مواليهم قالوا: يا محمد والله ما خرجوا إليك رغبة في دينك وإنما خرجوا هربا من الرق. فقال ناس: صدقوا يا رسول الله ردهم إليهم فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: «ما اراكم تنتهون يا معشر قريش حتى يبعث الله عليكم من يضرب رقابكم على هذا» . وابى ان يردهم وقال: «هم عتقاء الله» . رواه ابو داود وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: خَرَجَ عِبْدَانٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي الْحُدَيْبِيَةَ قَبْلَ الصُّلْحِ فَكَتَبَ إِلَيْهِ مَوَالِيهِمْ قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا خَرَجُوا إِلَيْكَ رَغْبَةً فِي دِينِكَ وَإِنَّمَا خَرَجُوا هَرَبًا مِنَ الرِّقِّ. فَقَالَ نَاسٌ: صَدَقُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ رُدَّهُمْ إِلَيْهِمْ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «مَا أَرَاكُم تنتهونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ عَلَى هَذَا» . وَأَبَى أَنْ يَرُدَّهُمْ وَقَالَ: «هُمْ عُتَقَاءَ اللَّهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، صلح حدیبیہ کے روز صلح سے پہلے کچھ غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تو ان کے مالکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام خط لکھا: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اللہ کی قسم! یہ لوگ آپ کے دین میں رغبت رکھنے کے پیش نظر آپ کے پاس نہیں آئے، بلکہ یہ تو غلامی سے بھاگ کر آئے ہیں۔ لوگوں نے کہا، اللہ کے رسول! انہوں نے سچ کہا ہے، آپ انہیں لوٹا دیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور فرمایا: ”جماعتِ قریش! میں سمجھتا ہوں کہ تم باز نہیں آؤ گے حتی کہ اللہ تم پر ایسے شخص کو بھیجے جو اس (تعصب) پر تمہاری گردنیں اڑا دے۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو لوٹانے سے انکار کر دیا، اور فرمایا: ”وہ اللہ کے لیے آزاد کردہ ہیں۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2700) ٭ محمد بن إسحاق عنعن و رواه الترمذي (3715) من حديث شريک القاضي به وھو مدلس و عنعن.»
عن ابن عمر قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد إلى بني جذيمة فدعاهم إلى الإسلام فلم يحسنوا ان يقولوا: اسلمنا فجعلوا يقولون: صبانا صبانا فجعل خالد يقتل وياسر ودفع إلى كل رجل منا اسيره حتى إذا كان يوم امر خالد ان يقتل كل رجل منا اسيره فقلت: والله لا اقتل اسيري ولا يقتل رجل من اصحابي اسيره حتى قدمنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكرناه فرفع يديه فقال: «اللهم اني ابرا إليك مما صنع خالد» مرتين. رواه البخاري عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا: أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: صَبَأْنَا صَبَأْنَا فجعلَ خالدٌ يقتلُ ويأسِرُ وَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي وَلَا يَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي أسيره حَتَّى قدمنَا إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فذكرناهُ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ أَنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صنعَ خالدٌ» مرَّتينِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا، انہوں نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، انہوں نے واضح طور پر (لفظ اَسْلَمْنَا) ہم نے اسلام قبول کر لیا نہ کہا، بلکہ انہوں نے (لفط صَبأْنا) ہم بے دین ہوئے کہا، اس پر خالد رضی اللہ عنہ انہیں قتل کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے، اور انہوں نے ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی دیا حتی کہ ایک روز ایسے ہوا کہ انہوں نے حکم دیا کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کرے، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل کروں گا نہ میرا کوئی ساتھی اپنے قیدی کو قتل کرے گا، حتی کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دو مرتبہ فرمایا: ”اے اللہ! خالد نے جو کیا میں اس سے تیرے حضور براءت کا اعلان کرتا ہوں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (7189)»