Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كتاب الجهاد
كتاب الجهاد
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا ہار
حدیث نمبر: 3970
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أُسَرَائِهِمْ بَعَثَتْ زَيْنَبُ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ عِنْدَ خَدِيجَةَ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً وَقَالَ: «إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا» فَقَالُوا: نَعَمْ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَيْهِ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَ زَيْنَبَ إِلَيْهِ وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَرَجُلًا مِنَ الْأَ ْصَارِ فَقَالَ: «كونا ببطنِ يأحج حَتَّى تَمُرَّ بِكُمَا زَيْنَبُ فَتَصْحَبَاهَا حَتَّى تَأْتِيَا بهَا» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ بھیجا تو زینب رضی اللہ عنہ نے ابوالعاص (اپنے خاوند) کے فدیہ میں مال بھیجا اور اس میں اپنا ہار بھی بھیجا جو خدیجہ رضی اللہ عنہ کا تھا جو انہوں نے انہیں ابوالعاص کے ساتھ شادی کے موقع پر عطا کیا تھا، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس (ہار) کو دیکھا تو ان (زینب رضی اللہ عنہ) کی خاطر آپ پر شدید رقت طاری ہو گئی اور آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو اس کی خاطر قیدی کو رہا کرو اور اس کا ہار بھی واپس کر دو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) ٹھیک ہے، اور نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوالعاص سے یہ عہد لیا کہ وہ زینب کو میرے پاس (مدینہ) آنے کی اجازت دے دے، اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور انصار کے ایک آدمی کو (مکہ) بھیجا تو فرمایا: تم دونوں یا حج کے مقام پر ہونا حتی کہ زینب تمہارے پاس سے گزریں تو تم اس کے ساتھ ہو لینا حتی کہ تم انہیں (یہاں مدینہ) لے آنا۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد و ابوداؤد۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (276/6 ح 26894) و أبو داود (2692)»

قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن