--. خاوند سے بلاوجہ جھگڑا کرنے والی اور خلع مانگنے والی عورتیں
حدیث نمبر: 3290
اعراب
عن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المنتزعات والمختلعات هن المنافقات» . رواه النسائي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمُنْتَزِعَاتُ وَالْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نافرمانی کرنے والیاں اور خلع طلب کرنے والیاں منافق ہیں۔ “ صحیح، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه النسائي (168/6ح 3491)»
وعن نافع عن مولاة لصفية بنت ابي عبيد انها اختلعت من زوجها بكل شيء لها فلم ينكر ذلك عبد الله بن عمر. رواه مالك وَعَنْ نَافِعٍ عَنْ مَوْلَاةٍ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهَا اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا بِكُلِّ شَيْءٍ لَهَا فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عمر. رَوَاهُ مَالك
نافع، صفیہ بنت ابی عبید کی آزاد کردہ لونڈی سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے اپنی ہر چیز کے بدلے اپنے خاوند (ابن عمر رضی اللہ عنہ) سے خلع لیا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار نہ کیا۔ اسنادہ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (565/2 ح 1229) ٭ مولاة صفية لا تعرف، و قول نافع: عن، بمعني أن فلا علاقة لھذه المولاة بالسند و الله أعلم.»
--. ایک مجلس کی تین طلاقوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ناراض ہونا
حدیث نمبر: 3292
اعراب
حديث رجاله ثقات وعن محمود بن لبيد قل: اخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امراته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبان ثم قال: «ايلعب بكتاب الله عز وجل وانا بين اظهركم؟» حتى قام رجل فقال: يا رسول الله الا اقتله؟. رواه النسائي حَدِيث رِجَاله ثِقَات وَعَن مَحْمُود بن لبيد قل: أَخْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانَ ثُمَّ قَالَ: «أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟» حَتَّى قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ؟. رَوَاهُ النَّسَائِيّ
محمود بن لبید بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصہ کی حالت میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا: ”کیا اللہ عزوجل کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے جبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ “ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ اسنادہ صحیح، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه النسائي (142/6. 143 ح 3430) و أعل بما لا يقدح.»
--. تین یا اس سے زیادہ طلاق دینا یعنی قرآن کا مذاق اڑانا
حدیث نمبر: 3293
اعراب
وعن مالك بلغه رجلا قال لعبد الله بن عباس: إني طلقت امراتي مائة تطليقة فماذا ترى علي؟ فقال ابن عباس: طلقت منك ثلاث وسبع وتسعون اتخذت بها آيات الله هزوا. رواه في الموطا وَعَن مَالك بلغه رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِائَةَ تَطْلِيقَةٍ فَمَاذَا تَرَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ ابْن عَبَّاس: طلقت مِنْك ثَلَاث وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ بِهَا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا. رَوَاهُ فِي الْمُوَطَّأ
امام مالک ؒ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اسے تیری طرف سے تین طلاقیں تو واقع ہو گئیں، جبکہ ستانوے کے ذریعے تم نے اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کیا۔ حسن، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه مالک (550/2 ح 1195) ٭ سنده ضعيف و له شواھد عند البيھقي (337/7) و أبي داود (2197) وغيرهما.»
وعن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معاذ ما خلق الله شيئا على وجه الارض احب إليه من العتاق ولا خلق الله شيئا على وجه الارض ابغض إليه من الطلاق» . رواه الدارقطني وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاذُ مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَتَاقِ وَلَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلاقِ» . رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ
معاذ ��ن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا: ”معاذ! اللہ نے روئے زمین پر جو کچھ پیدا فرمایا ہے اس میں کسی (غلام) کو آزاد کرنا اسے سب سے زیادہ محبوب ہے، اور اس نے روئے زمین پر جو کچھ پیدا فرمایا ہے اس میں سے طلاق اسے انتہائی ناپسند ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارقطنی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارقطني (35/4 ح 3939) والبيھقي (361/7) ٭ السند منقطع وحميد بن مالک: ضعيف، و حديث أبي داود (2178، تقدم: 3280) يغني عن بعضه.»
عن عائشة قالت: جاءت امراة رفاعة القرظي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: إني كنت عند رفاعة فطلقني فبت طلاقي فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وما معه إلا مثل هدبة الثوب فقال: «اتريدين ان ترجعي إلى رفاعة؟» قالت: نعم قال: «لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك» عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟» قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ: «لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ»
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی تو اس نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، لیکن اس کے پاس تو کپڑے کے پلو کی طرح ہے (یعنی وہ جماع کے قابل نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہو؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، حتی کہ تم اس سے لطف اندوز ہو جاؤ اور وہ تم سے لطف اندوز ہو جائے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2639) و مسلم (1433/111)»
عن عبد الله بن مسعود قال: لعن رسول الله المحلل والمحلل له. رواه الدارمي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَعَنَ رسولُ الله المحلّلَ والمُحلَّلَ لَهُ. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی۔ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الدارمي (158/2 ح 2263) وانظر الحديث الآتي (3297)»
وعن سليمان بن يسار قال: ادركت بضعة عشر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يقول: يوقف المؤلي. رواه في شرح السنة وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: أَدْرَكْتُ بِضْعَةَ عَشَرَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ يَقُولُ: يُوقَفُ الْمُؤْلِي. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
سلیمان بن یسار ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقریباً دس صحابہ سے ملاقات کی وہ سب کہتے تھے کہ ایلاء کرنے والے کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔ سندہ صحیح، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده صحيح، رواه البغوي في شرح السنة (237/9 ح 2363) [والشافعي في الأم 265/5] ٭ و للحديث شواھد عند الدارقطني (61/2) وغيره.»
وعن ابي سلمة: ان سلمان بن صخر ويقال له: سلمة بن صخر البياضي جعل امراته عليه كظهر امه حتى يمضي رمضان فلما مضى نصف من رمضان وقع عليها ليلا فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اعتق رقبة» قال: لا اجدها قال: «فصم شهرين متتابعين» قال: لا استطيع قال: «اطعم ستين مسكينا» قال: لا اجد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لفروة بن عمرو: «اعطه ذلك العرق» وهو مكتل ياخذ خمسة عشر صاعا او ستة عشر صاعا «ليطعم ستين مسكينا» . رواه الترمذي وَعَن أبي سلمةَ: أَنَّ سَلْمَانَ بْنَ صَخْرٍ وَيُقَالُ لَهُ: سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ الْبَيَاضِيُّ جَعَلَ امْرَأَتَهُ عَلَيْهِ كَظَهْرِ أُمِّهِ حَتَّى يَمْضِيَ رَمَضَانُ فَلَمَّا مَضَى نِصْفٌ مِنْ رَمَضَانَ وَقَعَ عَلَيْهَا لَيْلًا فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ لَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْتِقْ رَقَبَةً» قَالَ: لَا أَجِدُهَا قَالَ: «فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ» قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ: «أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا» قَالَ: لَا أَجِدُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِفَرْوَةَ بْنِ عَمْرٍو: «أَعْطِهِ ذَلِكَ الْعَرَقَ» وَهُوَ مِكْتَلٌ يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا أَوْ سِتَّةَ عَشَرَ صَاعا «ليُطعِمَ سِتِّينَ مِسْكينا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ سلمان بن صخر، انہیں سلمہ بن صخر بیاضی بھی کہا جاتا ہے، نے اپنی بیوی کو پورا رمضان اپنے اوپر اپنی ماں کی پشت کی طرح قرار دے لیا، جب نصف رمضان گزر گیا تو ایک رات اس نے اس سے جماع کر لیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے متعلق آپ سے ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کرو۔ “ اس نے عرض کیا، میرے پاس کوئی غلام نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ “ اس نے عرض کیا: میں استطاعت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ “ اس نے عرض کیا: میں طاقت نہیں رکھتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروہ بن عمرو سے فرمایا: ”اسے پندرہ صاع یا سولہ (تقریباً چالیس کلو) والا کھجوروں کا ٹوکرا دے دو تاکہ وہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (1200 وقال:حسن)»