وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يفرك مؤمن مؤمنة إن كره منها خلقا رضي منها آخر» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مومن (شوہر) کسی مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی کوئی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو کوئی دوسری عادت پسند بھی ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1469/61)»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم ولولا حواء لم تخن انثى زوجها الدهر» وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوجهَا الدَّهْر»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بنو اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت خراب نہ ہوتا اور اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت کبھی اپنے شوہر کی خیانت نہ کرتی۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3399) و مسلم (1470/63)»
وعن عبد الله بن زمعة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يجلد احدكم امراته جلد العبد ثم يجامعها في آخر اليوم» وفي رواية: «يعمد احدكم فيجلد امراته جلد العبد فلعله يضاجعها في آخر يومه» . ثم وعظهم في ضحكهم من الضرطة فقال: «لم يضحك احدكم مما يفعل؟» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمَعَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَجْلِدْ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ يُجَامِعْهَا فِي آخِرِ الْيَوْمِ» وَفِي رِوَايَةٍ: «يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ فَلَعَلَّهُ يُضَاجِعُهَا فِي آخِرِ يَوْمِهِ» . ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ فَقَالَ: «لِمَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يفعل؟»
عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے اور پھر وہ دن کے آخر پہر اس سے مجامعت کرے۔ “ اور دوسری روایت میں ہے: ”تم میں سے کوئی قصد کرتا ہے تو اپنی عورت کو غلام کی طرح مارتا ہے، اور پھر ممکن ہے کہ وہ اسی روز آخری پہر اس سے مجامعت کرے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں گوز مارنے (ریح کی آواز) پر ہنسنے کے متعلق نصیحت کی تو فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسی چیز پر کیوں ہنستا ہے جو وہ خود کرتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4942) و مسلم (1470/63)»
وعن عائشة قالت: كنت العب بالبنات عند النبي صلى الله عليه وسلم وكان لي صواحب يلعبن معي فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل ينقمعن فيسربهن إلي فيلعبن معي وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ ينقمعن فيسربهن إِلَيّ فيلعبن معي
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، اور میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلتی تھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ آپ سے چھپ جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں میری طرف بھیجتے تو پھر وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6130) و مسلم (2440/81)»
--. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا آڑ سے حبشیوں کا کھیل دیکھنا
حدیث نمبر: 3244
اعراب
وعنها قالت: والله لقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم يقوم على باب حجرتي والحبشة يلعبون بالحراب في المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم يسترني بردائه لانظر إلى لعبهم بين اذنه وعاتقه ثم يقوم من اجلي حتى اكون انا التي انصرف فاقدروا قدر الجارية الحديثة السن الحريصة على اللهو وَعَنْهَا قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ عَلَى بَابِ حُجْرَتِي وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ بِالْحِرَابِ فِي الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بردائه لِأَنْظُرَ إِلَى لَعِبِهِمْ بَيْنَ أُذُنِهِ وَعَاتِقِهِ ثُمَّ يَقُومُ مِنْ أَجْلِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ فَاقْدُرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ الْحَرِيصَةِ على اللَّهْو
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، اللہ کی قسم! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے دیکھا جبکہ حبشی مسجد میں چھوٹے نیزوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چادر سے مجھے چھپا رہے تھے تاکہ میں آپ کے کان اور گردن کے بیچ سے ان کے کھیل کو دیکھ سکوں، پھر آپ میری خاطر کھڑے رہتے حتی کہ میں ہی وہاں سے ہٹتی تھی، تم نو عمر، کھیل سے شغف رکھنے والی، لڑکی کے کھڑے ہونے کا اندازہ کر لو۔ (کہ وہ کتنی دیر کھڑی ہو سکتی ہے۔) متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5236) و مسلم (892/18)»
--. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خوشی اور ناراضگی کی پہچان
حدیث نمبر: 3245
اعراب
وعنها قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني لاعلم إذا كنت عني راضية وإذا كنت عني غضبى» فقلت: من اين تعرف ذلك؟ فقال: إذا كنت عني راضية فإنك تقولين: لا ورب محمد وإذا كنت علي غضبى قلت: لا ورب إبراهيم. قالت: قلت: اجل والله يا رسول الله ما اهجر إلا اسمك وَعَنْهَا قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لأعْلم إِذا كنت عني راضية وَإِذا كنت عني غَضْبَى» فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً فَإِنَّكَ تَقُولِينَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ. قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے اور اسی طرح جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو تب بھی مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ “ میں نے عرض کیا: آپ یہ کیسے پہچانتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو تم کہتی ہو: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو تم کہتی ہو: ابراہیم ؑ کے رب کی قسم! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! بالکل ٹھیک ہے، میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5228) ومسلم (2439/80)»
--. فرشتوں کی لعنت اس عورت پر جو شوہر کو ناراض کرے
حدیث نمبر: 3246
اعراب
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امراته إلى فراشه فابت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امراته إلى فراشه فتابى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلَّا كَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ ساخطا عَلَيْهَا حَتَّى يرضى عَنْهَا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنی اہلیہ کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے اور وہ (خاوند) ناراضی میں سو جائے تو صبح ہونے تک فرشتے اس (عورت) پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ “ بخاری، مسلم۔ اور صحیحین کی ہی روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کوئی آدمی اپنی اہلیہ کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ اس پر انکار کر دے تو آسمان والی ذات (اللہ تعالیٰ) اس پر ناراض ہو جاتی ہے حتی کہ وہ (خاوند) اس سے راضی ہو جائے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3237) و مسلم (1436/122)»
وعن اسماء ان امراة قالت: يا رسول الله إن لي ضرة فهل علي جناح إن تشبعت من زوجي غير الذي يعطيني؟ فقال: «المتشبع بما لم يعط كلابس ثوبي زور» وَعَنْ أَسْمَاءَ أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي ضَرَّةً فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي غَيْرَ الَّذِي يُعْطِينِي؟ فَقَالَ: «الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ»
اسماء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میری ایک سوتن ہے، تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا کہ میں اپنے خاوند کی طرف سے کسی ایسی چیز کا اظہار کروں جو اس نے مجھے نہ دی ہو؟ (تاکہ میری سوتن تنگ ہو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی چیز ظاہر کرنے والا جو اسے نہ دی گئی ہو جھوٹ کا جوڑا زیب تن کرنے والے (یعنی دھوکے باز) کی طرح ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5219) ومسلم (2130/127)»
--. جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے ناراض ہوئے!
حدیث نمبر: 3248
اعراب
وعن انس قال: آلى رسول الله من نسائه شهرا وكانت انفكت رجله فاقام في مشربة تسعا وعشرين ليلة ثم نزل فقالوا: يا رسول الله آليت شهرا فقال: «إن الشهر يكون تسعا وعشرين» . رواه البخاري وَعَن أنس قَالَ: آلى رَسُول الله مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا وَكَانَتِ انْفَكَّتْ رِجْلُهُ فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً ثُمَّ نَزَلَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ آلَيْتَ شَهْرًا فَقَالَ: «إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایک ماہ ایلاء فرمایا۔ آپ کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتیس راتیں بالاخانہ میں قیام فرمایا پھر آپ نیچے تشریف لے آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایک ماہ کے لیے قسم اٹھائی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (5201)»
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیگمات کا خرچ زیادہ مانگنے کا معاملہ
حدیث نمبر: 3249
اعراب
وعن جابر قال: دخل ابو بكر رضي الله عنه يستاذن على رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد الناس جلوسا ببابه لم يؤذن لاحد منهم قال: فاذن لابي بكر فدخل ثم اقبل عمر فاستاذن فاذن له فوجد النبي صلى الله عليه وسلم جالسا حوله نسائه واجما ساكتا قال فقلت: لاقولن شيئا اضحك النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله لو رايت بنت خارجة سالتني النفقة فقمت إليها فوجات عنقها فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: «هن حولي كما ترى يسالنني النفقة» . فقام ابو بكر إلى عائشة يجا عنقها وقام عمر إلى حفصة يجا عنقها كلاهما يقول: تسالين رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ليس عنده؟ فقلن: والله لا نسال رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ابدا ليس عنده ثم اعتزلهن شهرا او تسعا وعشرين ثم نزلت هذه الآية: (يا ايها النبي قل لازواجك) حتى بلغ (للمحسنات منكن اجرا عظيما) قال: فبدا بعائشة فقال: «يا عائشة إني اريد ان اعرض عليك امرا احب ان لا تعجلي فيه حتى تستشيري ابويك» . قالت: وما هو يا رسول الله؟ فتلا عليها الآية قالت: افيك يا رسول الله استشير ا وي؟ بل اختار الله ورسوله والدار الآخرة واسالك ان لا تخبر امراة من نسائك بالذي قلت: قال: «لا تسالني امراة منهن إلا اخبرتها إن الله لم يبعثني معنتا ولا متعنتا ولكن بعثني معلما ميسرا» . رواه مسلم وَعَن جَابر قَالَ: دخل أَبُو بكر رَضِي الله عَنهُ يَسْتَأْذِنُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ النَّاسَ جُلُوسًا بِبَابِهِ لَمْ يُؤْذَنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ قَالَ: فَأُذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ فَدَخَلَ ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَوَجَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا حَوْلَهُ نِسَائِهِ وَاجِمًا سَاكِتًا قَالَ فَقُلْتُ: لَأَقُولَنَّ شَيْئًا أُضْحِكُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ رَأَيْتَ بِنْتَ خَارِجَةَ سَأَلَتْنِي النَّفَقَةَ فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَوَجَأْتُ عُنُقَهَا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: «هُنَّ حَوْلِي كَمَا تَرَى يَسْأَلْنَنِي النَّفَقَةَ» . فَقَامَ أَبُو بكر إِلَى عَائِشَةَ يَجَأُ عُنُقَهَا وَقَامَ عُمَرُ إِلَى حَفْصَةَ يَجَأُ عُنُقَهَا كِلَاهُمَا يَقُولُ: تَسْأَلِينَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ؟ فَقُلْنَ: وَاللَّهِ لَا نَسْأَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا أبدا لَيْسَ عِنْدَهُ ثُمَّ اعْتَزَلَهُنَّ شَهْرًا أَوْ تِسْعًا وَعشْرين ثمَّ نزلت هَذِه الْآيَة: (يَا أَيهَا النَّبِي قل لِأَزْوَاجِك) حَتَّى بلغ (للمحسنات مِنْكُن أجرا عَظِيما) قَالَ: فَبَدَأَ بعائشة فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْرِضَ عَلَيْكِ أَمْرًا أُحِبُّ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَشِيرِي أَبَوَيْكِ» . قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَتَلَا عَلَيْهَا الْآيَةَ قَالَتْ: أَفِيكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْتَشِيرُ أَ َوَيَّ؟ بَلْ أَخْتَارُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ وَأَسْأَلُكَ أَنْ لَا تُخْبِرَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِكَ بِالَّذِي قُلْتُ: قَالَ: «لَا تَسْأَلُنِي امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ إِلَّا أَخْبَرْتُهَا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا وَلَا مُتَعَنِّتًا وَلَكِنْ بَعَثَنِي معلما ميسرًا» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اجازت طلب کرنا چاہی تو انہوں نے لوگوں کو دروازے پر بیٹھے ہوئے پایا جن میں سے کسی کو اجازت نہ ملی تھی، راوی بیان کرتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی تو وہ اندر چلے گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے اجازت طلب کی تو انہیں بھی اجازت مل گئی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پریشانی کے عالم میں خاموش بیٹھا ہوا پایا جبکہ آپ کی ازواج مطہرات آپ کے اردگرد تھیں۔ راوی بیان کرتے ہیں: انہوں (یعنی عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں کوئی ایسی بات کہوں گا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنساؤں گا۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر خارجہ کی بیٹی مجھ سے خرچہ مانگتی تو میں اس کی گردن مروڑ دیتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیے اور فرمایا: ”انہوں نے میرے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، اور مجھ سے خرچہ مانگ رہی ہیں۔ “(یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور ان کی سرزنش کی، اور عمر رضی اللہ عنہ، حفصہ رضی اللہ عنہ کی گردن کوٹنے لگے، اور وہ دونوں کہہ رہے تھے: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی چیز کا مطالبہ کرتی ہو، جو ان کے پاس نہیں ہے، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ کے پاس نہ ہو، پھر آپ ایک ماہ یا انتیس دن ان سے الگ رہے، اور پھر یہ آیت نازل ہوئی: ”اے نبی! اپنی ازواج سے فرمائیں ...... تم میں سے محسنات کے لیے اجرِ عظیم ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے ابتدا فرمائی تو فرمایا: ”عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں، اور میں پسند کرتا ہوں کہ تجھے اس بارے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے جب تک تم اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لو۔ “ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے انہیں وہ آیت سنائی تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں گی، نہیں، بلکہ میں اللہ، اس کے رسول اور دارِ آخرت کو اختیار کرتی ہوں، اور میں آپ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ میں نے آپ سے جو بات کی ہے وہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کو مت بتائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے تو جو بھی پوچھے گی میں اسے ضرور بتاؤں گا، کیونکہ اللہ نے مجھے (لوگوں کو) رنج و مشقت میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے آسانی پیدا کرنے والا معلم بنا کر بھیجا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1478/29)»