وعن ابن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه اعتمروا من الجعرانة فرملوا بالبيت ثلاثا وجعلوا ارديتهم تحت آباطهم ثم قذفوها على عواتقهم اليسرى. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم وأصحابَه اعتمروا من الجعْرانة فَرَمَلُوا بِالْبَيْتِ ثَلَاثًا وَجَعَلُوا أَرْدِيَتَهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ ثُمَّ قَذَفُوهَا عَلَى عَوَاتِقِهِمُ الْيُسْرَى. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جِعرانہ سے عمرہ کیا تو انہوں نے تین چکر تیز تیز چل کر پورے کئے اور انہوں نے اپنی (احرام کی) چادروں کو (داہنی) بغلوں کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کندھوں کے اوپر ڈال رکھا تھا۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1884)»
عن ابن عمر قال: ما تركنا استلام هذين الركنين: اليماني والحجر في شدة ولا رخاء منذ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلمهما عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا تَرَكْنَا اسْتِلَامَ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ: الْيَمَانِي وَالْحَجَرِ فِي شِدَّةٍ وَلَا رخاء مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يستلمهما
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حجر اسود اور رکنِ یمانی کا استلام (چھونا) کرتے ہوئے دیکھا ہے تب سے ہم نے تنگی یا آسانی کسی بھی حال میں اِن کا استلام کرنا نہیں چھوڑا۔ متفق علیہ
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1606) ومسلم (1268/245)»
وفي رواية لهما: قال نافع: رايت ابن عمر يستلم الحجر بيده ثم قبل يده وقال: ما تركته منذ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: قَالَ نَافِعٌ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَبَّلَ يَدَهُ وَقَالَ: مَا تَرَكْتُهُ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَله
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: نافع بیان کرتے ہیں، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو چھوتے پھر ہاتھ چومتے، اور انہوں نے فرمایا: میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا ہے تب سے میں نے اسے ترک نہیں کیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1610) و مسلم (1276/258)»
وعن ام سلمة قالت: شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اني اشتكي. فقال: «طوفي من وراء الناس وانت راكبة» فطفت ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي إلى جنب البيت يقرا ب (الطور وكتاب مسطور) وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي. فَقَالَ: «طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ» فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ يَقْرَأُ ب (الطُّورِ وكِتَابٍ مسطور)
ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے اپنی بیماری کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کرو۔ “ میں نے طواف کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کی ایک جانب (بیت اللہ کی دیوار کے ساتھ) نماز پڑھ رہے تھے اور آپ سورۂ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1619) و مسلم (1276/258)»
وعن عابس بن ربيعة قال: رايت عمر يقبل الحجر ويقول: وإني لاعلم انك حجر ما تنفع ولا تضر ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل ما قبلتك وَعَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: رَأَيْت عمر يقبل الْحجر وَيَقُول: وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ مَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقبل مَا قبلتك
عابس بن ربیعہ بیان کرتے ہیں، میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں: میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1597) و مسلم (1270/251)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «وكل به سبعون ملكا» يعني الركن اليماني فمن قال: اللهم إني اسالك العفو والعافية في الدنيا والآخرة ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار قالوا: آمين. رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وُكِّلَ بِهِ سَبْعُونَ مَلَكًا» يَعْنِي الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ فَمَنْ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ قَالُوا: آمين. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس رکنِ یمانی پر ستر فرشتے مامور ہیں، جو شخص کہتا ہے: اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کی درخواست کرتا ہوں، ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما، ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ تو وہ فرشتے آمین کہتے ہیں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (2957) ٭ قال البوصيري: ’’ھذا إسناد ضعيف، حميد، قال فيه ابن عدي: أحاديثه غير محفوظة، و قال الذهبي: مجھول‘‘ قلت: حميد ھو ابن أبي سوية.»
وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: من طاف بالبيت سبعا ولا يتكلم إلا ب: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله محيت عنه عشر سيئات وكتب له عشر حسنات ورفع له عشر درجات. ومن طاف فتكلم وهو في تلك الحال خاض في الرحمة برجليه كخائض الماء برجليه. رواه ابن ماجه وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَلَا يَتَكَلَّمُ إِلَّا بِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ وَكُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ. وَمَنْ طَافَ فَتَكَلَّمَ وَهُوَ فِي تِلْكَ الْحَالِ خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ بِرِجْلَيْهِ كَخَائِضِ الماءِ برجليه. رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور اس دوران سبحان اللہ ........ الا باللہ ”اللہ پاک ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے، گناہ سے بچنا اور نیک عمل کرنا محض اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ ہے۔ “ کے سوا کوئی بات نہ کرے تو اس کے دس گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔ اور جو شخص طواف کرے اور اس دوران باتیں کرے تو وہ اس حال میں ایسے ہے کہ اس کے پاؤں تو رحمت میں ہیں (لیکن اوپر کا حصہ رحمت میں نہیں) جیسے کسی نے اپنے پاؤں پانی میں ڈبو رکھے ہوں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه ابن ماجه (2956)»
عن محمد بن ابي بكر الثقفي انه سال انس بن مالك وهما غاديان من منى إلى عرفة: كيف كنتم تصنعون في هذا اليوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: كان يهل منا المهل فلا ينكر عليه ويكبر المكبر منا فلا ينكر عليه عَن محمدِ بن أبي بكرٍ الثَقَفيُّ أَنَّهُ سَأَلَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَهُمَا غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ فِي هَذَا الْيَوْمِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: كَانَ يُهِلُّ مِنَّا الْمُهِلُّ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ مِنَّا فَلَا يُنكَرُ عَلَيْهِ
محمد بن ابوبکر ؒ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، جبکہ وہ دونوں منی سے عرفات جا رہے تھے، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس روز کیسے (تکبیر و تہلیل) کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہم میں سے کوئی تلبیہ پڑھتا تو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور ہم میں سے کوئی اللہ اکبر کہتا تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1659) و مسلم (274/ 1285)»
وعن جابر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «نحرت ههنا ومنى كلها منحر فانحروا في رحالكم. ووقفت ههنا وعرفة كلها موقف. ووقفت ههنا وجمع كلها موقف» . رواه مسلم وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «نحرتُ هَهُنَا وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ. وَوَقَفْتُ هَهُنَا وعرفةُ كلُّها موقفٌ. ووقفتُ هَهُنَا وجَمْعٌ كلُّها موقفٌ» . رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے (منی میں) اس جگہ قربانی ذبح کی ہے جبکہ منی سارے کا سارا قربان گاہ ہے اور میں نے یہاں وقوف کیا ہے جبکہ میدانِ عرفات سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے اور میں نے یہاں وقوف کیا ہے جبکہ مزدلفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1218/149)»
وعن عائشة قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما من يوم اكثر من ان يعتق الله فيه عبدا من النار من يوم عرفة وإنه ليدنو ثم يباهي بهم الملائكة فيقول: ما اراد هؤلاء. رواه مسلم وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ. رَوَاهُ مُسلم
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ باقی ایام کی نسبت عرفہ کے دن، سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ اور وہ قریب ہوتا ہے، پھر ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1348/436)»