وفي رواية احمد والنسائي عن ابن عباس قال: «إذا رمى الجمرة فقد حل له كل شيء إلا النساء» وَفِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ وَالنَّسَائِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ فَقَدْ حَلَّ لَهُ كلُّ شيءٍ إِلا النساءَ»
احمد اور نسائی کی ابن عباس سے مروی روایت میں ہے، فرمایا: ”جب وہ کنکریاں مار لے تو بیویوں کے علاوہ ہر چیز اس پر حلال ہو جاتی ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ احمد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (234/1 ح 2090) و النسائي (277/6 ح 3086) [و ابن ماجه (3041)] ٭ الحسن العرني ثقة أرسل عن ابن عباس رضي الله عنه (تقدم: 2613) و لبعض الحديث شاھد عند مسلم (1179)»
وعنها قالت: افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من آخر يومه حين صلى الظهر ثم رجع إلى منى فمكث بها ليالي ايام التشريق يرمي الجمرة إذا زالت الشمس كل جمرة بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة ويقف عند الاولى والثانية فيطيل القيام ويتضرع ويرمي الثالثة فلا يقف عندها. رواه ابو داود وَعَنْهَا قَالَتْ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مِنًى فَمَكَثَ بِهَا لَيَالِيَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ يَرْمِي الْجَمْرَةَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كُلَّ جَمْرَةٍ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ وَيَقِفُ عِنْدَ الْأُولَى وَالثَّانِيَةِ فَيُطِيلُ الْقِيَامَ وَيَتَضَرَّعُ وَيَرْمِي الثَّالِثَةَ فَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دن کے پچھلے پہر جب آپ نے نماز ظہر ادا کی تو طواف افاضہ کیا، پھر آپ منیٰ واپس تشریف لے آئے، آپ نے ایام تشریق کی راتیں وہاں گزاریں، جب سورج ڈھل جاتا تو آپ ہر جمرہ کو سات سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، پہلے اور دوسرے جمرے کے پاس کھڑے ہوتے، لمبا قیام فرماتے اور تضرع و عاجزی کے ساتھ دعائیں کرتے، اور آپ تیسرے کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو دا ود (1973) وَعَنْهَا قَالَتْ»
وعن ابي البداح بن عاصم بن عدي عن ابيه قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم لرعاء الإبل في البيتوتة: ان يرملوا يوم النحر ثم يجمعوا رمي يومين بعد يوم النحر فيرموه في احدهما. رواه مالك والترمذي والنسائي وقال الترمذي: هذا حديث صحيح وَعَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ عَن أَبِيه قَالَ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم لرعاء الْإِبِل فِي البيتوتة: أَن يرملوا يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَجْمَعُوا رَمْيَ يَوْمَيْنِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ فَيَرْمُوهُ فِي أَحَدِهِمَا. رَوَاهُ مَالِكٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ
ابوالبداح بن عاصم بن عدی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹوں کے چرواہوں کو رات بسر کرنے کی رخصت دے دی کہ وہ یوم النحر کو کنکریاں ماریں پھر یوم نحر کے بعد وہ دو دن کی رمی کو جمع کر لیں اور ایک دن میں ہی کنکریاں مار لیں۔ مالک، ترمذی نسائی۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ مالک و الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (408/1 ح 946) و الترمذي (955) و النسائي (273/5 ح 3071)»
عن عبد الله بن عمر: ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما يلبس من الثياب؟ فقال: «لا تلبسوا القمص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الخفاف إلا احد لا يجد نعلين فيلبس خفين وليقطعهما اسفل الكعبين ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه زعفران ولا ورس» . متفق عليه وزاد البخاري في رواية: «ولا تنتقب المراة المحرمة ولا تلبس القفازين» عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يلبس مِنَ الثِّيَابِ؟ فَقَالَ: «لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَيَلْبَسُ خُفَّيْنِ وليقطعهما أَسْفَل الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا وَرْسٌ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَزَادَ الْبُخَارِيُّ فِي رِوَايَةٍ: «وَلَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تلبس القفازين»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ احرام والا کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قمیض، عمامے، شلواریں، جبے، اور موزے نہ پہنو، البتہ اگر کوئی شخص جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے اور انہیں ٹخنوں کے نیچے تک کاٹ لے اور ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جسے زعفران اور ورس کی خوشبو لگی ہو۔ “ بخاری، مسلم۔ متفق علیہ۔ اور امام بخاری نے ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے: ”احرام والی عورت نقاب پہنے نہ دستانے۔ “
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1542، 1838) و مسلم (1177/1)»
وعن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب وهو يقول: «إذا لم يجد المحرم نعلين لبس خفين وإذا لم يجد إزارا لبس سراويل» وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: «إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمُحْرِمُ نَعْلَيْنِ لَبَسَ خُفَّيْنِ وَإِذَا لَمْ يَجِدْ إِزَارًا لَبَسَ سَرَاوِيل»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: ”جب محرِم جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے اور جب وہ تہبند نہ پائے تو شلوار پہن لے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1841) و مسلم (1178/4)»
وعن يعلى بن امية قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم بالجعرانة إذ جاء رجل اعرابي عليه جبة وهو متضمخ بالخلوق فقال: يا رسول الله إني احرمت بالعمرة وهذه علي. فقال: «اما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات واما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع في حجك» وَعَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالجعرانة إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ عَلَيْهِ جُبَّةٌ وَهُوَ مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوقِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَحْرَمْتُ بِالْعُمْرَةِ وَهَذِهِ عَلَيَّ. فَقَالَ: «أَمَا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ كَمَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ»
یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم جعرانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے جب ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اس نے جبہ پہن رکھا تھا اور اس نے زعفران کی بنی ہوئی خوشبو بھی خوب لگا رکھی تھی، اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور میں نے یہ (جبہ) پہن رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”رہی خوشبو جو تم نے لگا رکھی ہے اسے تین مرتبہ دھو دو، اور رہا جبہ تو اسے اتار دو، اور پھر اپنے عمرے میں ویسے ہی کر جیسے تو اپنے حج میں کرتا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1536) و مسلم (6. 8 / 1180)»
وعن عثمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينكح المحرم ولا ينكح ولا يخطب» . رواه مسلم وَعَنْ عُثْمَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْكِحُ الْمُحْرِمُ وَلَا يُنكِحُ وَلَا يَخْطُبُ» . رَوَاهُ مُسلم
عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”محرم اپنا نکاح کرے نہ کسی کا نکاح کرائے اور نہ ہی پیغامِ نکاح بھیجے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1409/41)»
وعن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم تزوج ميمونة وهو محرم وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ محرم
ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حالت احرام میں میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1837) و مسلم (1410/46)»
وعن يزيد بن الاصم ابن اخت ميمونة عن ميمونة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوجها وهو حلال. رواه مسلم قال الشيخ الإمام يحيى السنة: والاكثرون على انه تزوجها حلالا وظهر امر تزويجها وهو محرم ثم بنى بها وهو حلال بسرف في طريق مكة وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ابْنِ أُخْتِ مَيْمُونَةَ عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلَالٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ قَالَ الشيخُ الإِمَام يحيى السّنة: وَالْأَكْثَرُونَ عَلَى أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا حَلَالًا وَظَهَرَ أَمْرُ تَزْوِيجِهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَال بسرف فِي طَرِيق مَكَّة
میمونہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے یزید بن الاصم، میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو آپ محرم نہیں تھے۔ الشیخ الامام محی السنہ ؒ بیان کرتے ہیں، اکثر محدثین کا یہ مؤقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو آپ محرم نہیں تھے جبکہ آپ نے حالت احرام میں اس معاملے کو ظاہر فرمایا۔ پھر آپ نے مکہ کے راستے میں مقام سرف پر ان سے خلوت اختیار کی، جبکہ آپ حالت احرام میں نہیں تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1411/48)»
وعن ابي ايوب: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يغسل راسه وهو محرم وَعَن أَبِي أَيُّوبَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ
ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت احرام میں اپنا سر دھو لیا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1840) و مسلم (1205/91)»