عن جابر: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالناس صلاة الظهر في الخوف ببطن نخل فصلى بطائفة ركعتين ثم سلم ثم جاء طائفة اخرى فصلى بهم ركعتين ثم سلم. رواه في «شرح السنة» عَنْ جَابِرٌ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ صَلَاةَ الظُّهْرِ فِي الْخَوْف بِبَطن نخل فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ جَاءَ طَائِفَةٌ أُخْرَى فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ. رَوَاهُ فِي «شرح السّنة»
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام بطن نخل میں لوگوں کو حالت خوف میں نماز ظہر پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جماعت کو دو رکعتیں پڑھائیں، پھر سلام پھیر دیا، پھر دوسری جماعت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی دو رکعتیں پڑھائیں اور پھر سلام پھیر دیا۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (284/4 تحت ح 1094 بدون سند) [والنسائي (178/3 ح 1553) و ابن خزيمة (1353)] ٭ الحسن البصري مدلس و لم أجد تصريح سماعه لأصل الحديث شواھد کثيرة جدًا.»
عن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل بين ضجنان وعسفان فقال المشركون: لهؤلاء صلاة هي احب إليهم من آبائهم وابنائهم وهي العصر فاجمعوا امركم فتميلوا عليهم ميلة واحدة وإن جبريل اتى النبي صلى الله عليه وسلم فامره ان يقسم اصحابه شطرين فيصلي بهم وتقوم طائفة اخرى وراءهم ولياخذوا حذرهم واسلحتهم فتكون لهم ركعة ولرسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتان. رواه الترمذي والنسائي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: لِهَؤُلَاءِ صَلَاةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ وَهِيَ الْعَصْرُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَتَمِيلُوا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً وَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَهُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِهِمْ وَتَقُومَ طَائِفَةٌ أُخْرَى وَرَاءَهُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ فَتَكُونَ لَهُمْ رَكْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ ڈالا تو مشرکین نے کہا: نماز عصر انہیں اپنے والدین اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے، پس تم پختہ عزم کر کے ایک ہی بار ان پر حملہ کر دو، اسی اثنا میں جبریل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں، آپ انہیں اس طرح نماز پڑھائیں گے کہ ایک جماعت ان کے پیچھے کھڑی ہو اور وہ ان کا بچاؤ کرے اور ان کے اسلحہ کا خیال رکھے، پس ان کی تو ایک رکعت ہو گی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو رکعتیں ہوں گی۔ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3035 وقال: حسن صحيح غريب.) والنسائي (174/3 ح 1545) [وصححه ابن حبان: 584]»
عن ابي سعيد الخدري قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والاضحى إلى المصلى فاول شيء يبدا به الصلاة ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس والناس جلوس على صفوفهم فيعظهم ويوصيهم ويامرهم وإن كان يريد ان يقطع بعثا قطعه او يامر بشيء امر به ثم ينصرف عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يخرج يَوْم الْفطر وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ وَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ أَوْ يَأْمر بِشَيْء أَمر بِهِ ثمَّ ينْصَرف
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے عید گاہ تشریف لے جاتے تو آپ سب سے پہلے نماز پڑھتے، پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر وعظ و نصیحت فرماتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احکام جاری کرتے، اگر کوئی لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے روانہ فرماتے یا کسی چیز کے بارے میں حکم فرمانا ہوتا تو آپ اس کے متعلق حکم فرماتے، پھر آپ گھر تشریف لے جاتے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (956) و مسلم (889/9)»
وعن جابر بن سمرة قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العيدين غير مرة ولا مرتين بغير اذان ولا إقامة. رواه مسلم وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَة. رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عیدین کی نماز کئی مرتبہ پڑھی جن میں اذان اور اقامت نہیں تھی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (887/7)»
وعن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وعمر يصلون العيدين قبل الخطبة وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (963) و مسلم (888/8)»
وسئل ابن عباس: اشهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم العيد؟ قال: نعم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ثم خطب ولم يذكر اذانا ولا إقامة ثم اتى النساء فوعظهن وذكرهن وامرهن بالصدقة فرايتهن يهوين إلى آذانهن وحلوقهن يدفعن إلى بلال ثم ارتفع هو وبلال إلى بيته وَسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَشَهِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَ؟ قَالَ: نَعَمْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَذَانًا وَلَا إِقَامَةً ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَرَأَيْتُهُنَّ يُهْوِينَ إِلَى آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ يَدْفَعْنَ إِلَى بِلَالٍ ثُمَّ ارْتَفَعَ هُوَ وَبِلَالٌ إِلَى بَيته
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز عید پڑھی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نماز عید کے لیے) تشریف لائے تو آپ نے نماز پڑھائی، پھر خطبہ ارشاد فرمایا، اور انہوں نے اذان و اقامت کا ذکر نہیں کیا، پھر آپ خواتین کے پاس تشریف لے گئے تو انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ کے متعلق حکم فرمایا، میں نے انہیں دیکھا کہ وہ اپنے کانوں اور اپنی گردنوں سے زیور اتار کر بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے کر رہی ہیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کی طرف چلے گئے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5249) و مسلم (884/1)»
وعن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى يوم الفطر ركعتين لم يصل قبلهما ولا بعدهما وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفِطْرِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهُمَا وَلَا بَعْدَهُمَا
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الفطر کی نماز دو رکعتیں پڑھی، آپ نے ان دو رکعتوں سے پہلے کوئی نماز پڑھی نہ اس کے بعد۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (964) و مسلم (884/13)»
وعن ام عطية رضي الله عنها قالت: امرنا ان نخرج الحيض يوم العيدين وذوات الخدور فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم وتعتزل الحيض عن مصلاهن قالت امراة: يا رسول الله إحدانا ليس لها جلباب؟ قال: «لتلبسها صاحبتها من جلبابها» وَعَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتَ الْخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَتَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ قَالَتِ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»
ام عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے روز حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو گھر سے نکالیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت (نماز) اور دعا میں شریک ہوں، لیکن حائضہ عورتیں جائے نماز سے دور رہیں، کسی خاتون نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ والی اسے اپنی چادر میں شریک کار بنا لے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (351) و مسلم (890/12)»
وعن عائشة قالت: إن ابا بكر دخل عليها وعندها جاريتان في ايام منى تدففان وتضربان وفي رواية: تغنيان بما تقاولت الانصار يوم بعاث والنبي صلى الله عليه وسلم متغش بثوبه فانتهرهما ابو بكر فكشف النبي صلى الله عليه وسلم عن وجهه فقال: دعهما يا ابا بكر فإنها ايام عيد وفي رواية: يا ابا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنًى تُدَفِّفَانِ وَتَضْرِبَانِ وَفِي رِوَايَةٍ: تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَشٍّ بِثَوْبِهِ فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ: دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ وَفِي رِوَايَةٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِن لكل قوم عيدا وَهَذَا عيدنا
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ایام تشریق میں ان کے پاس آئے تو ان کے ہاں دو بچیاں دف بجا رہی تھیں، اور ایک دوسری روایت میں ہے: وہ جنگ بعاث میں انصار کے کارناموں کے بارے میں گیت گا رہی تھیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر ایک کپڑا لپیٹ رکھا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان بچیوں کو ڈانٹا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرے سے کپڑا اٹھا کر فرمایا: ”ابوبکر! انہیں چھوڑ دو یہ تو ایام عید ہیں۔ “ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ”ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (952) و مسلم (16، 892/17)»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى ياكل تمرات وياكلهن وترا. رواه البخاري وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَيَأْكُلَهُنَّ وِتْرًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر کے روز طاق عدد میں کھجوریں تناول فرما کر عید گاہ جایا کرتے تھے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (953)»