وعن عائشة رضى الله عنها قالت: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجرته والناس ياتمون به من وراء الحجرة. رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ رِضَى اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُجْرَتِهِ وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِهِ مِنْ وَرَاءِ الْحُجْرَةِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ میں نماز پڑھی جبکہ لوگ حجرے کے باہر سے آپ کی اقتدا کر رہے تھے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (1126) [والبيھقي (3/ 110) و رواه البخاري (729) و مسلم (761) به مطولاً]»
عن ابي مالك الاشعري قال: الا احدثكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: اقام الصلاة وصف الرجال وصف خلفهم الغلمان ثم صلى بهم فذكر صلاته ثم قال: «هكذا صلاة» قال عبد العلى: لا احسبه إلا قال: امتي. رواه ابو داود عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَفَّ الرِّجَالَ وَصَفَّ خَلْفَهُمُ الْغِلْمَانَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ فَذَكَرَ صَلَاتَهُ ثُمَّ قَالَ: «هَكَذَا صَلَاة» قَالَ عبد العلى: لَا أَحْسَبُهُ إِلَّا قَالَ: أُمَّتِي. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق نہ بتاؤں؟ آپ نے نماز کے لیے اقامت کہی، اور مردوں نے صف بنائی، اور ان کے پیچھے بچوں نے صف بنائی پھر آپ نے انہیں نماز پڑھائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: اس طرح نماز ہے، عبدالاعلیٰ نے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: ”میری امت کی نماز اس طرح ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (677) [و حسنه ابن الملقن في تحفة المحتاج (548)]»
وعن قيس بن عباد قال: بينا انا في المسجد في الصف المقدم فجبذني رجل من خلفي جبذة فنحاني وقام مقامي فوالله ما عقلت صلاتي. فلما انصرف إذا هو ابي بن كعب فقال: يا فتى لا يسوءك الله إن هذا عهد من النبي صلى الله عليه وسلم إلينا ان نليه ثم استقبل القبلة فقال: هلك اهل العقد ورب الكعبة ثلاثا ثم قال: والله ما عليهم آسى ولكن آسى على من اضلوا. قلت يا ابا يعقوب ما تعني باهل العقد؟ قال: الامراء. رواه النسائي وَعَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ: بَيْنَا أَنَا فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ فَجَبَذَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي جَبْذَةً فَنَحَّانِي وَقَامَ مَقَامِي فَوَاللَّهِ مَا عَقَلْتُ صَلَاتِي. فَلَمَّا انْصَرَفَ إِذَا هُوَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فَقَالَ: يَا فَتَى لَا يَسُوءُكَ اللَّهُ إِنَّ هَذَا عُهِدَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا أَنْ نَلِيَهُ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَقَالَ: هَلَكَ أَهْلُ الْعُقَدِ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا عَلَيْهِمْ آسَى وَلَكِنْ آسَى عَلَى مَنْ أَضَلُّوا. قُلْتُ يَا أَبَا يَعْقُوبَ مَا تَعْنِي بِأَهْلِ العقد؟ قَالَ: الْأُمَرَاء. رَوَاهُ النَّسَائِيّ
قیس بن عباد بیان کرتے ہیں، اسی اثنا میں کہ میں مسجد میں پہلی صف میں تھا کہ کسی آدمی نے مجھے زور سے پیچھے کھینچا، وہ مجھے وہاں سے ہٹا کر خود وہاں کھڑا ہو گیا، اللہ کی قسم! مجھے اپنی نماز کے بارے میں کچھ یاد نہ رہا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو وہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے فرمایا: نوجوان! اللہ تمہیں کسی تکلیف سے دوچار نہ کرے، بے شک یہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہمارے لیے حکم ہے کہ ہم امام کے پاس کھڑے ہوں، پھر انہوں نے قبلہ رخ کھڑے ہو کر فرمایا: ”اہل عقد“ ہلاک ہو گئے، رب کعبہ کی قسم! مجھے ان پر کوئی افسوس نہیں، لیکن مجھے افسوس تو ان پر ہے جنہوں نے گمراہ کیا، میں نے کہا: ابویعقوب! ”اہل عقد“ سے کون مراد ہیں؟ انہوں نے فرمایا: حکمران۔ صحیح، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه النسائي (2/ 88 ح 809) [و صححه ابن خزيمة (1573) و ابن حبان (398) و له طريق آخر عند الحاکم (4/ 527) و صححه ووافقه الذهبي.]»
عن ابي مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله فإن كانوا في القراءة سواء فاعلمهم بالسنة فإن كانوا في السنة سواء فاقدمهم هجرة فإن كانوا في الهجرة سواء فاقدمهم سنا ولا يؤمن الرجل الرجل في سلطانه ولا يقعد في بيته على تكرمته إلا بإذنه» . رواه مسلم. وفي رواية له: «ولا يؤمن الرجل الرجل في اهله» عَن أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِنًّا وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: «وَلَا يَؤُمَّنَّ الرجل الرجل فِي أَهله»
ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے (جاننے، سمجھنے) والا ہو، پس اگر وہ قراءت میں سب برابر ہوں تو پھر ان میں سے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو، اگر وہ سنت میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے جس نے ہجرت پہلے کی ہو، اور اگر وہ ہجرت کرنے میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے جو عمر میں بڑا ہو، اور کوئی شخص کسی کی جگہ (بلا اجازت) امامت کرائے نہ بلا اجازت اس کے گھر میں اس کی عزت کی جگہ بیٹھے۔ “ مسلم۔ اور مسلم ہی کی روایت میں ہے: ”کوئی آدمی کسی آدمی کی اس کے گھر میں امامت نہ کرائے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (290 / 673)»
وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كانوا ثلاثة فليؤمهم احدهم واحقهم بالإمام اقرؤهم» . رواه مسلم وذكر حديث مالك بن الحويرث في باب بعد باب «فضل الاذان» وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً فليؤمهم أحدهم وأحقهم بِالْإِمَامِ أَقْرَؤُهُمْ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَذَكَرَ حَدِيثَ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ فِي بَابٍ بَعْدَ بَابِ «فَضْلِ الْأَذَانِ»
ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین افراد ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے اور ان میں سے جو زیادہ قرآن پڑھنے والا ہے وہ امامت کا زیادہ حق دار ہے۔ “ مسلم، اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث باب فضل الاذان کے بعد والے باب میں بیان ہو چکی ہے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (289/ 672) ه حديث مالک بن الحويرث تقدم (683)»
عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليؤذن لكم خياركم وليؤمكم قراؤكم» . رواه ابو داود عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِيُؤَذِّنْ لَكُمْ خِيَارُكُمْ وليؤمكم قراؤكم» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر شخص اذان کہے اور تم میں سے بہتر قاری تمہیں نماز پڑھائے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (590) ٭ حسين بن عيسي الحنفي: ضعيف، ضعفه الجمھور.»
وعن ابي عطية العقيلي قال: كان مالك بن الحويرث ياتينا إلى مصلانا يتحدث فحضرت الصلاة يوما قال ابو عطية: فقلنا له: تقدم فصله. قال لنا قدموا رجلا منكم يصلي بكم وساحدثكم لم لا اصلي بكم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم» . رواه ابو داود والترمذي والنسائي إلا انه اقتصر على لفظ النبي صلى الله عليه وسلم وَعَنْ أَبِي عَطِيَّةَ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ: كَانَ مَالِكُ بن الْحُوَيْرِث يَأْتِينَا إِلَى مُصَلَّانَا يَتَحَدَّثُ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ يَوْمًا قَالَ أَبُو عَطِيَّةَ: فَقُلْنَا لَهُ: تَقَدَّمَ فَصْلُهُ. قَالَ لَنَا قَدِّمُوا رَجُلًا مِنْكُمْ يُصَلِّي بِكُمْ وَسَأُحَدِّثُكُمْ لِمَ لَا أُصَلِّي بِكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ زار قوما فَلَا يؤمهم وليؤمهم رجل مِنْهُم» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ إِلَّا أَنَّهُ اقْتَصَرَ عَلَى لَفْظِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم
ابوعطیہ عقیلی بیان کرتے ہیں، مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری نماز کی جگہ پر ہمارے پاس تشریف لایا کرتے اور باتیں کیا کرتے تھے، ایک روز نماز کا وقت ہو گیا، ابوعطیہ نے کہا، ہم نے ان سے درخواست کی کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں، انہوں نے ہمیں فرمایا: اپنے کسی آدمی کو آگے کرو وہ تمہیں نماز پڑھائے گا: ”میں عنقریب تمہیں بتاؤں گا کہ میں تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھاتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص کسی قوم کے پاس جائے تو وہ ان کی امامت نہ کرائے بلکہ انہی میں سے کوئی شخص ان کی امامت کرائے۔ “ ابوداؤد، ترمذی، نسائی، البتہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ تک اکتفا کیا ہے۔ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (596) و الترمذي (356 وقال: حسن صحيح) والنسائي (80/2 ح 788)»
وعن انس قال: استخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ابن ام مكتوم يؤم الناس وهو اعمى. رواه ابو داود وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: اسْتَخْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يَؤُمُّ النَّاس وَهُوَ أعمى. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کراتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔ صحیح، روا�� ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (595) [و له شواھد عند ابن حبان (370) وغيره.]»
وعن ابي امامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاثة لا تجاوز صلاتهم آذانهم: العبد الآبق حتى يرجع وامراة باتت وزوجها عليها ساخط وإمام قوم وهم له كارهون. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ آذَانَهُمْ: الْعَبْدُ الْآبِقُ حَتَّى يَرْجِعَ وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَيْهَا سَاخِطٌ وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں جاتی، مفرور غلام حتیٰ کہ وہ واپس آ جائے، وہ عورت جو اس حال میں رات بسر کرے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو، اور لوگوں کا امام جبکہ وہ اسے نا پسند کرتے ہوں۔ “ ترمذی اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (360)»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ثلاثة لا تقبل منهم صلاتهم: من تقدم قوما وهم له كارهون ورجل اتى الصلاة دبارا والدبار: ان ياتيها بعد ان تفوته ورجل اعتبد محررة. رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ لَا تُقْبَلُ مِنْهُمْ صَلَاتُهُمْ: مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا وَالدِّبَارُ: أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَةً. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی: وہ امام جسے مقتدی نا پسند کرتے ہوں، ایک وہ شخص جو نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز پڑھتا ہے، اور ایک وہ آدمی جو کسی آزاد شخص کو غلام بنا لے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (593) و ابن ماجه (970) ٭ عبد الرحمٰن بن زياد الإفريقي ضعيف (تقدم: 239) و عمران المعافري: ضعيف.»