وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن احدكم إذا قام يصلي جاءه الشيطان فلبس عليه حتى لايدري كم صلى؟ فإذا وجد ذلك احدكم فليسجد سجدين وهو جالس» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن أحدكُم إِذا قَامَ يُصَلِّي جَاءَهُ الشَّيْطَان فَلبس عَلَيْهِ حَتَّى لايدري كَمْ صَلَّى؟ فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سجدين وَهُوَ جَالس»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آ کر اسے مغالطے میں مبتلا کر دیتا ہے حتیٰ کہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے، جب تم میں سے کوئی ایسی صورت (تردد) پائے تو وہ بیٹھنے کی حالت ہی میں دو سجدے کر لے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1232) و مسلم (82/ 389)»
وعن عطاء بن يسار وعن ابي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا شك احدكم في صلاته فلم يدر كم صلى ثلاثا ام اربعا فليطرح الشك وليبن على ما استيقن ثم يسجد سجدتين قبل ان يسلم فإن كان صلى خمسا شفعن له صلاته وإن كان صلى إتماما لاربع كانتا ترغيما للشيطان» . رواه مسلم ورواه مالك عن عطاء مرسلا. وفي روايته: «شفعها بهاتين السجدتين» وَعَن عَطاء بن يسَار وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلَاثًا أم أَرْبعا فليطرح الشَّك وليبن عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعْنَ لَهُ صَلَاتَهُ وَإِنْ كَانَ صَلَّى إِتْمَامًا لِأَرْبَعٍ كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَرَوَاهُ مَالِكٌ عَنْ عَطَاءٍ مُرْسَلًا. وَفِي رِوَايَتِهِ: «شَفَعَهَا بِهَاتَيْنِ السَّجْدَتَيْنِ»
عطا بن یسار، ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز کے بارے میں شک ہو اور اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں، تین یا چار، تو وہ شک دور کرے اور یقین پر بنیاد رکھے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے، اگر اس نے پانچ رکعت پڑھ لی ہیں تو یہ دو سجدے اس کی نماز کو جفت بنا دیں گے، اور اگر اس نے یہ رکعت چار مکمل کرنے کے لیے پڑھی ہے تو پھر وہ دو سجدے شیطان کی تذلیل کے لیے ہوں گے۔ “ مسلم، امام مالک نے عطاء سے مرسل روایت کیا ہے، اور ان کی روایت میں ہے: ”اس نے ان دو سجدوں سے اس کو جفت بنا دیا۔ “ رواہ مسلم و مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (88/ 571) و مالک (95/1 ح 210)»
وعن عبد الله بن مسعود: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الظهر خمسا فقيل له: ازيد في الصلاة؟ فقال: «وما ذاك؟» قالوا: صليت خمسا. فسجد سجدتين بعدما سلم. وفي رواية: قال: «إنما انا بشر مثلكم انسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني وإذا شك احدكم في صلاته فليتحر الصواب فليتم عليه ثم ليسلم ثم يسجد سجدتين» وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا. فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَمَا سَلَّمَ. وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ ثُمَّ لِيُسَلِّمْ ثمَّ يسْجد سَجْدَتَيْنِ»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ظہر پانچ رکعتیں پڑھیں، آپ سے عرض کیا گیا، کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کیا؟“ صحابہ نے عرض کیا: آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کیے، اور ایک دوسری روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی تم جیسا انسان ہوں، جیسے تم بھول جاتے ہو ویسے ہی میں بھول جاتا ہوں، پس جب کبھی میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کرا دیا کرو، اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک گزرے تو وہ درست بات تلاش کرنے کی پوری کوشش کرے اور اس بنیاد پر نماز مکمل کرے۔ پھر سلام پھیرے اور پھر دو سجدے کرے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (401) و مسلم (89/ 572)»
وعن ابن سيرين عن ابي هريرة قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتي العشي-قال ابن سيرين سماها ابو هريرة ولكن نسيت انا قال فصلى بنا ركعتين ثم سلم فقام إلى خشبة معروضة في المسجد فاتكا عليها كانه غضبان ووضع يده اليمنى على اليسرى وشبك بين اصابعه ووضع خده الايمن على ظهر كفه اليسرى وخرجت سرعان من ابواب المسجد فقالوا قصرت الصلاة وفي القوم ابو بكر وعمر رضي الله عنهما فهاباه ان يكلماه وفي القوم رجل في يديه طول يقال له ذو اليدين قال يا رسول الله انسيت ام قصرت الصلاة قال: «لم انس ولم تقصر» فقال: «اكما يقول ذو اليدين؟» فقالوا: نعم. فتقدم فصلى ما ترك ثم سلم ثم كبر وسجد مثل سجوده او اطول ثم رفع راسه وكبر ثم كبر وسجد مثل سجوده او اطول ثم رفع راسه وكبر فربما سالوه ثم سلم فيقول نبئت ان عمران بن حصين قال ثم سلم. ولفظه للبخاري وفي اخرى لهما: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بدل «لم انس ولم تقصر» : «كل ذلك لم يكن» فقال: قد كان بعض ذلك يا رسول الله وَعَن ابْن سِيرِين عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعشي-قَالَ ابْن سِيرِين سَمَّاهَا أَبُو هُرَيْرَةَ وَلَكِنْ نَسِيتُ أَنَا قَالَ فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ إِلَى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَاتَّكَأَ عَلَيْهَا كَأَنَّهُ غَضْبَانُ وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ وَوَضَعَ خَدَّهُ الْأَيْمَنَ عَلَى ظَهْرِ كَفه الْيُسْرَى وَخرجت سرعَان مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالُوا قَصُرَتِ الصَّلَاةُ وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَهَابَاهُ أَنْ يُكَلِّمَاهُ وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ فِي يَدَيْهِ طُولٌ يُقَالُ لَهُ ذُو الْيَدَيْنِ قَالَ يَا رَسُول الله أنسيت أم قصرت الصَّلَاة قَالَ: «لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ» فَقَالَ: «أَكَمَا يَقُولُ ذُو الْيَدَيْنِ؟» فَقَالُوا: نَعَمْ. فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى مَا تَرَكَ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ فَرُبَّمَا سَأَلُوهُ ثُمَّ سَلَّمَ فَيَقُولُ نُبِّئْتُ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ قَالَ ثمَّ سلم. وَلَفْظُهُ لِلْبُخَارِيِّ وَفِي أُخْرَى لَهُمَا: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَلَ «لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ» : «كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ» فَقَالَ: قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
ابن سرین ؒ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی، ابن سرین ؒ نے فرمایا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نام بھی بتایا تھا لیکن میں اسے بھول گیا ہوں، انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، پھر مسجد میں رکھی ہوئی لکڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے گویا آپ غصہ کی حالت میں تھے، آپ نے دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا، انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور اپنا دایاں رخسار بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ دیا، اور جلد باز لوگ مسجد کے دروازوں سے باہر چلے گئے، باقی صحابہ نے کہا: (کیا) نماز کم کر دی گئی ہے؟ صحابہ کرام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، لیکن وہ بھی آپ سے بات کرنے سے گھبراتے تھے، صحابہ میں ایک آدمی تھا جس کے ہاتھ لمبے تھے اور اسے ذوالیدین کہا جاتا تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھولا ہوں نہ نماز کم کی گئی ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ایسے ہی ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہا ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں! آپ آگے بڑھے، اور جو نماز چھوڑی تھی وہ پڑھائی، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبر کہا اور اپنے سجدوں کی طرح یا ان سے بھی زیادہ لمبا سجدہ کیا، پھر سر اٹھایا اور اللہ اکبر کہا، پھر اللہ اکبر کہا اور اپنے سجدوں کی مثل یا ان سے زیادہ لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا، اور اللہ اکبر کہا۔ چنانچہ انہوں (تلامذہ) نے ابن سرین ؒ سے پوچھا: پھر آپ نے سلام پھیرا؟ وہ بیان کرتے ہیں، مجھے بتایا گیا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر آپ نے سلام پھیرا۔ بخاری، مسلم اور الفاظ حدیث بخاری کے ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ((لم انس ولم تقصر)) کے بدلے ((کل ذالک لم یکن)) کہا: ”یہ سب کچھ نہیں ہوا۔ “ تو انہوں (ذوالیدین) نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ان میں (یعنی نہ میں بھولا ہوں نہ نماز قصر کی گئی ہے) سے کچھ تو ہوا ہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6051) و مسلم (97/ 573)»
وعن عبد لله بن بحينة: ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم الظهر فقام في الركعتين الاوليين لم يجلس فقام الناس معه حتى إذا قضى الصلاة وانتظر الناس تسليمه كبر وهو جالس فسجد سجدتين قبل ان يسلم ثم سلم وَعَن عبد لله بن بُحَيْنَة: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمُ الظُّهْرَ فَقَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ لَمْ يَجْلِسْ فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ وَانْتَظَرَ النَّاسُ تَسْلِيمَهُ كَبَّرَ وَهُوَ جَالِسٌ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ
عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز ظہر پڑھائی تو آپ پہلی دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور تشہد نہ بیٹھے، تو صحابہ بھی آپ کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ جب آپ نے نماز پڑھ لی تو صحابہ نے سلام پھیرنے کا انتظار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے ہوئے دو سجدے کیے اور پھر سلام پھیرا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1224) و مسلم (86/ 570)»
عن عمران بن حصين: ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم فسها فسجد سجدتين ثم تشهد ثم سلم. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بهم فَسَهَا فَسجدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَشَهَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی تو آپ بھول گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو سجدے کیے، پھر تشہد پڑھی پھر سلام پھیرا۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (395) [و أبو داود (1039) و صححه ابن خزيمة (1062) و ابن حبان (536) والحاکم علٰي شرط الشيخين (1/ 323) ووافقه الذهبي و أعل بعلة غير قادحة.]»
وعن المغيرة بن شعبة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا قام الإمام في الركعتين فإن ذكر قبل ان يستوي قائما فليجلس وإن استوى قائما فلا يجلس وليسجد سجدتي السهو» . رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَامَ الْإِمَامُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَإِنْ ذَكَرَ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوِي قَائِما فليجلس وَإِنِ اسْتَوَى قَائِمًا فَلَا يَجْلِسْ وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيِ السَّهْو» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام دو رکعتیں پڑھ کر (تشہد پڑھے بغیر) کھڑا ہو جائے، اگر مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے اسے یاد آ جائے تو وہ بیٹھ جائے، اور اگر وہ مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہو جائے تو پھر نہ بیٹھے، اور سہو کے دو سجدے کر لے۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (1036) و ابن ماجه (1208) [وسنده ضعيف جدًا و للحديث شاھد حسن عند الطحاوي في معاني الآثار (440/1) وسنده حسن.]»
عن عمران بن حصين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى ا عصر وسلم في ثلاث ركعات ثم دخل منزله فقام إليه رجل يقال له الخرباق وكان في يديه طول فقال: يا رسول الله فذكر له صنيعه فخرج غضبان يجر رداءه حتى انتهى إلى الناس فقال: «اصدق هذا؟» . قالوا: نعم. فصلى ركعة ثم سلم ثم سجد سجدتين ثم سلم. رواه مسلم عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى ا ْعَصْرَ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَهُ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْخِرْبَاقُ وَكَانَ فِي يَدَيْهِ طُولٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَكَرَ لَهُ صَنِيعه فَخرج غَضْبَانَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى النَّاسِ فَقَالَ: «أَصَدَقَ هَذَا؟» . قَالُوا: نَعَمْ. فَصَلَّى رَكْعَةً ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ. رَوَاهُ مُسلم
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز عصر پڑھائی اور تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا، پھر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے تو خرباق نامی شخص جس کے ہاتھ لمبے تھے، آپ کے گھر کے راستے میں کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا، اللہ کے رسول! پھر اس نے آپ سے تین رکعتوں کے بعد سلام پھیر دینے کے متعلق ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصہ کی حالت میں اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے حتیٰ کہ لوگوں کے پاس آ کر فرمایا: ”کیا یہ صحیح کہہ رہا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رکعت اور پڑھی، پھر سلام پھیرا، پھر دو سجدے کیے اور پھر سلام پھیرا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (101/ 574)»
وعن عبد الرحمن بن عوف قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من صلى صلاة يشك في النقصان فليصل حتى يشك في الزيادة» . رواه احمد وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً يَشُكُّ فِي النُّقْصَانِ فَلْيُصَلِّ حَتَّى يشك فِي الزِّيَادَة» . رَوَاهُ أَحْمد
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص نماز پڑھے اور اسے نماز میں کمی کا شک ہو تو وہ نماز پڑھے حتیٰ کہ اسے زیادتی کا شک ہو جائے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 195 ح 1689) ٭ فيه إسماعيل بن مسلم البصري وھو ضعيف الحديث و للسھو طرق أخري عن عبد الرحمٰن بن عوف عند ابن ماجه (1209) و أحمد (190/1، 193) وغيرھما دون ھذا اللفظ.»
عن ابن عباس قال: سجد النبي صلى الله عليه وسلم بالنجم وسجد معه المسلمون والمشركون والجن والإنس. رواه البخاري عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَهُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۂ نجم کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1071)»