وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اقتلوا الاسودين في الصلاة الحية والعقرب» . رواه احمد وابو داود والترمذي وللنسائي معناه وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةَ وَالْعَقْرَبَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَلِلنَّسَائِيِّ مَعْنَاهُ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو سیاہ چیزوں، سانپ اور بچھو کو قتل کر دو خواہ (تم) نماز میں ہو۔ “ احمد، ابوداؤد ترمذی اور نسائی کی روایت اسی معنی میں ہے۔ صحیح۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (2/ 233 ح 7178) و أبو داود (921) والترمذي (390 وقال: حسن صحيح) و النسائي (3/ 10 ح 1203، 1204) [و ابن ماجه (1245) و صححه ابن حبان (528) وابن خزيمة (869) والحاکم (1/ 256) ووافقه الذهبي.]»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي تطوعا والباب عليه مغلق فجئت فاستفتحت فمشى ففتح لي ثم رجع إلى مصلاه وذكرت ان الباب كان في القبلة. رواه احمد وابو داود والترمذي وروى النسائي نحوه وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي تَطَوُّعًا وَالْبَابُ عَلَيْهِ مُغْلَقٌ فَجِئْتُ فَاسْتَفْتَحْتُ فَمَشَى فَفَتَحَ لِي ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مُصَلَّاهُ وَذَكَرْتُ أَنَّ الْبَابَ كَانَ فِي الْقِبْلَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ وروى النَّسَائِيّ نَحوه
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازہ بند کر کے نفل ادا کر رہے تھے، میں آئی تو میں نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھول کر پھر اپنی جائے نماز پر واپس چلے گئے، اور عائشہ رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ دروازہ قبلہ کی سمت تھا۔ احمد، ابوداؤد، ترمذی، اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (6/ 31 ح 24528) و أبو داود (922) والترمذي (601 وقال: حسن غريب.) والنسائي (3/ 11 ح 1207) ٭ الزھري مدلس ولم أجد تصريح سماعه.»
وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا فسا احدكم في الصلاة فلينصرف فليتوضا وليعد الصلاة» . رواه ابو داود وروى الترمذي مع زيادة ونقصان وَعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا فَسَا أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَنْصَرِفْ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلْيُعِدِ الصَّلَاةَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى التِّرْمِذِيّ مَعَ زِيَادَة ونقصان
طلق بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی دوران نماز ہوا خارج ہو جائے تو وہ جا کر وضو کرے اور آ کر نماز دہرائے۔ “ ابوداؤد، ترمذی نے الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (205) والترمذي (1166، 1164) [و صححه ابن حبان (203، 204، 1301]»
وعن عائشة رضي الله عنها انها قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا احدث ادكم في صلاته فلياخذ بانفه ثم لينصرف» . رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أحدث أدكم فِي صَلَاتِهِ فَلْيَأْخُذْ بِأَنْفِهِ ثُمَّ لِيَنْصَرِفْ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کا دوران نماز وضو ٹوٹ جائے تو وہ اپنی ناک پکڑ کر وہاں سے باہر نکل جائے۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (1114) [و ابن ماجه (1222) و صححه ابن خزيمة (1019) و ابن حبان (205، صحيح، رواه أبو داود (1114) [و ابن ماجه (1222) و صححه ابن خزيمة (1019) و ابن حبان (205، 206) والحاکم علٰي شرط الشيخين (1/ 184، 260) ووافقه الذهبي.]»
وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا احدث ادكم وقد جلس في آخر صلاته قبل ان يسلم فقد جازت صلاته» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث إسناده ليس بالقوي وقد اضطربوا في إسناده وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أحدث أدكم وَقَدْ جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ جَازَتْ صَلَاتُهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَقَدِ اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَاده
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کا وضو ٹوٹ جائے جبکہ وہ سلام پھیرنے سے پہلے، نماز کے آخر میں بیٹھا ہو، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد قوی نہیں، انہوں (یعنی محدثین) نے اس کی اسناد کو مضطرب قرار دیا ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (408) ٭ عبد الرحمٰن بن زياد الإفريقي ضعيف.»
عن ابي هريرة ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج إلى الصلاة فلما كبر انصرف واوما إليهم ان كما كنتم. ثم خرج فاغتسل ثم جاء وراسه يقطر فصلى بهم. فلما صلى قال: «إني كنت جنبا فنسيت ان اغتسل» . رواه احمد عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَمَّا كَبَّرَ انْصَرَفَ وَأَوْمَأَ إِلَيْهِمْ أَنْ كَمَا كُنْتُمْ. ثُمَّ خَرَجَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ جَاءَ وَرَأَسُهُ يَقْطُرُ فَصَلَّى بِهِمْ. فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا فنسيت أَن أَغْتَسِل» . رَوَاهُ أَحْمد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائے، چنانچہ آپ نے جب اللہ اکبر کہا تو پھر واپس چلے گئے اور انہیں اشارہ کیا کہ وہ اسی حالت میں رہیں، پھر آپ گئے، غسل کیا، پھر تشریف لائے تو آپ کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی، جب نماز پڑھ چکے تو فرمایا: ”میں جنبی تھا، اور میں غسل کرنا بھول گیا تھا۔ “ حسن، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أحمد (2/ 448 ح 9785) [و ابن ماجه (1220) و للحديث شواھد.]»
وعن جابر قال: كنت اصلي الظهر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فآخذ قبضة من الحصى لتبرد في كفي ن اضعها لجبهتي اسجد عليها لشدة الحر. رواه ابو داود وروى النسائي نحوه وَعَنْ جَابِرِ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي الظُّهْرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فآخذ قَبْضَة من الْحَصَى لتبرد فِي كفي ن أَضَعُهَا لِجَبْهَتِي أَسْجُدُ عَلَيْهَا لِشِدَّةِ الْحَرِّ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وروى النَّسَائِيّ نَحوه
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کر رہا تھا، میں نے کنکریوں کی مٹھی بھری تاکہ وہ میری مٹھی میں ٹھنڈی ہو جائیں، میں گرمی کی شدت کی وجہ سے ان پر سجدہ کیا کرتا تھا۔ ابوداؤد، اور امام نسائی نے بھی اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (399) و النسائي (2/ 204 ح 1082) [و ابن حبان: 267]»
وعن ابي الدرداء قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعناه يقول: «اعوذ بالله منك» ثم قال: «العنك بلعنة الله» ثلاثا وبسط يده كانه يتناول شيئا فلما فرغ من الصلاة قلنا يا رسول الله قد سمعناك تقول في الصلاة شيئا لم نسمعك تقوله قبل ذلك ورايناك بسطت يدك قال: إن عدو الله إبليس جاء بشهاب من نار ليجعله في وجهي فقلت اعوذ بالله منك ثلاث مرات. ثم قلت: العنك بلعنة الله التامة فلم يستاخر ثلاث مرات ثم اردت اخذه والله لولا دعوة اخينا سليمان لاصبح موثقا يلعب به ولدان اهل المدينة. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ» ثُمَّ قَالَ: «أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللَّهِ» ثَلَاثًا وَبَسَطَ يَدَهُ كَأَنَّهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ سَمِعْنَاكَ تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ شَيْئًا لَمْ نَسْمَعْكَ تَقُولُهُ قَبْلَ ذَلِكَ وَرَأَيْنَاكَ بَسَطْتَ يَدَكَ قَالَ: إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ جَاءَ بِشِهَابٍ مِنْ نَارٍ لِيَجْعَلَهُ فِي وَجْهِي فَقُلْتُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. ثُمَّ قُلْتُ: أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللَّهِ التَّامَّةِ فَلَمْ يَسْتَأْخِرْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَرَدْتُ أَخْذَهُ وَاللَّهِ لَوْلَا دَعْوَةُ أَخِينَا سُلَيْمَانَ لَأَصْبَحَ مُوثَقًا يَلْعَبُ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَة. رَوَاهُ مُسلم
ابودرداء بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھا رہے تھے، تو ہم نے آپ کو تین مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنا: ”میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ “ پھر فرمایا: ”میں تجھے اللہ کی لعنت کے ذریعے لعنت بھیجتا ہوں۔ “ اور آپ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جیسے آپ کوئی چیز پکڑ رہے ہوں، پس جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو نماز میں کچھ کہتے ہوئے سنا جو ہم نے اس سے پہلے آپ کو کہتے ہوئے نہیں سنا اور ہم نے آپ کو ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھی دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ وہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، تو میں نے تین مرتبہ کہا: میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، پھر میں نے کہا: میں اللہ کی لعنت کامل کے ذریعے تجھ پر لعنت بھیجتا ہوں، لیکن وہ تینوں مرتبہ پیچھے نہ ہٹا تو پھر میں نے اسے پکڑنے کا ارادہ کیا، اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح کے وقت یہاں بندھا ہوا ہوتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (40/ 542)»
وعن نافع قال: إن عبد الله بن عمر مر على رجل وهو يصلي فسلم عليه فرد الرجل كلاما فرجع إليه عبد الله بن عمر فقال له: إذا سلم على احدكم وهو يصلي فلا يتكلم وليشر بيده. رواه مالك وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَرَدَّ الرَّجُلُ كَلَامًا فَرَجَعَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَقَالَ لَهُ: إِذَا سُلِّمَ عَلَى أَحَدِكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي فَلَا يَتَكَلَّمْ وَلْيُشِرْ بِيَدِهِ. رَوَاهُ مَالك
نافع بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہا تھا، انہوں نے اسے سلام کیا تو اس نے بول کر جواب دیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس واپس آئے اور اسے بتایا: جب تم میں سے کسی شخص کو حالت نماز میں سلام کیا جائے تو وہ بول کر جواب نہ دے بلکہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (1/ 168 ح 406)»