وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ملائكة سياحين في الارض يبلغوني من امتي السلام» . رواه النسائي والدارمي وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ والدارمي
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ کے کچھ فرشتے زمین پر چلتے رہتے ہیں، وہ میری امت کی طرف سے مجھ پر سلام پہنچاتے ہیں۔ “ صحیح، رواہ النسائی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، ورواه النسائي (3/ 43 ح 1283) والدارمي (2/ 317 ح 2777) [و صححه ابن حبان (2392) والحاکم (2/ 421) ووافقه الذهبي.] ٭ سفيان الثوري صرح بالسماع.»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من احد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى ارد عليه السلام» . رواه ابو داود والبيهقي في الدعوات الكبير وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللَّهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِيرِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہے حتیٰ کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2041) والبيھقي في الدعوات الکبير (1/ 120 ح 158، و السنن 5/ 245) ٭ يزيد بن عبد الله بن قسيط ثبت سماعه من أبي ھريرة عند البيھقي (1/ 122)»
وعنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «لا تجعلوا بيوتكم قبورا ولا تجعلوا قبري عيدا وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم» . رواه النسائي وَعَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتكُمْ تبلغني حَيْثُ كُنْتُم» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ نہ میری قبر کو عید (زیارت گاہ) بنانا، اور مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ تم جہاں بھی ہو تمہارا درود مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه النسائي (لم أجده في الصغري ولا في الکبري) [و أبو داود: 2042]»
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رغم انف رجل ذكرت عنده فلم يصل علي ورغم انف رجل دخل عليه رمض ان ثم انسلخ قبل ان يغفر له ورغم انف رجل ادرك عنده ابواه الكبر او احدهما فلم يدخلاه الجنة» . رواه الترمذي وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَض انُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكبر أَو أَحدهمَا فَلم يدْخلَاهُ الْجنَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس رمضان آ کر چلا گیا لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے، اور اس شخص کی ناک بھی خاک آلود ہو جس کی زندگی میں اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے لیکن (ان کی خدمت) پھر بھی اسے جنت میں داخل نہ کروا سکے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3545 وقال: حسن غريب.) [و صححه ابن حبان (الإحسان: 905) و له شواھد عند مسلم (2551) و ابن حبان (الموارد: 2387، 2028) و ابن خزيمة (1888) والحاکم (4/ 153) وغيرهم.]»
وعن ابي طلحة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ذات يوم والبشر في وجهه فقال: إنه جاءني جبريل فقال: إن ربك يقول اما يرضيك يا محمد ان لا يصلي عليك احد من امتك إلا صليت عليه عشرا ولا يسلم عليك احد من امتك إلا سلمت عليه عشرا؟. رواه النسائي والدارمي وَعَن أبي طَلْحَة أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ فَقَالَ: إِنَّهُ جَاءَنِي جِبْرِيلُ فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ أَمَا يُرْضِيكَ يَا مُحَمَّدُ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے خوش تشریف لائے تو فرمایا: ”جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے تو انہوں نے فرمایا: آپ کا رب فرماتا ہے: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! کیا یہ بات آپ کے لیے باعث مسرت نہیں کہ جب آپ کی امت میں سے کوئی شخص ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے تو میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں اور آپ کی امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ آپ پر سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجوں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ النسائی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه النسائي (3/ 50 ح 1296) والدارمي (2/ 317 ح 2776) [و صححه ابن حبان (2391) والحاکم (420/2) ووافقه الذهبي.] ٭ سليمان مولي الحسن: حسن الحديث وللحديث شواھد.»
وعن ابي بن كعب قال: قلت: يا رسول الله إني اكثر الصلاة عليك فكم اجعل لك من صلاتي؟ فقال: «ما شئت» قلت: الربع؟ قال: «ما شئت فإن زدت فهو خير لك» . قلت: النصف؟ قال: «ما شئت فإن زدت فهو خير لك» قلت: فالثلثين؟ قال: «ما شئت فإن زدت فهو خير لك» قلت: اجعل لك صلاتي كلها؟ قال: «إذا يكفى همك ويكفر لك ذنبك» . رواه الترمذي وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي؟ فَقَالَ: «مَا شِئْتَ» قُلْتُ: الرُّبُعَ؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» . قُلْتُ: النِّصْفَ؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: «مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ» قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا؟ قَالَ: «إِذا يكفى همك وَيكفر لَك ذَنْبك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں آپ پر بہت زیادہ درود بھیجتا ہوں، میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود و سلام کے لیے وقف کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو۔ “ میں نے عرض کیا: چوتھائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو، اگر تم زیادہ کر لو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ میں نے عرض کیا، نصف، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو، اگر تم زیادہ کر لو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ میں نے عرض کیا: دو تہائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جتنا تم چاہو، اگر زیادہ کر لو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ میں نے عرض کیا: میں اپنی پوری دعا آپ (پر درود و سلام) کے لیے وقف کر دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو تمہاری ساری مرادیں پوری ہو جائیں گی اور تمہارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2457 وقال: حسن.) ٭ عبد الله بن محمد بن عقيل ضعيف و سفيان الثوري مدلس و عنعن.»
وعن فضالة بن عبيد قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد إذ دخل رجل فصلى فقال: اللهم اغفر لي وارحمني فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عجلت ايها المصلي إذا صليت فقعدت فاحمد الله بما هو اهله وصل علي ثم ادعه» . قال: ثم صلى رجل آخر بعد ذلك فحمد الله وصلى على النبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ايها المصلي ادع تجب» . رواه الترمذي وروى ابو داود والنسائي نحوه وَعَن فضَالة بن عُبَيْدٍ قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَجِلْتَ أَيُّهَا الْمُصَلِّي إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَصَلِّ عَلَيَّ ثُمَّ ادْعُهُ» . قَالَ: ثُمَّ صَلَّى رَجُلٌ آخَرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّهَا الْمُصَلِّي ادْعُ تُجَبْ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ نَحوه
فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے تو ایک آدمی آیا، اس نے نماز پڑھی اور دعا کی: اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”نمازی شخص! تم نے جلد بازی کی، جب تم نماز پڑھ کر (تشہد کے لیے) بیٹھو تو اللہ کی، اس کی شان کے لائق، حمد بیان کرو، مجھ پر درود بھیجو، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، پھر اس کے بعد ایک اور آدمی نے نماز پڑھی تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی، نبی پر درود بھیجا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”نمازی شخص! دعا کرو، تمہاری دعا قبول ہو گی۔ “ ترمذی۔ ابوداؤد اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (3476 وقال: حديث حسن.) و أبو داود (1481) والنسائي (3/ 44 ح 1285)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: كنت اصلي والنبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر وعمر معه فلما جلست بدات بالثناء على الله تعالى ثم الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم ثم دعوت لنفسي فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «سل تعطه سل تعطه» . رواه الترمذي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ مَعَهُ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى ثُمَّ الصَّلَاةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَلْ تعطه سل تعطه» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نماز پڑھ رہا تھا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، جب میں بیٹھا تو میں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا، پھر اپنے لیے دعا کی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو! دیا جائے گا، مانگو! دیا جائے گا۔ “ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (593 وقال: حسن صحيح.) ٭ و للحديث شواھد.»
وعن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من سره ان يكتال بالمكيال الاوفى إذا صلى علينا اهل البيت فليقل اللهم صل على محمد وازواجه امهات المؤمنين وذريته واهل بيته كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الْأَوْفَى إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ صَلِّ على مُحَمَّد وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حُمَيْدٌ مَجِيدٌ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو پسند ہو کہ اسے پورا پورا اجر و ثواب دیا جائے تو پھر جب وہ ہم اہل بیت پر درود پڑھے تو وہ یوں کہے: اے اللہ! محمد، نبی اُمی پر، آپ کی ازواج مطہرات، مؤمنوں کی ماؤں پر، آپ کی اولاد اور آپ کے اہل خانہ پر رحمتیں نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائیں، بے شک تو تعریف والا، بزرگی والا ہے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (982) ٭ حبان بن يسار ضعفه أبو حاتم وغيره و اختلط بآخره کما قال الصلت بن محمد وغيره و في السند علة أخري عند العقيلي في الضعفاء (1/ 318)»
وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «البخيل الذي ذكرت عنده فلم يصل علي» . رواه الترمذي ورواه احمد عن الحسين بن علي رضي الله عنهما. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح غريب وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْبَخِيلُ الَّذِي ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَرَوَاهُ أَحْمَدُ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ بخیل ہے۔ “ ترمذی، امام احمد نے حسین بن علی کی سند سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اسنادہ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3546 وقال: حسن غريب صحيح.) و أحمد (1/ 201 ح 1736) [و صححه ابن حبان (2388) والحاکم (1/ 549) ووافقه الذهبي.]»