عن جابر قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الشيطان إذا سمع النداء بالصلاة ذهب حتى يكون مكان الروحاء» . رواه مسلم عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» . رَوَاهُ مُسلم
جابر بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب شیطان نماز کے لیے اذان سنتا ہے تو وہ مقام روحاء تک بھاگ جاتا ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، روحاء مدینہ سے چھتیس میل کی مسافت پر ہے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (15/ 388)»
وعن علقمة بن وقاص قال: (إني لعند معاوية إذ اذن مؤذنه فقال معاوية كما قال مؤذنه حتى إذا قال: حي على الصلاة: قال: لا حول ولا قوة إلا بالله فلما قال: حي على الفلاح قال: لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم وقال بعد ذلك ما قال المؤذن ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذلك. رواه احمد وَعَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: (إِنِّي لَعِنْدَ مُعَاوِيَةَ إِذْ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ كَمَا قَالَ مُؤَذِّنُهُ حَتَّى إِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ: قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ فَلَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ وَقَالَ بَعْدَ ذَلِكَ مَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ ذَلِك. رَوَاهُ أَحْمد
علقمہ بن وقاص ؒ بیان کرتے ہیں، میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، جب ان کے مؤذن نے اذان کہی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے مؤذن کے کلمات کہے حتیٰ کہ جب اس نے کہا: اؤ نماز کی طرف، تو انہوں نے کہا: ((لا حول ولا قوۃ الا باللہ))”گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا محض اللہ کی توفیق سے ممکن ہے۔ “ پس جب اس نے کہا: ((حی علی الفلاح)) تو انہوں نے کہا: ((لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم)) اور اس کے بعد جیسے مؤذن نے کہا، ویسے ہی انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی فرمایا۔ صحیح، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (91/4، 92 ح 16956) [والنسائي (2/ 25 ح 678) وللحديث شواھد.] ٭ وليس عند ھم ’’العلي العظيم‘‘ و ھي زيادة منکرة في ھذه الرواية.»
وعن ابي هريرة قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام بلال ينادي فلما سكت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قال مثل هذا يقينا دخل الجنة» . رواه النسائي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ بِلَالٌ يُنَادِي فَلَمَّا سَكَتَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ مِثْلَ هَذَا يَقِينا دخل الْجنَّة» . رَوَاهُ النَّسَائِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اذان دینے لگے، چنانچہ جب وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خلوص دل سے یہ کلمات کہے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه النسائي (24/2 ح 675) [و صححه ابن حبان (293) والحاکم (204/1) ووافقه الذهبي] ٭ سقط من المستدرک ’’النضر بن سفيان‘‘ و أثبته الحافظ ابن حجر في اتحاف المھرة (15/ 634 ح 20041) والنضر وثقه الذھبي (الکاشف 179/3) وغيره.»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سمع المؤذن يتشهد قال: «وانا وانا» . رواه ابو داود وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ يَتَشَهَّدُ قَالَ: «وَأَنَا وَأَنَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤذن کو اللہ کے معبود ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دیتے ہوئے سنتے تو فرماتے: ”اور میں بھی، اور میں بھی (گواہی دیتا ہوں)۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (526) [و صححه ابن حبان (الإحسان: 1681) والحاکم (1/ 204)]»
وعن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اذن ثنتي عشرة سنة وجبت له الجنة وكتب له بتاذينه في كل يوم ستون حسنة ولكل إقامة ثلاثون حسنة» . رواه ابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَذَّنَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَكُتِبَ لَهُ بِتَأْذِينِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ سِتُّونَ حَسَنَةً وَلِكُلِّ إِقَامَة ثَلَاثُونَ حَسَنَة» . رَوَاهُ ابْن مَاجَه
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بارہ سال اذان دے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے، اور اس کی اذان کی وجہ سے اس کے حق میں یومیہ ساٹھ نیکیاں اور ہر اقامت کے بدلے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (728) [و صححه الحاکم (205/1) ووافقه الذھبي وسنده ضعيف.] ٭ ابن جريج مدلس و عنعن.»
وعنه قال: كنا نؤمر بالدعاء عند اذان المغرب. رواه البيهقي وَعَنْهُ قَالَ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِالدُّعَاءِ عِنْدَ أَذَانِ الْمغرب. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اذان مغرب کے وقت ہمیں دعا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في الدعوات الکبير (98/2ح 335) ٭ فيه عبد الرحمٰن بن إسحاق الواسطي ضعيف جدًا ضعفه الجمھور، و أبو معاوية مدلس و عنعن.»
وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم» ثم قال: وكان رجلا اعمى لا ينادي حتى يقال له: اصبحت اصبحت وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن بِلَالًا يُؤذن بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُوم» ثمَّ قَالَ: وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى لَا يُنَادِي حَتَّى يُقَالَ لَهُ: أَصبَحت أَصبَحت
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلال (طلوع فجر سے پہلے) رات کے وقت اذان دیتے ہیں، پس جب تک ام مکتوم اذان نہ دیں تم (سحری) کھاتے رہو۔ “ روای بیان کرتے ہیں، ابن مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا شخص تھے، اور جب تک انہیں یہ نہ کہا جاتا کہ صبح ہو گئی، وہ اذان نہیں دیتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (617) و مسلم (36. 38 / 1092)»
وعن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يمنعنكم من سحوركم اذان بلال ولا الفجر المستطيل ولكن الفجر المستطير في الافق» رواه مسلم ولفظه للترمذي وَعَن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيلُ وَلَكِنِ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الْأُفق» رَوَاهُ مُسلم وَلَفظه لِلتِّرْمِذِي
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اذان بلال اور فجر کاذب تمہیں سحری کھانے پینے سے نہ روکے، لیکن افق میں پھیل جانے والی صبح (صبح صادق ہونے پر کھانے پینے سے رک جاؤ)۔ “ مسلم، اور یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ رواہ مسلم و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (43/ 1094) والترمذي (706)»
وعن مالك بن الحويرث قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم انا وابن عم لي فقال: «إذا سافرتما فاذنا واقيما وليؤمكما اكبركما» . رواه البخاري وَعَن مَالك بن الْحُوَيْرِث قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي فَقَالَ: «إِذَا سَافَرْتُمَا فأذنا وأقيما وليؤمكما أكبركما» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اور میرا چچا زاد، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سفر کرو تو تم اذان دو (ایک اذان دے دوسرا جواب دے) اور اقامت کہو اور تم سے جو بڑا ہے وہ تمہاری امامت کرائے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (628) [و مسلم 674/293]»
وعنه قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلوا كما رايتموني اصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم وليؤمكم اكبركم» وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذا حضرت الصَّلَاة فليؤذن لكم أحدكُم وليؤمكم أكبركم»
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ”تم ویسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے، پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (631) و مسلم (674/292 مختصرًا دون قوله: ’’صلّوا کما رأيتموني أصلّي.‘‘)»