وقد باع النبي صلى الله عليه وسلم مدبرا من نعيم بن النحاموَقَدْ بَاعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدَبَّرًا مِنْ نُعَيْمِ بْنِ النَّحَّامِ
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مدبر غلام نعیم بن نحام کے ہاتھ بیچ ڈالا۔
(مرفوع) حدثنا ابن نمير، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا إسماعيل، حدثنا سلمة بن كهيل، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال:" بلغ النبي صلى الله عليه وسلم ان رجلا من اصحابه اعتق غلاما له عن دبر لم يكن له مال غيره، فباعه بثمان مائة درهم، ثم ارسل بثمنه إليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَعْتَقَ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُ، فَبَاعَهُ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِثَمَنِهِ إِلَيْهِ".
ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپ کے صحابہ میں سے ایک نے اپنے غلام کو مدبر بنا دیا ہے (کہ ان کی موت کے بعد وہ آزاد ہو جائے گا) چونکہ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو آٹھ سو درہم میں بیچ دیا اور اس کی قیمت انہیں بھیج دی۔
Narrated Jabir: The Prophet came to know that one of his companions had given the promise of freeing his slave after his death, but as he had no other property than that slave, the Prophet sold that slave for 800 dirhams and sent the price to him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 296
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، يقول:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثا، وامر عليهم اسامة بن زيد، فطعن في إمارته، وقال: إن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة ابيه من قبله، وايم الله إن كان لخليقا للإمرة، وإن كان لمن احب الناس إلي، وإن هذا لمن احب الناس إلي بعده".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطُعِنَ فِي إِمَارَتِهِ، وَقَالَ: إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمْرَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَه".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنایا لیکن ان کی سرداری پر طعن کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر آج تم ان کی امارت کو مطعون قرار دیتے ہو تو تم نے اس سے پہلے اس کے والد (زید رضی اللہ عنہ) کی امارت کو بھی مطعون قرار دیا تھا اور اللہ کی قسم! وہ امارت کے لیے سزاوار تھے اور وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عزیز تھے اور یہ (اسامہ رضی اللہ عنہ) ان کے بعد سب سے زیادہ مجھے عزیز ہے۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle sent an army unit headed by Usama bin Zaid and the people criticized his leadership. The Prophet said (to the people), "If you are criticizing his leadership now, then you used to criticize his father's leadership before. By Allah, he (Usama's father) deserved the leadership and used to be one of the most beloved persons to me, and now his son (Usama) is one of the most beloved persons to me after him. " (See Hadith No. 745, Vol. 5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 297
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن ابن جريج، سمعت ابن ابي مليكة، يحدث، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابغض الرجال إلى الله الالد الخصم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض وہ شخص ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔“
35. باب: جب حاکم کا فیصلہ ظالمانہ ہو یا علماء کے خلاف ہو تو وہ رد کر دیا جائے گا۔
(35) Chapter. If a judge passes an unjust judgement or a judgement which differs from that of the learned religious men, such a judgement is to be rejected.
(مرفوع) حدثنا محمود، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالدا. ح، وحدثني ابو عبد الله نعيم بن حماد، حدثنا عبد الله، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال:" بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالد بن الوليد إلى بني جذيمة، فلم يحسنوا ان يقولوا اسلمنا، فقالوا: صبانا صبانا، فجعل خالد يقتل وياسر، ودفع إلى كل رجل منا اسيره، فامر كل رجل منا ان يقتل اسيره، فقلت: والله لا اقتل اسيري ولا يقتل رجل من اصحابي اسيره، فذكرنا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اللهم إني ابرا إليك مما صنع خالد بن الوليد مرتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدًا. ح، وحَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ، فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا أَسْلَمْنَا، فَقَالُوا: صَبَأْنَا صَبَأْنَا، فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ وَيَأْسِرُ، وَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ، فَأَمَرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَسِيرَهُ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي وَلَا يَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ مَرَّتَيْنِ".
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کہا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے انہیں سالم نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا (جب انہیں اسلام کی دعوت دی) تو وہ «أسلمنا.»(ہم اسلام لائے) کہہ کر اچھی طرح اظہار اسلام نہ کر سکے بلکہ کہنے لگے کہ «صبأنا صبأنا»(ہم اپنے دین سے پھر گئے، ہم اپنے دین سے پھر گئے) اس پر خالد رضی اللہ عنہ انہیں قتل اور قید کرنے لگے اور ہم میں سے ہر شخص کو اس کے حصہ کا قیدی دیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ اس پر میں نے کہا کہ واللہ! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ پھر ہم نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں اس سے برات ظاہر کرتا ہوں جو خالد بن ولید نے کیا، دو مرتبہ۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet sent (an army unit under the command of) Khalid bin Al-Walid to fight against the tribe of Bani Jadhima and those people could not express themselves by saying, "Aslamna," but they said, "Saba'na! Saba'na! " Khalid kept on killing some of them and taking some others as captives, and he gave a captive to everyone of us and ordered everyone of us to kill his captive. I said, "By Allah, I shall not kill my captive and none of my companions shall kill his captive!" Then we mentioned that to the Prophet and he said, "O Allah! I am free from what Khalid bin Al-Walid has done," and repeated it twice.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 299
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد، حدثنا ابو حازم المدني، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: كان قتال بين بني عمرو، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم،" فصلى الظهر، ثم اتاهم يصلح بينهم، فلما حضرت صلاة العصر، فاذن بلال واقام، وامر ابا بكر فتقدم، وجاء النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر في الصلاة، فشق الناس حتى قام خلف ابي بكر فتقدم في الصف الذي يليه، قال: وصفح القوم، وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت حتى يفرغ، فلما راى التصفيح لا يمسك عليه، التفت، فراى النبي صلى الله عليه وسلم خلفه، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم بيده ان امضه، واوما بيده هكذا، ولبث ابو بكر هنية يحمد الله على قول النبي صلى الله عليه وسلم، ثم مشى القهقرى، فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم ذلك تقدم فصلى النبي صلى الله عليه وسلم بالناس، فلما قضى صلاته، قال: يا ابا بكر ما منعك إذ اومات إليك ان لا تكون مضيت؟، قال: لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم النبي صلى الله عليه وسلم، وقال للقوم: إذا رابكم امر فليسبح الرجال وليصفح النساء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرٍو، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَتَاهُمْ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، فَأَذَّنَ بِلَالٌ وَأَقَامَ، وَأَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ، وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَشَقَّ النَّاسَ حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ فِي الصَّفِّ الَّذِي يَلِيهِ، قَالَ: وَصَفَّحَ الْقَوْمُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ حَتَّى يَفْرُغَ، فَلَمَّا رَأَى التَّصْفِيحَ لَا يُمْسَكُ عَلَيْهِ، الْتَفَتَ، فَرَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ أَنِ امْضِهْ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَلَبِثَ أَبُو بَكْرٍ هُنَيَّةً يَحْمَدُ اللَّهَ عَلَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ مَشَى الْقَهْقَرَى، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ تَقَدَّمَ فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ لَا تَكُونَ مَضَيْتَ؟، قَالَ: لَمْ يَكُنْ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لِلْقَوْمِ: إِذَا رَابَكُمْ أَمْرٌ فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ وَلْيُصَفِّحِ النِّسَاءُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے ابوحازم المدینی نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں باہم لڑائی ہو گئی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھی اور ان کے یہاں صلح کرانے کے لیے تشریف لائے۔ جب عصر کی نماز کا وقت ہوا (مدینہ میں) تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی۔ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ وہ آگے بڑھے، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز ہی میں تھے ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی صف کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور اس صف میں آ گئے جو ان سے قریب تھی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو بتانے کے لیے ہاتھ مارے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو ختم کرنے سے پہلے کسی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ مارنا رکتا ہی نہیں تو آپ متوجہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیچھے دیکھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ نماز پوری کریں اور آپ نے اس طرح ہاتھ سے اپنی جگہ ٹھہرے رہنے کا اشارہ کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھوڑی دیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اللہ کی حمد کرنے کے لیے ٹھہرے رہے، پھر آپ الٹے پاؤں پیچھے آ گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ آگے بڑھے اور لوگوں کو آپ نے نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے فرمایا، ابوبکر! جب میں نے ارشاد کر دیا تھا تو آپ کو نماز پوری پڑھانے میں کیا چیز مانع تھی؟ انہوں نے عرض کیا، ابن ابی قحافہ کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (نماز میں) جب کوئی معاملہ پیش آئے تو مردوں کو سبحان اللہ کہنا چاہئیے اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارنا چاہئے۔
Narrated Sahl bin Sa`d As-Saidi: There was some quarrel (sighting) among Bani `Amr, and when this news reached the Prophet, he offered the Zuhr prayer and went to establish peace among them. In the meantime the time of `Asr prayer was due, Bilal pronounced the Adhan and then the Iqama for the prayer and requested Abu Bakr (to lead the prayer) and Abu Bakr went forward. The Prophet arrived while Abu Bakr was still praying. He entered the rows of praying people till he stood behind Abu Bakr in the (first) row. The people started clapping, and it was the habit of Abu Bakr that whenever he stood for prayer, he never glanced side-ways till he had finished it, but when Abu Bakr observed that the clapping was not coming to an end, he looked and saw the Prophet standing behind him. The Prophet beckoned him to carry on by waving his hand. Abu Bakr stood there for a while, thanking Allah for the saying of the Prophet and then he retreated, taking his steps backwards. When the Prophet saw that, he went ahead and led the people in prayer. When he finished the prayer, he said, "O Abu Bakr! What prevented you from carrying on with the prayer after I beckoned you to do so?" Abu Bakr replied, "It does not befit the son of Abi Quhafa to lead the Prophet in prayer." Then the Prophet said to the people, "If some problem arises during prayers, then the men should say, Subhan Allah!; and the women should clap." (See Hadith No. 652, Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 300
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد الله ابو ثابت، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن عبيد بن السباق، عن زيد بن ثابت، قال:" بعث إلي ابو بكر لمقتل اهل اليمامة وعنده عمر، فقال ابو بكر: إن عمر اتاني، فقال: إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن، وإني اخشى ان يستحر القتل بقراء القرآن في المواطن كلها فيذهب قرآن كثير، وإني ارى ان تامر بجمع القرآن، قلت: كيف افعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال عمر: هو والله خير، فلم يزل عمر يراجعني في ذلك حتى شرح الله صدري للذي شرح له صدر عمر، ورايت في ذلك الذي راى عمر، قال زيد، قال ابو بكر: وإنك رجل شاب عاقل، لا نتهمك، قد كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن، فاجمعه، قال زيد: فوالله لو كلفني نقل جبل من الجبال ما كان باثقل علي مما كلفني من جمع القرآن، قلت: كيف تفعلان شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال ابو بكر: هو والله خير فلم يزل يحث مراجعتي حتى شرح الله صدري للذي شرح الله له صدر ابي بكر وعمر، ورايت في ذلك الذي رايا فتتبعت القرآن اجمعه من العسب، والرقاع، واللخاف، وصدور الرجال، فوجدت في آخر سورة التوبة: لقد جاءكم رسول من انفسكم سورة التوبة آية 128إلى آخرها مع خزيمة، او ابي خزيمة، فالحقتها في سورتها، وكانت الصحف عند ابي بكر حياته حتى توفاه الله عز وجل، ثم عند عمر حياته حتى توفاه الله، ثم عند حفصة بنت عمر"، قال محمد بن عبيد الله: اللخاف يعني: الخزف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبوُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ:" بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ لِمَقْتَلِ أَهْلِ الْيَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدٌ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، لَا نَتَّهِمُكَ، قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، فَاجْمَعْهُ، قَالَ زَيْدٌ: فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا كَلَّفَنِي مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يَحُثُّ مُرَاجَعَتِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وعُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَيَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ، وَالرِّقَاعِ، وَاللِّخَافِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، فَوَجَدْتُ فِي آخِرِ سُورَةِ التَّوْبَةِ: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ سورة التوبة آية 128إِلَى آخِرِهَا مَعَ خُزَيْمَةَ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ، فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا، وَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ: اللِّخَافُ يَعْنِي: الْخَزَفَ.
ہم سے محمد بن عبداللہ ابوثابت نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبید بن سابق نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ جنگ یمامہ میں بکثرت (قاری صحابہ کی) شہادت کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا۔ ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ دوسری جنگوں میں بھی اسی طرح وہ شہید کئے جائیں گے اور قرآن اکثر ضائع ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن مجید کو (کتابی صورت میں) جمع کرنے کا حکم دیں۔ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں کوئی ایسا کام کیسے کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ! یہ تو کار خیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں برابر مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اس معاملے میں میرا بھی سینہ کھول دیا جس طرح عمر رضی اللہ عنہ کا تھا اور میں بھی وہی مناسب سمجھنے لگا جسے عمر رضی اللہ عنہ مناسب سمجھتے تھے۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جوان ہو، عقلمند ہو اور ہم تمہیں کسی بارے میں متہم بھی نہیں سمجھتے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی بھی لکھتے تھے، پس تم اس قرآن مجید (کی آیات) کو تلاش کرو اور ایک جگہ جمع کر دو۔ زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ واللہ! اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے کسی پہاڑ کو اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے کا مکلف کرتے تو اس کا بوجھ بھی میں اتنا نہ محسوس کرتا جتنا کہ مجھے قرآن مجید کو جمع کرنے کے حکم سے محسوس ہوا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ کس طرح ایسا کام کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ ابوبکر نے کہا کہ واللہ! یہ خیر ہے۔ چنانچہ مجھے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا جس کے لیے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے وہ لوگ مناسب خیال کر رہے تھے۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کی تلاش شروع کی۔ اسے میں کھجور کی چھال، چمڑے وغیرہ کے ٹکڑوں، پتلے پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا۔ میں نے سورۃ التوبہ کی آخری آیت «لقد جاءكم رسول من أنفسكم» آخر تک خزیمہ یا ابوخزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس پائی اور اس کو سورت میں شامل کر لیا۔ (قرآن مجید کے یہ مرتب) صحیفے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے جب تک وہ زندہ ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی پھر وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آخر وقت تک ان کے پاس رہے۔ جب آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے وفات دی تو وہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہے۔ محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ «اللخاف» کے لفظ سے ٹھیکری مراد ہے جسے «خزف.» کہتے ہیں۔
Narrated Zaid bin Thabit: Abu Bakr sent for me owing to the large number of casualties in the battle of Al-Yamama, while `Umar was sitting with him. Abu Bakr said (to me), `Umar has come to my and said, 'A great number of Qaris of the Holy Qur'an were killed on the day of the battle of Al-Yamama, and I am afraid that the casualties among the Qaris of the Qur'an may increase on other battle-fields whereby a large part of the Qur'an may be lost. Therefore I consider it advisable that you (Abu Bakr) should have the Qur'an collected.' I said, 'How dare I do something which Allah's Apostle did not do?' `Umar said, By Allah, it is something beneficial.' `Umar kept on pressing me for that till Allah opened my chest for that for which He had opened the chest of `Umar and I had in that matter, the same opinion as `Umar had." Abu Bakr then said to me (Zaid), "You are a wise young man and we do not have any suspicion about you, and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Apostle. So you should search for the fragmentary scripts of the Qur'an and collect it (in one Book)." Zaid further said: By Allah, if Abu Bakr had ordered me to shift a mountain among the mountains from one place to another it would not have been heavier for me than this ordering me to collect the Qur'an. Then I said (to `Umar and Abu Bakr), "How can you do something which Allah's Apostle did not do?" Abu Bakr said, "By Allah, it is something beneficial." Zaid added: So he (Abu Bakr) kept on pressing me for that until Allah opened my chest for that for which He had opened the chests of Abu Bakr and `Umar, and I had in that matter, the same opinion as theirs. So I started compiling the Qur'an by collecting it from the leafless stalks of the date-palm tree and from the pieces of leather and hides and from the stones, and from the chests of men (who had memorized the Qur'an). I found the last verses of Sirat-at-Tauba: ("Verily there has come unto you an Apostle (Muhammad) from amongst yourselves--' (9.128-129) ) from Khuza`ima or Abi Khuza`ima and I added to it the rest of the Sura. The manuscripts of the Qur'an remained with Abu Bakr till Allah took him unto Him. Then it remained with `Umar till Allah took him unto Him, and then with Hafsa bint `Umar.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 301
38. باب: امام کا اپنے نائبوں کو اور قاضی کا اپنے عملہ کو لکھنا۔
(38) Chapter. The writing of a letter by the ruler to his representatives (in the provinces), and by judge to his workers who look after the problems of the people.
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي ليلى. ح حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن ابي ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سهل، عن سهل بن ابي حثمة، انه اخبره هو ورجال من كبراء قومه،" ان عبد الله بن سهل، ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد اصابهم، فاخبر محيصة ان عبد الله قتل وطرح في فقير او عين، فاتى يهود، فقال: انتم والله قتلتموه، قالوا: ما قتلناه والله، ثم اقبل حتى قدم على قومه فذكر لهم، واقبل هو واخوه حويصة، وهو اكبر منه وعبد الرحمن بن سهل، فذهب ليتكلم وهو الذي كان بخيبر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لمحيصة: كبر كبر، يريد السن، فتكلم حويصة، ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إما ان يدوا صاحبكم، وإما ان يؤذنوا بحرب، فكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم به، فكتب ما قتلناه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة، ومحيصة، وعبد الرحمن: اتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟، قالوا: لا، قال: افتحلف لكم يهود؟، قالوا: ليسوا بمسلمين، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده مائة ناقة حتى ادخلت الدار"، قال سهل: فركضتني منها ناقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى. ح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ هُوَ وَرِجَالٌ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ،" أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأُخْبِرَ مُحَيِّصَةُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ، فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَاللَّهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَذَكَرَ لَهُمْ، وَأَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ: كَبِّرْ كَبِّرْ، يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ، فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ بِهِ، فَكُتِبَ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: أَفَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ؟، قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتِ الدَّارَ"، قَالَ سَهْلٌ: فَرَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن ابی لیلیٰ نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابولیلیٰ بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن سہل نے، ان سے سہل بن ابی حثمہ نے، انہیں سہل اور ان کی قوم کے بعض دوسرے ذمہ داروں نے خبر دی کہ عبداللہ، سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہم خیبر کی طرف (کھجور لینے کے لیے) گئے۔ کیونکہ تنگ دستی میں مبتلا تھے۔ پھر محیصہ کو بتایا گیا کہ عبداللہ کو کسی نے قتل کر کے گڑھے یا کنویں میں ڈال دیا ہے۔ پھر وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا کہ واللہ! تم نے ہی قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: واللہ! ہم نے انہیں نہیں قتل کیا۔ پھر وہ واپس آئے اور اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ اور ان کے بھائی حویصہ جو ان سے بڑے تھے اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آئے، پھر محیصہ رضی اللہ عنہ نے بات کرنی چاہی کیونکہ آپ ہی خیبر میں موجود تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ بڑے کو آگے کرو، بڑے کو آپ کی مراد عمر کی بڑائی تھی۔ چنانچہ حویصہ نے بات کی، پھر محیصہ نے بھی بات کی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس مقدمہ میں لکھا۔ انہوں نے جواب میں یہ لکھا کہ ہم نے انہیں نہیں قتل کیا ہے۔ پھر آپ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ لوگ قسم کھا کر اپنے شہید ساتھی کے خون کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا کہ نہیں (کیونکہ جرم کرتے دیکھا نہیں تھا) پھر آپ نے فرمایا، کیا آپ لوگوں کے بجائے یہودی قسم کھائیں (کہ انہوں نے قتل نہیں کیا ہے)؟ انہوں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور وہ جھوٹی قسم کھا سکتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے سو اونٹوں کی دیت ادا کی اور وہ اونٹ گھر میں لائے گئے۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری۔
Narrated Abu Laila bin `Abdullah bin `Abdur-Rahman bin Sahl: Sahl bin Abi Hathma and some great men of his tribe said, `Abdullah bin 'Sahl and Muhaiyisa went out to Khaibar as they were struck with poverty and difficult living conditions. Then Muhaiyisa was informed that `Abdullah had been killed and thrown in a pit or a spring. Muhaiyisa went to the Jews and said, "By Allah, you have killed my companion." The Jews said, "By Allah, we have not killed him." Muhaiyisa then came back to his people and told them the story. He, his elder brother Huwaiyisa and `Abdur-Rahman bin Sahl came (to the Prophet) and he who had been at Khaibar, proceeded to speak, but the Prophet said to Muhaiyisa, "The eldest! The eldest!" meaning, "Let the eldest of you speak." So Huwaiyisa spoke first and then Muhaiyisa. Allah's Apostle said, "The Jews should either pay the blood money of your (deceased) companion or be ready for war." After that Allah's Apostle wrote a letter to the Jews in that respect, and they wrote that they had not killed him. Then Allah's Apostle said to Huwaiyisa, Muhaiyisa and `Abdur-Rahman, "Can you take an oath by which you will be entitled to take the blood money?" They said, "No." He said (to them), "Shall we ask the Jews to take an oath before you?" They replied, "But the Jews are not Muslims." So Allah's Apostle gave them one-hundred she-camels as blood money from himself. Sahl added: When those she-camels were made to enter the house, one of them kicked me with its leg.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 302
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا ابن ابي ذئب، حدثنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابي هريرة، وزيد بن خالد الجهني، قالا:" جاء اعرابي، فقال: يا رسول الله، اقض بيننا بكتاب الله، فقام خصمه، فقال: صدق، فاقض بيننا بكتاب الله، فقال الاعرابي: إن ابني كان عسيفا على هذا، فزنى بامراته، فقالوا لي: على ابنك الرجم، ففديت ابني منه بمائة من الغنم ووليدة، ثم سالت اهل العلم، فقالوا: إنما على ابنك جلد مائة وتغريب عام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لاقضين بينكما بكتاب الله، اما الوليدة والغنم فرد عليك وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، واما انت يا انيس لرجل فاغد على امراة هذا، فارجمها"، فغدا عليها انيس، فرجمها.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَا:" جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَقَالُوا لِي: عَلَى ابْنِكَ الرَّجْمُ، فَفَدَيْتُ ابْنِي مِنْهُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَقَالُوا: إِنَّمَا عَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ لِرَجُلٍ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَارْجُمْهَا"، فَغَدَا عَلَيْهَا أُنَيْسٌ، فَرَجَمَهَا.
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے۔ پھر دوسرے فریق کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی کہا کہ یہ صحیح کہتے ہیں، ہمارا فیصلہ کتاب اللہ سے کر دیجئیے۔ پھر دیہاتی نے کہا میرا لڑکا اس شخص کے یہاں مزدور تھا، پھر اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے لڑکے کا حکم اسے رجم کرنا ہے لیکن میں نے اپنے لڑکے کی طرف سے سو بکریوں اور ایک باندی کا فدیہ دے دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس ملیں گی اور تیرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے جلا وطن ہونا ہے اور انیس (جو ایک صحابی تھے) سے فرمایا کہ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ اور اسے رجم کرو۔ چنانچہ انیس رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اسے رجم کیا۔
Narrated Abu Huraira and Zaid bin Khalid Al-Juhani: A bedouin came and said, "O Allah's Apostle! Judge between us according to Allah's Book (Laws)." His opponent stood up and said, "He has said the truth, so judge between us according to Allah's Laws." The bedouin said, "My son was a laborer for this man and committed illegal sexual intercourse with his wife. The people said to me, 'Your son is to be stoned to death,' so I ransomed my son for one hundred sheep and a slave girl. Then I asked the religious learned men and they said to me, 'Your son has to receive one hundred lashes plus one year of exile.' " The Prophet said, "I shall judge between you according to Allah's Book (Laws)! As for the slave girl and the sheep, it shall be returned to you, and your son shall receive one-hundred lashes and be exiled for one year. O you, Unais!" The Prophet addressed some man, "Go in the morning to the wife of this man and stone her to death." So Unais went to her the next morning and stoned her to death.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 303