عن سليمان بن مهران الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقامي فيكم، فقال: " والذي لا إله غيره، لا يحل دم رجل يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله إلا احد ثلاثة نفر: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والمفارق للجماعة التارك لدينه"، او قال:" تارك الإسلام".عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مِهْرَانَ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ: " وَالَّذِي لا إِلَهَ غَيْرُهُ، لا يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلا أَحَدُ ثَلاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ التَّارِكُ لِدِينِهِ"، أَوْ قَالَ:" تَارِكُ الإِسْلامِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جس طرح کہ میں تمہارے اندر کھڑا ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں! اس آدمی کا خون حلال نہیں جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں، مگر تین آدمیوں میں سے ایک کا: جان بدلے جان کے اور شادی شدہ زانی اور جماعت سے علیحدہ ہونے والا، اپنے دین کو چھوڑ دینے والا یا فرمایا: اسلام کو ترک کر دینے والا۔
سیدنا صنابحی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں اور بے شک میں تمہاری کثرت کے سبب امتوں پر فخر کرنے والا ہوں۔ سو تم میرے بعد قطعاً مت لڑنا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6575، 6576، 7049، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2297، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3057، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3713، 3889، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5168، 5199، والبزار فى «مسنده» برقم: 1684، 1708، 1709، 1756، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32317، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10402، 10409 صحیح بخاري، الرقاق: 11/395، الفتن: 13/3، سنن ابن ماجة: 3944، مسند احمد: 4/351، صحیح ابن حبان: (الموارد)459۔»
عن إسماعيل بن ابي خالد، عن عبد الرحمن بن عائذ، ان عقبة بن عامر الجهني اتى المسجد الاقصى فصلى فيه، فلحقه ناس يمشون معه، فقال: ما جاءكم؟ قالوا: لصحبتك رسول الله صلى الله عليه وسلم جئنا لنسلم عليك ولنسمع منك، قال: انزلوا فصلوا، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من مات ولم يشرك بالله شيئا، ولم يتند من الدماء الحرام شيء دخل من اي ابواب الجنة شاء".عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِذٍ، أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ أَتَى الْمَسْجِدَ الأَقْصَى فَصَلَّى فِيهِ، فَلَحِقَهُ نَاسٌ يَمْشُونَ مَعَهُ، فَقَالَ: مَا جَاءَكُمْ؟ قَالُوا: لِصُحْبَتِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِئْنَا لِنُسَلِّمَ عَلَيْكَ وَلِنَسْمَعَ مِنْكَ، قَالَ: أَنْزِلُوا فَصَلُّوا، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ مَاتَ وَلَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَمْ يَتَنَدَّ مِنَ الدِّمَاءِ الْحَرَامِ شَيْءٍ دَخَلَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ".
عبد الرحمن بن عائذ بیان کرتے ہیں کہ بے شک سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مسجد اقصیٰ میں آئے اور اس میں نماز پڑھی،ا نہیں کچھ لوگ ملے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگے، انہوں نے کہا کہ تم کیسے آئے؟ کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت ہے، ہم آئے ہیں تاکہ آپ کو سلام کہیں اور آپ سے سنیں۔ فرمایا کہ اتر و اور نماز پڑھو، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو مرا اور کسی چیز کو بھی اللہ کا شریک نہ بنایا اور حرام خونوں میں سے کسی چیز کو نہ بہایا، وہ جنت میں، جنت کے دروازوں میں سے جس سے چاہے گا، داخل ہوجائے گا۔
انا سعيد الجريري، ان ابا نضرة حدثهم، قال: حدثني من شهد خطبة النبي صلى الله عليه وسلم بمنى، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط ايام التشريق، فقال:" يا ايها الناس إن ربكم واحد، وإن اباكم واحد، الا لا فضل لعربي على اعجمي، ولا لعجمي على عربي، ولا اسود على احمر، ولا احمر على اسود إلا بتقوى الله، الا هل بلغت؟"، قالوا: بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فليبلغ الشاهد الغائب"، ثم قال:" اي شهر هذا؟"، قالوا: شهر حرام، قال:" فاي يوم هذا؟"، قالوا: يوم حرام، قال:" فاي بلد هذا؟"، قالوا: بلد حرام، قال:" فإن دماءكم واموالكم، قال: واحسبه قال: واعراضكم، عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، الا هل بلغت؟"، قالوا: بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فليبلغ الشاهد الغائب".أنا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، أَنَّ أَبَا نَضْرَةَ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ شَهِدَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلا لا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، وَلا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ إِلا بِتَقْوَى اللَّهِ، أَلا هَلْ بَلَّغْتُ؟"، قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟"، قَالُوا: شَهْرٌ حَرَامٌ، قَالَ:" فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟"، قَالُوا: يَوْمٌ حَرَامٌ، قَالَ:" فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟"، قَالُوا: بَلَدٌ حَرَامٌ، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَأَعْرَاضَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلا هَلْ بَلَّغْتُ؟"، قَالُوا: بَلَّغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ".
ابو نضرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس نے حدیث بیان کی جو منیٰ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے میں حاضر ہوا تھا، اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ سنو! کسی عربی کی کسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کی، کسی عربی پر اور نہ کسی سیاہ کی سرخ پر اور نہ کسی سرخ کی سیاہ پر، سوائے اللہ کے تقوے کے، دیکھو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لازم ہے جو موجود ہے اسے پہنچا دے جو غائب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حرمت والا مہینہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دن کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حرمت والا دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شہر کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حرمت والا شہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تمہارے خون اورتمہارے مال (راوی نے کہا کہ)اور میرا خیال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تمہاری عزتیں تمہارے لیے قابل احترام ہیں، جس طرح تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس دن کا احترام ہے۔ سنو! کیا میں نے پہنچا دیا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچا دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو لازم ہے کہ جو موجود ہے،ا سے پہنچا دے جو حاضر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 23489۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
انا حميد الطويل، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، واستقبلوا قبلتنا، واكلوا ذبيحتنا وصلوا صلاتنا، فقد حرمت علينا دماؤهم واموالهم إلا بحقها، لهم ما للمسلمين وعليهم ما عليهم".أنا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا وَصَلَّوْا صَلاتَنَا، فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا، لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لوگوں سے لڑائی کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پس جب وہ کہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور انہوں نے ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا اور ہماری نماز پڑھی تو یقینا ہم پر ان کے خون اور مال حرام ہوگئے، سوائے ان کے حق کے، ان کے لیے وہ (حقوق)ہیں جو مسلمانوں کے لیے ہیں اور ان پر وہ (فرائض)ہیں جو ان (باقی مسلمانوں)پر ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري: 393، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 8/173، تاریخ بغداد: 10/464، التلخیص الحبیر، ابن حجر: 4/25۔»
انا محمد بن سوقة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان عمر بن الخطاب خطب بالجابية، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم قيامي فيكم، فقال: " استوصوا باصحابي خيرا، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى إن الرجل ليسبق بالشهادة قبل ان يسالها فمن اراد منكم بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين ابعد، ولا يخلون احدكم بامراة فإن الشيطان ثالثهما، ومن سرته حسنته، وساءته سيئته فهو مؤمن".أنا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ: " اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِي خَيْرًا، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَسْبِقُ بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، وَلا يَخْلُوَنَّ أَحَدُكُمْ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ ثَالِثُهُمَا، وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ، وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ (مقام(پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ہمارے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جس طرح میں تمہارے اندر کھڑا ہوا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق خیر کی وصیت قبول کرو، پھر ان لوگوں کے بارے میں جوان کے بعد آئیں گے، پھر ان لوگوں کے متعلق جو ان کے بعد آئیں گے، پھر جھوٹ عام ہوجائے گا، یہاں تک کہ بے شک آدمی، اس سے قبل کہ اس سے مطالبہ کیا جائے، گواہی دینی شروع کر دے گا اور مطالبے سے پہلے قسم اٹھانی شروع کر دے گا، تم میں سے جوجنت کا درمیان چاہتا ہے وہ جماعت کو لازماً پکڑ لے۔ بے شک شیطان اکیلے کے ساتھ ہے اور وہ دو سے زیاد ہ دور ہے اور تمہارا کوئی ہرگز کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں ہوتا، مگر شیطان ہی ان دونوں کا تیسرا ہوتا ہے اور جسے اس کی نیکی خوش لگے اور گناہ برا لگے تو وہ مومن ہے۔
تخریج الحدیث: «مستدرك حاکم: 1/114، 115، جامع ترمذي: 2165۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے»
انا هشام بن حسان، عن الحسن، عن ضبة بن محصن، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يكون عليكم ائمة فتعرفون حقهم وتنكرون، فمن انكر فقد نجا، ومن كره فقد سلم، ولكن من رضي وتابع"، قال: فقيل: يا رسول الله، الا نقاتلهم؟ قال:" لا، ما صلوا".أنا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ فَتَعْرِفُونَ حَقَّهُمْ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ نَجَا، وَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ"، قَالَ: فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ:" لا، مَا صَلَّوْا".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایسے حکمران ہوں گے، جو اپناحق پہچانیں گے اور (تمہارے حق کا)انکار کریں گے۔ جس نے انکار کیا تو یقینا وہ نجات پا گیا اور جس نے ناپسند کیایقینا وہ سلامت رہا لیکن جو راضی ہوا اور تابع داری کی۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم ان کو قتل نہ کریں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1854، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4760، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2265، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6599، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27171،والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1700، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6980، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20681، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38451، والطبراني فى «الكبير» برقم: 760، 761، 762، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4745 صحیح مسلم، الإمارة: 12/243، رقم: 63، 64۔»
انا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، حدثني رزيق مولى بني فزارة، عن مسلم بن قرظة، وكان ابن عم عوف بن مالك، قال: سمعت عوف بن مالك، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خيار ائمتكم من تحبونهم ويحبونكم، وتصلون عليهم ويصلون عليكم، وشرار ائمتكم الذين تبغضونهم، ويبغضونكم، وتلعنونهم، ويلعنونكم"، قال: قلنا: يا رسول الله، افلا ننابذهم عند ذلك؟ قال:" لا، ما اقاموا الصلاة، الا ومن ولي عليه وال فرآه ياتي شيئا من معصية الله، فليكره ما ياتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة".أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي رُزَيْقٌ مَوْلَى بَنِي فَزَارَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ قَرَظَةَ، وَكَانَ ابْنَ عَمِّ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ مَنْ تُحِبُّونَهُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ، وَتُصَلُّونَ عَلَيْهِمْ وَيُصَلُّونَ عَلَيْكُمْ، وَشِرَارُ أَئِمَّتِكُمُ الَّذِينَ تُبْغِضُونَهُمْ، وَيُبْغِضُونَكُمْ، وَتَلْعَنُونَهُمْ، وَيَلْعَنُونَكُمْ"، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلا نُنَابِذُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ؟ قَالَ:" لا، مَا أَقَامُوا الصَّلاةَ، أَلا وَمَنْ وُلِّيَ عَلَيْهِ وَالٍ فَرَآهُ يَأْتِي شَيْئًا مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، فَلْيَكْرَهْ مَا يَأْتِي مِنْ مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلا يَنْزِعَنَّ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ".
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمہارے بہترین حکمران وہی ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تم ان کے لیے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے دعا کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہیں، تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔ کہا کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو کیا ہم اس وقت ان کے ساتھ اعلان جنگ نہ کر دیں؟ فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز کو قائم رکھیں، مگر وہ شخص کے اس کے اوپر ایسا حکمران بنا کہ اس نے اس کو دیکھا کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اس اللہ کی معصیت کو جس کا وہ ارتکاب کرتا ہے، ناپسند کرے اور اطاعت سے قطعاً ہاتھ نہ کھینچے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1855، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4589، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2839، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16720، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24614، 24633، والبزار فى «مسنده» برقم: 2752، والطبراني فى «الكبير» برقم: 115، 116، 117 صحیح مسلم، الإمارة: 12/244، 245، رقم: 65، 66، سنن دارمي: 2/232۔»
انا زائدة بن قدامة، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إنها ستكون اثرة وفتن وامور تنكرونها"، فقالوا: فما تامر من ادرك ذلك منا يا رسول الله؟ قال:" تؤدون الحق الذي عليكم وتسالون الله الذي لكم".أنا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ أَثَرَةٌ وَفِتَنٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا"، فَقَالُوا: فَمَا تَأْمُرُ مَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنَّا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" تُؤَدُّونَ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْكُمْ وَتَسْأَلُونَ اللَّهَ الَّذِي لَكُمْ".
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک قصہ یہ ہے کہ عن قریب خود غرضی، فتنے اور ایسے امور ہوں گے، جن کا تم انکار کرو گے،ا نہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو یہ پائے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں؟فرمایا کہ تم وہ حق ادا کرنا جو تم پر ہے اور جو تمہارا حق ہے وہ تم اللہ سے مانگنا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3603، 7052، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1843، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4587، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2190، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16712، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3714، 3715، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 295، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5156، والبزار فى «مسنده» برقم: 1767، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38420، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10073، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 6893، والطبراني فى «الصغير» برقم: 985 صحیح بخاري، الفتن: 13/4، صحیح مسلم،ا لإمارة: 12/232، رقم: 45، مسند أحمد (الفتح الرباني)23/28، طبراني صغیر: 2/80، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 4/146، 5/57، 7/131۔»
انا حماد بن سلمة، عن ابي عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال له:" يا ابا ذر، كيف تفعل إذا جاع الناس حتى لا تستطيع ان تقوم من فراشك إلى مسجدك، ومن مسجدك إلى فراشك؟" فقلت: الله ورسوله اعلم. قال:" تعفف"، ثم قال:" كيف تصنع إذا مات الناس حتى يكون البيت فيه بالوصيف؟" فقلت: الله ورسوله اعلم، قال:" تصبر"، ثم قال:" كيف تعمل إذا اقتتل الناس حتى يغرق حجر الزيت؟" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" تاتي من انت منه"، فقلت: إذا رايت ان اتى علي؟ فقال:" تدخل بيتك"، فقلت: افرايت إن اتى علي؟ قال:" إن خشيت ان يبهرك شعاع السيف، فالق طائفة ردائك على وجهك يبوء بإثمك وإثمه"، فقلت: افلا احمل السلاح؟ فقال:" إذا تشركه".أنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ تَفْعَلُ إِذَا جَاعَ النَّاسُ حَتَّى لا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ، وَمِنْ مَسْجِدِكَ إِلَى فِرَاشِكَ؟" فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ:" تَعَفَّفْ"، ثُمَّ قَالَ:" كَيْفَ تَصْنَعُ إِذَا مَاتَ النَّاسُ حَتَّى يَكُونَ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ؟" فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" تَصْبِرْ"، ثُمَّ قَالَ:" كَيْفَ تَعْمَلُ إِذَا اقْتَتَلَ النَّاسُ حَتَّى يَغْرَقَ حَجَرُ الزَّيْتِ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" تَأْتِي مَنْ أَنْتَ مِنْهُ"، فَقُلْتُ: إِذَا رَأَيْتَ أَنْ أَتَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ:" تَدْخُلْ بَيْتَكَ"، فَقُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ أَتَى عَلَيَّ؟ قَالَ:" إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ، فَأَلْقِ طَائِفَةَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ"، فَقُلْتُ: أَفَلا أَحْمِلُ السِّلاحَ؟ فَقَالَ:" إِذًا تُشْرِكُهُ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا: اے ابو ذر! تو کیسے کرے گا جب لوگ بھوکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ تو طاقت نہ رکھے گا کہ اپنے بسترسے اپنی مسجد کی طرف اور اپنی مسجد سے اپنے بستر کی طرف کھڑا ہو سکے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پاک دامنی اختیار کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیسے کرے گا، جب لوگ مر جائیں گے، یہاں تک کہ گھر نوکر کے ساتھ ہوگا؟ میں نے کہا کہ اللہ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ صبر کرنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیسے عمل کرے گا، جب لوگ باہم لڑائی کریں گے حتی کہ بھیڑئیے کا بل پہچانا جائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توآنا جس سے تو ہے۔میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ اگر مجھ پر آیا گیا ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر میں داخل ہوجانا۔ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہے اگر مجھ پر آیا گیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو ڈرے کہ تلوار کی چمک تجھ پر غالب آجائے گی تو اپنی چادر کا کنارہ اپنے چہرے پر ڈال لینا، وہ تیرے گناہ اور اپنے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔ میں نے کہا کہ کیا میں اسلحہ نہ اٹھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تب تو اس کا شریک بن جائے گا۔
تخریج الحدیث: «صحیح ابن حبان (الموارد)460، مسند احمد (الفتح الرباني)24/14، مستدرك حاکم: 4/423، 424، 2/57، حلیة الأولیاء، ابونعیم: 8/2، سنن ابوداؤد: 4261۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»