سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: چیونٹیوں کی بستی میں، ایک چیونٹی نے ایک نبی کو کاٹ لیا تو اس نے اس بستی کو جلا دیا، اللہ نے اس کی طرف وحی کی کہ تجھے ایک چیونٹی نے کاٹا اور تو نے امتوں میں سے ایک ایسی امت کو ہلاک کر دیاجو تسبیح کرتی تھی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3019، 3319، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2241، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5614، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4363، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5265، 5266، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3225، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10180، 10181، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8245، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 874، 876 صحیح البخاري، الجهاد: 6/115، باب إذا حرق المسلم المشرك هل یحرق: 3019، صحیح مسلم، السلام: 14/234، رقم: 148، سنن ابي داؤد، الأدب: 35، باب فی قتل الذر: 14/176، 177، سنن ابن ماجة: 3225، سنن الکبریٰ بیهقي: 5/213۔»
انا ابو حيان التيمي، عن الشعبي، عن النعمان بن بشير، قال: سالت امي ابي بعض الموهبة لي من ماله، فالتوى بها سنة، ثم بدا له فوهبها لي، وانها قالت: لا ارضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم على ما وهبت لابني، فاخذ بيدي وانا يومئذ غلام، فاتى بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، إن ام هذا بنت رواحة قاتلتني منذ سنة على بعض الموهبة لابني هذا، وقد بدا لي فوهبتها له، وقد اعجبها ان تشهدك يا رسول الله، فقال:" يا بشير، الك ولد سوى هذا؟"، قال: نعم، فاراه قال:" لا، لا تشهدني على هذا".أنا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِي مِنْ مَالِهِ، فَالْتَوَى بِهَا سَنَةً، ثُمَّ بَدَا لَهُ فَوَهَبَهَا لِي، وَأَنَّهَا قَالَتْ: لا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا وَهَبْتَ لابْنِي، فَأَخَذَ بِيَدِي وَأَنَا يَومَئذٍ غُلامٌ، فَأَتَى بِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ هَذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ قَاتَلَتْنِي مُنْذُ سَنَةٍ عَلَى بَعْضِ الْمَوْهِبَةِ لابْنِي هَذَا، وَقَدْ بَدَا لِي فَوَهَبْتُهَا لَهُ، وَقَدْ أَعْجَبَهَا أَنْ تُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" يَا بَشِيرُ، أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا؟"، قَالَ: نَعَمْ، فَأُرَاهُ قَالَ:" لا، لا تُشْهِدْنِي عَلَى هَذَا".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے میرے والد سے،اس کے مال میں سے، میرے لیے بعض تحفے کا سوال کیا،ا س نے ایک سال تک اسے ملتوی رکھا، پھر اس کے لیے مجھے تحفہ دینا ظاہر ہوا اور بے شک اس (میری ماں (نے کہا، میں راضی نہیں ہوں گی، یہاں تک کہ تو اس پر جو میرے بیٹے کو تحفہ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو، تواس نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں ان دنوں بچہ تھا اور مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اورکہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک اس کی ماں، رواحہ کی بیٹی، مجھے ایک سال سے اپنے اس بیٹے کو بعض تحفہ دینے پر اصرار کر رہی تھی اور اب میرے لیے اسے تحفہ دینا ظاہر ہوا ہے اور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یقینا اسے لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بشیر! کیا تیری اس کے علاوہ بھی اولاد ہے؟ کہا کہ ہاں، میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس پر گواہ نہ بنا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1425، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3716، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2961، 2962، 2963، 2964، 2965، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18645، والحميدي فى «مسنده» برقم: 948، 951، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 380 صحیح البخاري،الهبة، باب الإشهاد علی الهبة: 5/163، صحیح مسلم، الهبات،باب کراهیة تفضیل بعض الأولاد فی الهبة: 11/67، 68 رقم: 14،18، مسند أحمد: (الفتح الرباني)9/46، صحیح ابن حبان: (الموارد): 280، 501، موطا: 4/42، مسند طیالسي: 1/280، الأدب المفرد، بخاري: 1/171، تاریغ بغداد: 12/28۔»
عن فطر، عن مسلم بن صبيح، قال: سمعت النعمان بن بشير وهو يخطب: انطلق بي ابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم ليشهده على عطية اعطانيها، قال: " هل لك بنون سواه؟" قال: نعم، قال:" سو بينهم".عَنْ فِطْرٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ وَهُوَ يَخْطُبُ: انْطَلَقَ بِي أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى عَطِيَّةٍ أَعْطَانِيهَا، قَالَ: " هَلْ لَكَ بَنُونَ سِوَاهُ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" سَوِّ بَيْنَهُمْ".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور وہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے: میرا باپ مجھے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا تاکہ اس عطیے پر جو اس نے مجھے دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کے علاوہ بھی تیرے بیٹے ہیں؟ کہا کہ ہاں۔ فرمایا: ان کے درمیان برابری کر۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2586، 2587، 2650، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1623، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1452، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5097، 5098، 5099، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3702، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3542، 3543، 3544، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2375، 2376، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12115، والدارقطني فى «سننه» برقم:، 2962، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18645، والحميدي فى «مسنده» برقم: 948، 951، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 380 صحیح مسلم: 11/65، رقم: 9،10،11،سنن ابن ماجة: 2375، 2376، مسند أحمد: 4/268، 276۔»
عن خالد الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس لنا مثل السوء، الراجع في هبته كالكلب في قيئه".عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ، الرَّاجِعُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ فِي قَيْئِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے بری مثال نہیں ہے۔ اپنے تحفے میں لوٹنے والا کتے کی طرح ہے، جو اپنی قے میں (لوٹتا ہے)۔
عن اسامة بن زيد، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، ان رجلا وهب هبة فرجع فيها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا مثل الكلب الذي ياكل حتى إذا شبع قاء ما في بطنه، ثم رجع إليه فاكله"، وقال عمرو بن شعيب: حضرت عمر بن عبد العزيز قال ذلك في خلافته لرجل.عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلا وَهَبَ هِبَةً فَرَجَعَ فِيهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا مِثْلُ الْكَلْبِ الَّذِي يَأْكُلُ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ مَا فِي بَطْنِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَأَكَلَهُ"، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ: حَضَرْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ ذَلِكَ فِي خِلافَتِهِ لِرَجُلٍ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بے شک ایک آدمی نے کوئی تحفہ دیا، پھر اس میں لوٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتے کی مثال ہے، جو کھاتا ہے، یہاں تک کہ جب سیر ہوجاتا ہے تو جو اس کے پیٹ میں ہوتا ہے قے کر دیتا ہے، پھر اس کی طرف واقع ہوتا ہے اور اسے کھالیتا ہے۔“ اور عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا، انہوں نے یہ حدیث اپنے دور خلافت میں ایک آدمی کے لیے بیان کی تھی۔
عن الحسين بن ذكوان المعلم، عن عمرو بن شعيب، عن طاوس، عن ابن عمر، وابن عباس، رفعاه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يحل لرجل ان يعطي عطية فيرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده، ومثل من يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب ياكل حتى إذا شبع قاء، ثم يرجع فيه".عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَكْوَانَ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، رَفَعَاهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ، وَمَثَلُ مَنْ يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَأْكُلُ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ، ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهِ".
سیدنا ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کوئی عطیہ دے، پھر اس میں لوٹے، سوائے باپ کے، ا س چیز میں جو وہ اپنے بیٹے کو دیتا ہے اور اس کی مثال جو کوئی عطیہ دیتا ہے، پھر اس میں لوٹتا ہے، وہ کتے کی مثل ہے جوکھاتا ہے، یہاں تک کہ جب سیر ہوجاتا ہے تو قے کر دیتا ہے، پھر وہ اپنی قے میں لوٹتا ہے۔
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي:1298، سنن ابوداؤد: 3539، سنن ابن ماجة: 2377۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
عن المثنى، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا ترقبوا شيئا، فمن ارقب شيئا فهو له، ولا تعمروا، فمن عمر شيئا فهو لورثته".عَنِ الْمُثَنَّى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لا تَرْقُبُوا شَيْئًا، فَمَنْ أَرْقَبَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، وَلا تَعْمُرُوا، فَمَنْ عَمَرَ شَيْئًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی چیز کو رقبیٰ نہ کرو، جس نے کسی چیز کو رقبیٰ کیا تو وہ اسی کے لیے ہے اور عمرٰی نہ کرو، جس نے کسی چیز میں عمرٰی کیا تو وہ اسی کے لیے ہے۔
محمد بن علی نے کہا کہ مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو عُمرٰیٰ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: « «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2626، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1625، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5127، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3548، 3556، 3558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1351، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2383، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12092، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8686، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1293، 1327، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5850، 5860، 5863» »