عن مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن زيد بن خالد الجهني، و ابي هريرة جميعا، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن الامة إذا زنت ولم تحصن؟ قال:" إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم بيعوها ولو بضفير، بعد الثالثة او الرابعة" والضفير: هو الحبل.عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، وَ أَبِي هُرَيْرَةَ جَمِيعًا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الأَمَةِ إِذَا زَنَتْ وَلَمْ تُحْصَنْ؟ قَالَ:" إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ، بَعْدَ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ" وَالضَّفِيرُ: هُوَ الْحَبْلُ.
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ او ر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لونڈی کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اگر وہ زنا کرے اور شادی شدہ نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اسے بیچ دو، چاہے بالوں کی رسی کے بدلے ہی۔“ تیسری یا چوتھی دفعہ کے بعد اور ”ضفیر“ رسی کو کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري، البیوع،بیع المدبر: 4/334، المحاربین: 12/138، صحیح مسلم، الموارد: 11/213، رقم: 33، سنن ابن ماجة، الحدود: 14، باب إقامة الحدود علی الإماء رقم: 2565، موطا: 4/148، کتاب الحدود: 573، باب جامع ماجاء فی حد الزنا، سنن دارمي، الحدود: 18، باب الممالیك إذا زنوا یقیم علیهم سادتهم الحدود دون السلطان: 2/101، مسند طیالسي: 1/300، سنن الکبریٰ بیهقي: 8/244۔»
عن حماد بن سلمة، عن عقيل بن طلحة السلمي، عن مسلم بن هيضم، عن الاشعث بن قيس، قال: قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من كندة لا يروني إلا افضلهم، فقلت: يا رسول الله، إنا نزعم انكم منا؟ قال: " نحن بنو النضر بن كنانة لا نقفو امنا ولا ننتفي من ابينا"، فقال الاشعث: والله لا اسمع برجل نفى قريشا من النضر إلا جلدته الحد.عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَقِيلِ بْنِ طَلْحَةَ السُّلَمِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ هَيْضَمٍ، عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ كِنْدَةَ لا يَرَوْنِي إِلا أَفْضَلَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَزْعُمُ أَنَّكُمْ مِنَّا؟ قَالَ: " نَحنُ بَنُو النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ لا نَقْفُو أُمَّنَا وَلا نَنْتَفِي مِنْ أَبِينَا"، فَقَالَ الأَشْعَثُ: وَاللَّهِ لا أَسْمَعُ بِرَجُلٍ نَفَى قُرَيْشًا مِنَ النَّضْرِ إِلا جَلَدْتُهُ الْحَدَّ.
اشعث بن قیس نے کہا کہ ہم کندہ کے کچھ لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ مجھے اپنا سب سے افضل آدمی ہی سمجھتے تھے،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک ہم گمان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بنو نضیر بن کنانہ نہ اپنی ماں پر بری تمہت لگاتے ہیں اور نہ ہی اپنے باپ کی نفی کرتے ہیں۔“ اشعث نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں جس آدمی کو بھی سنتا کہ اس نے قریش کے کسی آدمی کی نضر بن کنانہ سے نفی کی ہے تو میں اسے ضرور کوڑوں کی حد لگاتا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة، الحدود: 37، باب من نفي رجلا من قبیلة، رقم: 2612۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث بن سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4283، 6764، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1351، 1351، 1614، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1486، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2985، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5149، 6033، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2962، 4200، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4241، 4242، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2010، 2909، 2910، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2107، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3041، 3043، 3044، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2729، 2730، 2942، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 135، 136، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9838، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3028، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22161، والطبراني فى «الكبير» برقم: 391، 412، 413، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 506، 2738، 5013 صحیح بخاري، الفرائض، باب لا یرث الکافر المسلم: 12/41، صحیح مسلم، الفرائض: 11/52، رقم: سنن ابي داؤد،الفرائض: 10 باب هل یرث الکافر المسلم: 8/120، سنن ابن ماجة، الفرائض: 6، باب میراث أهل الإسلام من أهل الشرك رقم: 2731، مسند أحمد: 2/195، تاریخ بغداد: 5/290، 8/407، تلخیص الحبیر، ابن حجر: 3/84۔»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: د و (مختلف)دینوں والے باہم وارث نہیں بن سکتے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابي داؤد، الوصایا: 10، باب هل یرث الکافر والمسلم: 2911، سنن ابن ماجة، الفرائض: 6، باب میراث أهل الاسلام من أهل الشرك: رقم: 2731، مسند احمد: 2/195، تاریخ بغداد: 5/290، 8/407، تلخیص الجیر: 3/84۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»
عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدين قبل الوصية، وانتم تقرءون: من بعد وصية يوصى بها او دين سورة النساء آية 12، وإن اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات، يعني الإخوة للاب، والام دون الإخوة للاب".عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ سورة النساء آية 12، وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلاتِ، يَعْنِي الإِخْوَةَ لِلأَبِ، وَالأُمِّ دُونَ الإِخْوَةِ لِلأَبِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض ادا کیا، حالاں کہ تم پڑھتے ہو، ﴿ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ (النساء: 12)”اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد(۔“ اور بے شک عینی بھائی ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں نہ کہ علاتی بھائی۔ یعنی باپ اورماں کی طرف سے بھائی نہ کہ صرف باپ کی طرف سے بھائی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة، الوصایا: 7، باب الدین قبل الوصیة رقم: 2715، سنن ترمذي: 2094، مسند الطیالسي: 1/272، مستدرك حاکم: 4/336۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔»
انا سفيان، عن عبد الرحمن بن الاصبهاني، عن مجاهد بن وردان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، ان مولى للنبي صلى الله عليه وسلم وقع من عذق نخلة، فمات وترك شيئا، فقيل ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هل له من ولد او حميم؟"، قالوا: لا، قال: " فانظروا بعض اهل قريته، فادفعوه إليه".أنا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ مَوْلًى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَعَ مِنْ عَذْقِ نَخْلَةٍ، فَمَاتَ وَتَرَكَ شَيْئًا، فَقِيلَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَلْ لَهُ مِنْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ؟"، قَالُوا: لا، قَالَ: " فَانْظُرُوا بَعْضَ أَهْلِ قَرْيَتِهِ، فَادْفَعُوهُ إِلَيْهِ".
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آزاد کردہ غلام کھجور خرما کی شاخیں کاٹ رہا تھا کہ گر کر مر گیا اور کچھ وراثت چھوڑ گیا، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کی کوئی اولاد یا دوست ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعض بستی والے کو دیکھو اور اس (مال)کو اس کے سپرد کردو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة، الفرائض، باب میراث الولاء رقم: 2733، مسند طیالسي: 1/285، مشکل الآثار طحاوي: 1/426، 427۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
نا يعقوب بن محمد بن طحلاء، اخبرني خالد بن ابي حيان، قال: كانت امراة من بني دينار اعتقتني، فتزوجت في بني سلمة، فولدت فيهم، ثم ماتت، فدخلت على جابر بن عبد الله، فقال بعض القوم: يا ابا عبد الله، هذا سئل من ولائك؟ فقلت: معاذ الله، انا مولى فلانة من بني الدينار، فقال جابر: اجل يا ابن اختي، فإني اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من تولى غير مواليه خلع ربقة الإيمان من عنقه"، ويقول بيده هكذا ثلاث مرات.نا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَحْلاءَ، أَخْبَرَنِي خَالِدُ بْنُ أَبِي حَيَّانَ، قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي دِينَارٍ أَعْتَقَتْنِي، فَتَزَوَّجَتْ فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَوَلَدَتْ فِيهِمْ، ثُمَّ مَاتَتْ، فَدَخَلْتُ عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، هَذَا سُئِلَ مِنْ وَلائِكَ؟ فَقُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَنَا مَوْلَى فُلانَةَ مِنْ بَنِي الدِّينَارِ، فَقَالَ جَابِرٌ: أَجَلْ يَا ابْنَ أُخْتِي، فَإِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِيمَانِ مِنْ عُنُقِهِ"، وَيَقُولُ بِيَدِهِ هَكَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ.
خالد بن ابی حیان نے کہا کہ بنی دینار کی ایک عورت تھی جس نے مجھے آزاد کر دیا تھا، پھر اس نے بنی سلمہ میں شادی کر لی اور ان میں سے اس نے اولاد پیدا کی، پھر وہ (آزاد کرنے والی)فوت ہو گئی، میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما پر داخل ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! یہ آپ رضی اللہ عنہ کے ”ولاء“ سے سوال کرنے والا ہے۔ میں نے کہا کہ اللہ کی پناہ! میں فلاں دیناریہ عورت کا آزادہ کردہ ہوں توجابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اے میری بہن کے بیٹے! بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنے مالکوں کے سوا کسی اور کو مالک بنایا، اس نے اپنی گردن سے ایمان کا پھندا اتار دیا اور وہ ا پنے ہاتھ کے ساتھ اس طرح تین بار اشارہ کر رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 3/332، رقم: 14562۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔»
انا محمد بن ابي حفصة، ومعمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، ان امراة جاءت عمر بن الخطاب تطلب ميراثها من زوجها، فقال عمر: إنما الدية للعاقلة ولا اعلم لك شيئا، وقال معمر: ما ارى الدية إلا للعصبة لانهم يعقلون، فنشدت الناس، فقال: هل احد عنده من هذا علم؟ فقال الضحاك بن سفيان الكلابي:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلي ان اورث امراة اشيم الضبابي من دية زوجها"، فورثها عمر.أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ تَطْلُبُ مِيرَاثَهَا مِنْ زَوْجِهَا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّمَا الدِّيَةُ لِلْعَاقِلَةِ وَلا أَعْلَمُ لَكِ شَيْئًا، وَقَالَ مَعْمَرٌ: مَا أَرَى الدِّيَةَ إِلا لِلْعَصَبَةِ لأَنَّهُمْ يَعْقِلُونَ، فَنَشَدْتُ النَّاسَ، فَقَالَ: هَلْ أَحَدٌ عِنْدَهُ مِنْ هَذَا عِلْمٌ؟ فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلابِيّ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَيَّ أَنْ أُوَرِّثَ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضَّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا"، فَوَرَّثَهَا عُمَرُ.
سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک عورت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئی، وہ اپنے خاوند کی جانب سے (حاصل ہونے والی)اپنی وراثت کا مطالبہ کر رہی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیت تو صرف عصبہ کے لیے ہوتی ہے اور میں تیرے لیے کسی چیز کو نہیں جانتا اور معمر نے کہا کہ انہوں نے سمجھا کہ دیت صرف عصبہ کے لیے ہے، کیونکہ کہ دیت دیتے بھی وہی ہیں، پھر انہوں نے لوگوں نے مشورہ کیا اور فرمایا: کیا کسی ایک کے پاس اس بارے میں کوئی علم ہے؟ تو ضحاک بن سفیان کلابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف لکھا تھا کہ میں اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے خاوند کی دیت سے وارث بناؤں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو وارث بنا دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 2642، مسند احمد: 3/452۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»