انا سعيد بن ابي ايوب، حدثني ابن ابي سليمان، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: يومئذ تحدث اخبارها سورة الزلزلة آية 4، قال:" اتدرون ما اخبارها؟"، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" فإن اخبارها ان تشهد على كل عبد وامة بما عمل على ظهرها، ان تقول: عمل كذا وكذا في يوم كذا وكذا، فهذه اخبارها".أنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الآيَةَ: يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا سورة الزلزلة آية 4، قَالَ:" أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟"، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ وَأَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا، أَنْ تَقُولَ: عَمِلَ كَذَا وَكَذَا فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا، فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿ َوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا﴾ (الزلزال: 4)”اس دن وہ (زمین(اپنی خبریں بیان کرے گی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: تم جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی پر، جو اس نے زمین کی پشت پر عمل کیا ہوگا، گواہی دے گی اور بولے گی کہ اس نے فلاں فلان دن میں یہ یہ عمل کیا تھا، تو یہ اس کی خبریں ہیں۔
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي: 2429، 3353، مسند احمد: 2/374، صحیح ابن حبان (الموارد): 641، تاریخ بغداد: 5/438۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے۔»
عن ابن عون، عن نافع، عن ابن عمر، قال: " يوم يقوم الناس لرب العالمين حتى يغيب احدهم في رشحه إلى انصاف اذنيه".عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ حَتَّى يَغِيبَ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ﴿ یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ﴾ ”جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے۔“ یہاں تک کہ ان میں سے کوئی ایک اپنے نصف کانوں تک اپنے پسینے میں غائب ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4938، 6531، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2862، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7331، 7332، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11592، 11593، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2422، 2422 م، 3335، 3336، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4278، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4703 صحیح مسلم، کتاب الجنة رقم: 60، 17/195، سنن ابن ماجة: 4228، مسند احمد: 2/13، 19، 64، 70، 105، 112، 125، 126، جامع ترمذی، کتاب صفة القیامة: 2، 7/106۔»
حدثنا جدي، نا حبان، انا عبد الله، قال: واخبرنيه صخر بن جويرية، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.حَدَّثَنَا جَدِّي، نا حِبَّانُ، أنا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِيهِ صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، حدثني سليم بن عامر، حدثني المقداد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا كان يوم القيامة ادنيت الشمس من العباد، حتى تكون قيد ميل او اثنين"، قال سليم: لا ادري اي الميلين يعني: امسافة الارض، او الميل الذي تكتحل به العين، قال:" فتصهرهم الشمس، فيكونون في العرق بقدر اعمالهم، فمنهم من ياخذه العرق إلى عقبيه، ومنهم من ياخذه إلى ركبتيه، ومنهم من ياخذه إلى حقويه، ومنهم من يلجمه إلجاما"، قال: فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يشير بيده إلى فيه، يقول:" يلجمه إلجاما".عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي الْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْعِبَادِ، حَتَّى تَكُونَ قَيْدَ مِيلٍ أَوِ اثْنَيْنِ"، قَالَ سُلَيْمٌ: لا أَدْرِي أَيُّ الْمِيلَيْنِ يَعْنِي: أَمَسَافَةُ الأَرْضِ، أَوِ الْمِيلُ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ، قَالَ:" فَتَصْهَرُهُمُ الشَّمْسُ، فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ الْعَرَقُ إِلَى عَقِبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حَقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا"، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ، يَقُولُ:" يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب قیامت کا دن ہوگا تو سورج بندوں کے قریب کر دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ایک یا دو میل کے بقدر ہوجائے گا۔ سلیم (راوی)نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ دو میلوں میں سے کون سا مراد ہے، آیا زمین کی مسافت والا یا وہ سرمچو جس کے ساتھ آنکھ میں سرمہ ڈالا جاتا ہے۔ فرمایا: سورج انہیں پگھلا رہا ہوگا، تو وہ پسینے میں اپنے اعمال کے مطابق ہوں گے، بعض ان میں سے وہ ہے جسے پسینہ اس کی ایڑھیوں تک پکڑے ہوگا اور بعض وہ ہے جسے اس کے گھٹنوں تک پکڑے ہوگا اور بعض وہ ہے جسے اس کی کوخوں (کمر)تک پکڑے ہوگا اور بعض وہ ہے جسے لگام پہنائے ہوگا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے منہ کی طرف اشارہ کر رہے اور فرما رہے تھے: ”اسے لگام پہنائے ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي: کتاب صفة القیامة: 2 باب منه: 2421، صحیح بخاري: 6532، صحیح مسلم: 2864۔»
عن رشدين بن سعد، عن حيي بن عبد الله، عن ابي عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الصيام والقرآن يشفعان للعبد، يقول الصيام: اي رب، إني منعته الطعام والشهوات بالنهار فشفعني فيه، ويقول القرآن: رب، إني منعته النوم بالليل فشفعني فيه، فيشفعان".عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ حُيَيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ، إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: رَبِّ، إِنِّي مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، فَيُشَفَّعَانِ".
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کے لیے سفارشی بنیں گے۔ روزہ کہے گا: میرے رب! میں نے اسے دن کے وقت کھانے اور شہوتوں سے روکا، لہٰذا اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا: میرے رب! میں نے رات کے وقت اسے سونے سے روکا، سو اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما، تو دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 114، مستدرك حاکم: 1/554، صحیح الترغیب والترهیب: 984۔ وله شاهد على شرط مسلم من حديث عبد الرحمن بن أبي ليلى عن أسيد المستدرك على الصحيحين: (1 / 554) برقم: (2042)»
عن شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اول ما يقضى بين الناس يوم القيامة في الدماء".عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6533، 6864، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1678، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7344، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3996،3997، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3439، 3440، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1396، 1397، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2615، 2617، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15961، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3748، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10425 الزهد، ابن مبارك: 478، صحیح بخاري: کتاب الدیات: 12/159، صحیح مسلم، کتاب القسامة، رقم: 28، سنن ترمذي، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدعاء: 4/653، 654، سنن ابن ماجة: 2615، 2617، مسند احمد: 1/388، 441، 442، مسند الشهاب، قضاعي بحوالہ اللباب شرح الشهاب: 38، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 7/87، 88۔»
عن إسماعيل بن مسلم، عن الحسن، وقتادة، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يؤتى بالعبد يوم القيامة كانه بذج، فيوقف بين يدي الله، فيقول الله: اعطيتك وخولتك وانعمت عليك فما صنعت؟ فيقول: يا رب، جمعته وثمرته وتركته اكثر ما كان، فارجعني آتك به كله، فيقول له: ارني ما قدمت؟ فيقول: يا رب، جمعته وثمرته وتركته اكثر ما كان، فارجعني آتك به كله، فإذا كان عبد لم يقدم خيرا فيمضي به إلى النار".عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُؤْتَى بِالْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ، فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ، فَيَقُولُ اللَّهُ: أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ فَمَا صَنَعْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ، فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، فَيَقُولُ لَهُ: أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ، فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، فَإِذَا كَانَ عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيَمْضِي بِهِ إِلَى النَّارِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت والے دن بندے کو لایا جائے گا، گویا کہ وہ ایک بکری کا بچہ ہے، اسے اللہ کے سامنے کھڑا کرد یا جائے گا، اللہ فرمائے گا، میں نے تجھے دیا، میں نے تجھے نوازا اور میں نے تجھ پر احسان کیا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: یا رب! میں نے اسے جمع کیا،ا سے بڑھایا اور جتنا (مال)تھا اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا، تو مجھے لوٹا دے، میں تیرے پاس وہ سارا لے آتا ہوں، وہ اس سے کہے گا: مجھے دکھا جو تو نے آگے بھیجا، تو وہ کہے گا کہ میں نے اسے جمع کیا، اسے بڑھایا اور جتنا تھا اس سے بڑا چھوڑ آیا، تو مجھے لوٹا، میں تیرے پاس وہ سارا لے کر آتا ہوں، اچانک اس بندے نے کوئی نیکی آگے نہیں بھیجی ہوگی تو اسے آگ کی طرف چلا دیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 357، جامع ترمذی، کتاب صفة القیامة: 2427۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔»
عن عثمان بن الاسود، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من نوقش الحساب هلك"، قلت: يا رسول الله، فإن الله يقول: فاما من اوتي كتابه بيمينه {7} فسوف يحاسب حسابا يسيرا سورة الانشقاق آية 7-8، قال:" ذلك العرض".عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ {7} فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 7-8، قَالَ:" ذَلِكَ الْعَرْضُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس سے حساب میں مناقشہ (پوچھ گچھ)کی گئی، وہ ہلاک ہو جائے گا، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَهُ بِیَمِینِهِ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا ﴾(الانشقاق: 7،8)”پس لیکن وہ شخص جسے اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، سو عنقریب اس سے حساب لیا جائے گا، نہایت آسان حساب۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ محض پیشی ہوگی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 103، 4939، 6536، 6537، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2876، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 849، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7369، 7370، 7371، 7372، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 190، 942، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11554، 11555، 11595، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3093، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2426، 3337، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24837، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3649، 8595 الزهد، ابن مبارك: 465، صحیح بخاري، کتاب الرقاق: 49، باب من نوقش الحساب عذب: 11/337، صحیح مسلم، کتاب الجنة رقم: 79۔17/208، جامع ترمذي، کتاب صفة القیامة: 5 باب العرض: 7/112، مسند احمد: 6/47، 108،127، 206۔»
عن ليث بن سعد، نا عامر بن يحيى، عن ابي عبد الرحمن المعافري، ثم الحبلي، قال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله سبحانه سيخلص رجلا من امتي على رءوس الخلائق يوم القيامة، فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا، كل سجل مد البصر، ثم يقول له: اتنكر من هذا شيئا؟ اظلمك كتبتي الحافظون؟ فيقول: لا يا رب، فيقول الله: الك عذر او حسنة؟ فبهت الرجل، وقال: لا يا رب، فيقول: بلى، إن لك عندنا حسنة، فإنه لا ظلم عليك اليوم، فتخرج له بطاقة فيها: اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله، فيقول: احضر وزنك، فيقول: يا رب، فما هذه البطاقة مع هذه السجلات؟ فيقول: إنك لا تظلم، قال: فتوضع السجلات في كفة والبطاقة في كفة، فطاشت السجلات، وثقلت البطاقة ولا يثقل مع اسم الله شيء".عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، نا عَامِرُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَعَافِرِيِّ، ثُمَّ الْحُبُلِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ سَيُخَلِّصُ رَجُلا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلا، كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: أَتُنكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ؟ فَيَقُولُ: لا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ اللَّهُ: أَلَكَ عُذْرٌ أَوْ حَسَنَةٌ؟ فَبُهِتَ الرَّجُلُ، وَقَالَ: لا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، فَإِنَّهُ لا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، فَتُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، فَمَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلاتِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لا تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلاتُ فِي كِفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلاتُ، وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ وَلا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ".
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سبحانہ و تعالیٰ قیامت والے دن میری امت کے آدمی کو تمام مخلوق کے سامنے منتخب کرے گا، اس کے آگے ننانوے رجسٹر کھول دے گا، ہر رجسٹر حد نگاہ تک ہوگا، پھر اس سے فرمائے گا، کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے، کیا تجھ پر میرے حفاظت کرنے والے، لکھنے والوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں یا رب! اللہ فرمائے گا، کیا تیرے پاس کوئی عذر یا نیکی ہے؟ وہ آدمی انتہائی پریشانی میں مبتلا ہوگا اور کہے گا: نہیں، یا رب! وہ کہے گا: کیوں نہیں، بے شک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور یقینا آج تیرے اوپر کوئی ظلم نہیں ہوگا، اس کے لیے ایک پرچی نکالی جائے گی، جس میں ہوگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم س کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ وہ کہے گا کہ اپنے وزن کے پاس آ، وہ بولے گا: اے پروردگار! ان رجسٹروں کے سامنے اس پرچی کی کیا حیثیت ہے؟ وہ کہے گا: بے شک تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب رجسٹر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ رجسٹر ہلکے پڑ جائیں گے اور وہ پرچی وزنی ہو جائے گی، کہ اللہ کے نام سے وزنی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارک فی زیادات نعیم: 110،سنن ابن ماجة: 4300، مستدرك حاکم: 1/6، 519، مسند احمد: 3/213۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
عن ابي حيان التيمي، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي هريرة، قال:" اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم فرفع إليه الذراع، وكانت تعجبه، فنهس منها نهسة، ثم قال: " انا سيد الناس يوم القيامة، هل تدرون بم ذاك؟ يجمع الله الناس الاولين والآخرين في صعيد واحد، يسمعهم الداعي وينفذهم البصر، وتدنو الشمس، فيبلغ الناس من الغم والكرب ما لا يطيقون ولا يحتملون، فيقول الناس بعضهم لبعض: الا ترون ما قد بلغكم، الا تنظرون من يشفع لكم إلى ربكم، فيقول بعض الناس لبعض: عليكم بآدم، فياتون آدم، فيقولون: انت ابو البشر، خلقك الله بيده، ونفخ فيك من روحه، وامر الملائكة فسجدوا لك، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه؟ الا ترى ما قد بلغنا؟ فيقول لهم آدم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد نهاني عن الشجرة فعصيته، نفسي نفسي اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى نوح، فياتون نوحا، فيقولون: يا نوح، انت اول الرسل إلى اهل الارض، وقد سماك الله عبدا شكورا، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه؟ الا ترى ما قد بلغنا؟ قال: فيقول: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولن يغضب بعده مثله، وإنه قد كانت لي دعوة دعوتها على قومي، نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيقولون: يا إبراهيم، انت نبي الله وخليله من اهل الارض، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه؟ فيقول لهم: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله ولن يغضب بعده مثله، فإني قد كذبت ثلاث كذبات، فذكرهن ابو حيان في الحديث، نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى موسى، فياتون موسى، فيقولون: يا موسى، انت رسول الله، فضلك برسالاته وبتكليمه على الناس، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه؟ فيقول: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، وإني قتلت نفسا لم اومر بقتلها، نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى عيسى، فياتون، فيقولون: يا عيسى، انت رسول الله وكلمته القاها إلى مريم وروح منه، وكلمت الناس في المهد اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه؟ فيقول عيسى: إن ربي قد غضب اليوم غضبا لم يغضب قبله مثله، ولن يغضب بعده مثله، ولم يذكر ذنبا، نفسي نفسي، اذهبوا إلى غيري، اذهبوا إلى محمد صلى الله عليه وسلم، فيقولون: يا محمد، انت رسول الله وخاتم الانبياء، غفر الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر، اشفع لنا إلى ربك، الا ترى ما نحن فيه؟ فانطلق فآتي تحت العرش فاقع ساجدا لربي، ثم يفتح علي من محامده وحسن الثناء عليه شيئا لم يفتحه على احد قبلي، ثم يقال لمحمد صلى الله عليه وسلم: ارفع راسك، سل تعطه، اشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: امتي يا رب امتي، فيقال لمحمد صلى الله عليه وسلم: ادخل من امتك من لا حساب عليه من الباب الايمن من ابواب الجنة، وهم شركاء الناس فيما سوى ذلك من الابواب، قال: والذي نفسي بيده، إن ما بين المصراعين من مصاريع الجنة كما بين مكة وهجر او كما بين مكة وبصرى".عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، ثُمَّ قَالَ: " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لا يُطِيقُونَ وَلا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ قَالَ: فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، فَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلاثَ كَذِبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ بِرِسَالاتِهِ وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتمُ الأَنْبِيَاءِ، غَفَرَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلا تَرَى مَا نَحنُ فِيهِ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الأَبْوَابِ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی دستی بلند کی گئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے دانتوں سے نوچا، پھر فرمایا: میں قیامت والے دن لوگوں کا سردار ہوں گااور کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیسے ہوگا؟ اللہ پہلے پچھلے تمام لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرے گا، پکارنے والا انہیں سنا سکے گا، نگاہ انہیں پار کر جائے گی اور سورج قریب ہو جائے گا، لوگ غم اور کرب کی (اس انتہاء کو)پہنچ جائیں گے کہ جس کی تاب رکھتے ہوں گے نہ برداشت کر پائیں گے، لوگ بعض بعض سے کہیں گے: لازماً آدم علیہ السلام کے پاس چلو، وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے باپ ہیں، اللہ نے آپ علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ علیہ السلام میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو وہ آپ علیہ السلام کے لیے سجدہ ریز ہوئے، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجئے، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے جس (پریشانی)میں ہم ہیں، کیا آپ علیہ السلام اس کی طرف نہیں دیکھ رہے جو ہم کو پہنچا، تو آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس کی مثل اس سے پہلے غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کی مثل اس کے بعد غضب ناک ہوگا اور بے شک اس نے مجھے اس درخت سے منع کیا تھا تو میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، ہائے میری جان، میری جان! جاؤ میرے غیر کی طرف، نوح علیہ السلام کی طرف جاؤ، پھر وہ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے نوح علیہ السلام! آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین والوں کی طرف پہلے رسول ہیں اور اللہ نے آپ علیہ السلام کا نام انتہائی شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے ہم کس (پریشانی)میں ہیں، کیا آپ علیہ السلام اس کی طرف نہیں دیکھ رہے جو ہم کو پہنچا؟ وہ کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس کی مثل اس سے پہلے غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کی مثال اس کے بعد غضب ناک ہوگا اور بے شک میرے لیے ایک دعا (کا اختیار)تھا اور وہ بددعا میں اپنی قوم پر کر چکا، ہائے میری جان، میری جان! میرے غیر کی طرف جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کی طرف جاؤ، وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے ابراہیم علیہ السلام! آپ علیہ السلام اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے دوست ہیں، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں، تو وہ ان سے کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کی بعد اتنا غضب ناک ہوگا اور بے شک میں نے تین خلاف واقع باتیں کی تھیں، ابو حیان (راوی)نے حدیث میں ان کو ذکر کیا ہے۔ ہائے میری جان، میری جان، میرے غیر کی طرف جاؤ، موسیٰ علیہ السلام کی طرف جاؤ۔ وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ علیہ السلام! آپ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالتوں اور کلام کے ساتھ لوگوں پر فضیلت دی، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں؟ تو وہ کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس سے پہلے اتنا غضب ناک ہوا ہے اور نہ ہی اس کے بعد اتنا غضب ناک ہوگا اور بے شک میں نے ایک ایسی جان کو قتل کیا تھا کہ جسے قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، ہائے میری جان، میری جان، میرے غیر کی طرف جاؤ، عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جاؤ۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے عیسیٰ علیہ السلام! آپ اللہ کے رسول ہیں اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو مریم علیہ السلام کی طرف ڈالا اور اس کی روح ہیں اور آپ علیہ السلام نے گود میں لوگوں سے کلام کیا، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں؟ تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس کی مثل اس سے پہلے غضب ناک ہوا اور نہ اس کی مثل اس کے بعد غضب ناک ہوگا اور کسی گناہ کا ذکر نہیں کریں گے۔ ہائے میری جان، میری جان، میرے غیر کی طر ف جاؤ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاؤ، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اورسب نبیوں کے خاتم ہیں، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیے، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجئے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں؟ میں چلوں گا اور عرش کے نیچے آجاؤں گا، پھر اپنے رب کے لیے سجدہ ریز ہوجاؤں گا، پھر اللہ میرے اوپر اپنی حمد اور اچھی تعریف میں سے وہ چیز کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر نہیں کھولی گئی ہوگی، پھر کہا جائے گا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھائیے، مانگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا، سفارش کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش قبول کی جائے گی، تو میں اپنی سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: میری امت، یا رب میری امت، یا رب میری امت! پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے اپنی امت میں اسے داخل کریں، جس پر کوئی حساب نہیں ہے اور وہ اس کے علاوہ دروازوں میں باقی لوگوں کے شریک ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے (دروازوں کے)کواڑوں میں سے دو کواڑوں کے درمیان کا (فاصلہ)ایسے ہے جیسے مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3340، 3361، 4712، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 194، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6465، 7389، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4039، 8847، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1369، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6626، 6735، 11222، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1837، 2434، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3307، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8493، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 167، والطبراني فى «الكبير» برقم: 36 الزهد، ابن مبارك فی زیادات نعیم: 110، صحیح مسلم، کتاب الایمان: 3/65، 3/69، رقم: 328، جامع ترمذي، کتاب صفة القیامة: 10، باب ما جاء فی الشفاعة: 7/121۔»