عن معمر بن راشد، عن الزهري، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: كنا جلوسا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يطلع الآن عليكم رجل من اهل الجنة"، فطلع رجل من الانصار تنطف لحيته من ماء وضوئه، قد علق نعليه بيده الشمال، فلما كان الغد، قال النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك، فطلع ذلك الرجل مثل المرة الاولى، فلما كان اليوم الثالث، قال النبي صلى الله عليه وسلم مثل مقالته ايضا، فطلع ذلك الرجل على مثل حاله الاول، فلما قام النبي صلى الله عليه وسلم تبعه عبد الله بن عمرو، فقال: إني لاحيت ابي، فاقسمت اني لا ادخل عليه ثلاثا، فإن رايت ان تؤويني إليك حتى تمضي فعلت، قال: نعم، قال انس: فكان عبد الله يحدث ان بات معه تلك الثلاث الليالي فلم يره يقوم من الليل شيئا غير انه إذا تعار تقلب على فراشه ذكر الله عز وجل، وكبر حتى صلاة الفجر، قال عبد الله: غير اني لم اسمعه يقول إلا خيرا، فلما مضت الثلاث الليالي وكدت ان احتقر عمله، قلت: يا عبد الله، لم يكن بيني وبين ابي غضب ولا هجرة، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول لك ثلاث مرات: " يطلع عليكم الآن رجل من اهل الجنة" فطلعت انت الثلاث المرات، فاردت ان آوي إليك فانظر ما عملت فاقتدي بك، فلم ار عملت كبير عمل، فما الذي بلغ بك ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما هو إلا ما رايت، فلما وليت دعاني، فقال: ما هو إلا ما رايت، غير اني لا اجد في نفسي لاحد من المسلمين غشا، ولا احسده على شيء اعطاه الله إياه، فقال له عبد الله بن عمرو: هذا الذي بلغت بك، وهي التي لا نطيق".عَنْ مَعْمَرِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَطْلع الآنَ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ"، فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ تَنْطِفُ لِحْيَتُهُ مِنْ مَاءِ وُضُوئِهِ، قَدْ عَلَّقَ نَعَلَيْهِ بِيَدِهِ الشِّمَالِ، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِثْلَ الْمَرَّةِ الأُولَى، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ أَيْضًا، فَطَلَعَ ذَلِكَ الرَّجُلُ عَلَى مِثْلِ حَالِهِ الأَوَّلِ، فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبِعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ: إِنِّي لاحَيْتُ أَبِي، فَأَقْسَمْتُ أَنِّي لا أَدْخُلُ عَلَيْهِ ثَلاثًا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُؤْوِيَنِي إِلَيْكَ حَتَّى تَمْضِيَ فَعَلْتَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُحَدِّثُ أَنْ بَاتَ مَعَهُ تِلْكَ الثَّلاثَ اللَّيَالِيَ فَلَمْ يَرَهُ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ إِذَا تَعَارَّ تَقَلَّبَ عَلَى فِرَاشِهِ ذَكَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَبَّرَ حَتَّى صَلاةِ الْفَجْرِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: غَيْرَ أَنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ يَقُولُ إِلا خَيْرًا، فَلَمَّا مَضَتِ الثَّلاثُ اللَّيَالِي وَكِدْتُ أَنْ أَحْتَقِرَ عَمَلَهُ، قُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، لَمْ يَكُنْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي غَضَبٌ وَلا هِجْرَةٌ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: " يَطْلُعُ عَلَيْكُمُ الآنَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" فَطَلَعْتَ أَنْتَ الثَّلاثَ الْمَرَّاتِ، فَأَرَدْتُ أَنْ آوِيَ إِلَيْكَ فَأَنْظُرَ مَا عَمِلْتَ فَأَقْتَدِيَ بَكَ، فَلَمْ أَرَ عَمِلْتَ كَبِيرَ عَمَلٍ، فَمَا الَّذِي بَلَغَ بِكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَا هُوَ إِلا مَا رَأَيْتَ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ دَعَانِي، فَقَالَ: مَا هُوَ إِلا مَا رَأَيْتَ، غَيْرَ أَنِّي لا أَجِدُ فِي نَفْسِي لأَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِشًّا، وَلا أَحْسُدُهُ عَلَى شَيْءٍ أَعْطَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: هَذَا الَّذِي بَلَغَتْ بِكَ، وَهِيَ الَّتِي لا نُطِيقُ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دوران ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا، کہا کہ انصار کا ایک آدمی آیا، اس کی ڈاڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا، اپنے جوتے بائیں ہاتھ میں لٹکائے ہوئے تھا۔ جب اگلا دن آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا، تو وہی آدمی آیا اور اس کی وہی پہلے والی کیفیت تھی، جب اگلا دن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ تو وہی آدمی آیا اور اس کی وہی پہلے والی حالت تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چل دئیے تو عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا اس کے پیچھے ہولیے اور اس سے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے بڑی بحث کی اور قسم اٹھائی ہے میں تین راتیں اس کے پاس نہیں ٹھہروں گا، اگر آپ میری قسم پوری کرنے کی خاطر مجھے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تو ایسا ضرور کریں،ا س نے کہا ٹھیک ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبدا للہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا بیان کرتے تھے کہ میں تین راتیں اس آدمی کے ساتھ رہا، وہ رات میں کچھ قیام نہ کرتا، ہاں جب بستر پر پہلو بدلتا تو اللہ کا ذکر کرتا اور اللہ اکبر کہتا، یہاں تک کہ نماز فجر کے لیے اٹھتا اور مکمل وضو کرتا، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مزید برآں وہ خیر بات کی ہی کہتا ہوا سنائی دیتا تھا۔ چناں چہ جب تین راتیں گزر گئیں تو میں قریب تھا کہ اس کے عمل کو حقیر جانتا، میں نے کہا: اے اللہ کے بندے! بات یہ ہے کہ میرے اور میرے باپ کے درمیان کوئی غصہ اور رنجش نہیں ہوئی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دفعہ تین مجالس میں فرماتے ہوئے سنا کہ ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا، تو تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تھے۔ میں نے ارادہ کیا کہ آپ کے پاس رہوں اور آپ کے عمل کا مشاہدہ کروں، پھر اس عمل کو اپناؤں، لیکن میں نے آپ کوکوئی بڑا عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا، پھر آپ رضی اللہ عنہ کو اس مقام پر کس چیز نے پہنچا دیا کہ جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے؟ اس نے کہا کہ وہی کچھ ہے جو تم دیکھ چکے ہو۔ میں وہاں سے چل پڑا، جب میں پلٹا تو اس نے مجھے آواز دی اور کہا کہ ہے تو وہی کچھ جو تم دیکھ چکے ہو، البتہ میں کبھی کسی مسلمان کے بار ے میں، اپنے دل میں کینہ نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی خیر و بھلائی پر، جو اس کو اللہ تعالیٰ نے مرحمت فرمائی ہے، حسد کرتاہوں، اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہی وہ عمل ہے جس نے آپ کو اس مقام پر لا کھڑا کیا اور اسی عمل کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «كتب الزهد، ابن مبارك، حديث: 241، مسند احمد، رقم: 12697.» شیخ شعیب نے اس کی سند کو علی شرط الشیخین صحیح قرار دیا ہے۔»
عن المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، انهم ذكروا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا، فقالوا: لا ياكل حتى يطعم، ولا يرحل حتى يرحل له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اغتبتموه"، فقالوا: إنما حدثنا ما فيه، قال:" فحسبك إذا ذكرت اخاك بما فيه".عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُمْ ذَكَرُوا عِنْدَ َرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلا، فَقَالُوا: لا يَأْكُلُ حَتَّى يُطْعَمَ، وَلا يَرْحَلَ حَتَّى يُرْحَلَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْتَبْتُمُوهُ"، فَقَالُوا: إِنَّمَا حَدَّثَنَا مَا فِيهِ، قَالَ:" فَحَسْبُكَ إِذَا ذَكَرْتَ أَخَاكَ بِمَا فِيهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں (صحابہ رضی اللہ عنہم (نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کاذکر کیا اور کہا کہ (کوئی)نہیں کھاتا، یہاں تک کہ وہ کھا لے اور وہ کوچ نہیں کرتا، یہاں تک کہ اس کے لیے سفر کیا جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو وہی (عیب(بیان کیا جو اس میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نے وہ (عیب(بیان کردیا جو تمہارے بھائی میں ہے تو یہی تجھے (گناہ گار بنانے کے لیے)کافی ہے۔
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك، حديث: 245، حلية الاولياء، ابو نعيم: 8/189، سلسلة الصحيحة، حديث: 2667.»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مسلمان اپنے بھائی کی تیمار داری یا اس کے ساتھ ملاقات کرتا ہے تو اللہ اس لیے فرماتا ہے، تیرا دل اچھا ہوا، تیرا چلنا اچھا ہوا اور اس نے تجھے جنت میں ایک گھر کی جگہ مہیا فرمادی۔
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي، حديث: 2008، مسند احمد (الفتح الرباني): 190، 191، سنن ابن ماجة، حديث: 1443، سلسلة الصحيحة، حديث: 2632.»
عن حماد بن سلمة، عن ثابت، عن ابي رافع، عن ابي هريرة، إن رجلا زار اخاه في قرية اخرى، فارصد الله له على مدرجته ملكا، فلما اتى عليه، قال: اين تريد؟ قال:" اريد ان ازور اخا لي في هذه القرية، قال: هل لك عليه من نعمة تربها؟ قال: لا، إلا اني احببته في الله، قال: فإني رسول الله إليك، إن الله قد احبك كما احببته".عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِنَّ رَجُلا زَارَ أَخَاهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، فَأَرْصَدَ اللَّهُ لَهُ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا، فَلَمَّا أَتَى عَلَيْهِ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ:" أُرِيدُ أَنْ أَزُورَ أَخًا لِي فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ، قَالَ: هَلْ لَكَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ: لا، إِلا أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللَّهِ، قَالَ: فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بے شک ایک آدمی اپنے ایک بھائی کی ملاقات کے لیے دوسری بستی میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر فرما دیا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے کہا تو کہاں کا ارادہ رکھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس بستی میں اپنے ایک بھائی کی ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس نے کہا کہ کیا اس نے تجھ پر کوئی احسان کیا ہے، جس کا بدلہ دینے جا رہے ہو؟ کہا کہ نہیں، میں صرف اللہ کے لیے اس سے محبت کرتا ہوں، اس نے کہا کہ بے شک میں اللہ کی طرف سے تیرے لیے پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں کہ یقینا اللہ بھی تیرے ساتھ محبت کرتا ہے، جیسا کہ تو اس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2567، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 572، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8034، والبزار فى «مسنده» برقم: 9549، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 35364، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 3794، 3795 صحیح مسلم: (16/124)38، صحیح ابن حبان: 1/475، 478، مسند أحمد (الفتح الربانی): 19/159، الزهد، ابن مبارك: 247، الأدب المفرد، حدیث: 161، تاریخ بغداد: 3/400، 11/76، 14/31»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن فرمائے گا، میرے جلال کے لیے باہم محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا،جس دن میرے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2566، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1736، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 574، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2799، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21129، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7351، 8571، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2456 صحیح مسلم، البر والصلة: 16/123 رقم: 37، مسند أحمد: 2/221، 237، 370، 535، صحیح ابن حبان: 1/477، مسند طیالسي: 2/49، موطا: 4/342، الزهد، ابن مبارك: 247، حلیة الأولیا، ابو نعیم: 6/344، تاریخ بغداد: 5/71»
عن ابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، اخبره ان ابا سالم الجيشاني، اتى ابا امية في منزله، فقال: إني سمعت ابا ذر، يقول: إنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا احب احدكم صاحبه فلياته في منزله فيخبره انه يحبه لله"، فقد جئتك في منزلك".عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَالِمٍ الْجَيْشَانِيَّ، أَتَى أَبَا أُمَيَّةَ فِي مَنْزِلِهِ، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ صَاحِبَهُ فَلْيَأْتِهِ فِي مَنْزِلِهِ فَيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ لِلَّهِ"، فَقَدْ جِئْتُكَ فِي مَنْزِلِكَ".
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، جب تم میں سے کوئی اپنے کسی ساتھی سے محبت کرے تو اس کے پاس، اس کے گھر میں آئے اور اسے خبر دے کہ بے شک وہ اللہ کے لیے اسے محبت کرتا ہے، سو میں (ابوسالم جیشانی اسی لیے)تیرے (ابوامیہ کے)پاس تیرے گھر میں آیا ہوں۔
تخریج الحدیث: «مسند احمد (الفتح الرباني)19/158، مجمع الزوائد، هیثمي: 10/281، جامع الترمذي: 2392، صحیح ابن حبان: 1/474، المورد 623، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 6/99، تاریخ بغداد: 4/59، سلسلة الصحیحة، حدیث: 417»
عن عبد الحميد بن بهرام، نا شهر بن حوشب، حدثني عبد الرحمن بن غنم، عن ابي مالك الاشعري، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قضى صلاته اقبل إلى الناس بوجهه، فقال:" يا ايها الناس، اسمعوا واعقلوا واعلموا ان لله عبادا ليسوا بانبياء، ولا شهداء، يغبطهم النبيون والشهداء على مجالسهم وقربهم من الله"، فجاء رجل من الاعراب من قاصية الناس، والوى بيده إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، من الناس ليسوا بانبياء ولا شهداء يغبطهم النبيون والشهداء على مجالسهم، وقربهم من الله انعتهم لنا، صفهم لنا، فسر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لسؤال الاعرابي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هم ناس من افناء الناس، ونوازع القبائل، لم تصل بينهم ارحام متقاربة، تحابوا في الله وتصافوا فيه، يضع الله لهم يوم القيامة منابر من نور فيجلسهم عليها، فيجعل وجوههم وثيابهم نورا، يفزع الناس يوم القيامة، ولا يفزعون، وهم اولياء الله الذين لا خوف عليهم، ولا هم يحزنون".عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، نا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَضَى صَلاتَهُ أَقْبلَ إِلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، اسْمَعُوا وَاعْقِلُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَيْسُوا بِأَنْبِيَاءَ، وَلا شُهَدَاءَ، يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ عَلَى مَجَالِسِهِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللَّهِ"، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَعْرَابِ مِنْ قَاصِيَةِ النَّاسِ، وَأَلْوَى بِيَدِهِ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مِنَ النَّاسِ لَيْسُوا بِأَنْبِيَاءَ وَلا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ عَلَى مَجَالِسِهِمْ، وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللَّهِ انْعَتْهُمْ لَنَا، صِفْهُمْ لَنَا، فَسُرَّ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسُؤَالِ الأَعْرَابِيِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُمْ نَاسٌ مِنْ أَفْنَاءِ النَّاسِ، وَنَوَازِعِ الْقَبَائِلِ، لَمْ تَصِلْ بَيْنَهُمْ أَرْحَامٌ مُتَقَارِبَةٌ، تَحَابُّوا فِي اللَّهِ وَتَصَافَوْا فِيهِ، يَضَعُ اللَّهُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ فَيُجْلِسُهُمْ عَلَيْهَا، فَيَجْعَلُ وُجُوهَهُمْ وَثِيَابَهُمْ نُورًا، يَفْزَعُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا يَفْزَعُونَ، وَهُمْ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ، وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ".
سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی نماز مکمل کی تو اپنے چہرے کے ساتھ لوگوں کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! سنو، سمجھو اور جان لوکہ یقینا اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ ہی شہید، (لیکن(انبیاء اور شہدا (بھی)ان کی مجالس اور اللہ کے قرب کی وجہ سے ان پر رشک کریں گے۔ سو دور دراز کے بدویوں میں سے ایک آدمی دو زانوں بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں میں سے کچھ ایسے جو نہ نبی ہیں، نہ شہید، (لیکن(انبیاء اور شہداء ان کی مجالس اور اللہ کے قرب کی وجہ سے، ان پر رشک کریں گے، ہمارے سامنے ان کے اوصاف ذکر فرمائیں اور ان کی تصویر کشی کریں؟ اس بدوی کے سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مسرور ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ غیر معروف لوگ ہیں، پردیسی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا باہمی تعارف، قریبی رشتہ داریوں کے باعث نہیں ہے، انہوں نے اللہ کے لیے محبت کی اور آپس میں اسی پر متفق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کے لیے نور کے منبر بنائے گا، پھر انہیں ان پر براجمان کرے گا، ان کے چہرے نورانی اور ان کے لباس بھی نورانی بنا دے گا۔ لوگ قیامت والے دن گھبراہٹ کا شکار ہوں گے، لیکن وہ نہیں گھبرائیں گے اور وہی اللہ کے دوست ہیں، کہ جن پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے۔
عن عبد الحميد، نا شهر بن حوشب، نا عائذ الله، قال عبد الحميد: وهو ابو إدريس، عن معاذ بن جبل حدثه، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الذين يتحابون من جلال الله في ظل عرش الله، يوم لا ظل إلا ظله".عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ، نا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، نا عَائِذُ اللَّهِ، قَالَ عَبْدُ الْحَمِيدِ: وَهُوَ أَبُو إِدْرِيسَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الَّذِينَ يَتَحَابُّونَ مِنْ جَلالِ اللَّهِ فِي ظِلِّ عَرْشِ اللَّهِ، يَوْمَ لا ظِلَّ إِلا ظِلُّهُ".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ بے شک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، یقینا وہ لوگ جو اللہ کے جلال کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، وہ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، جس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
انا انا عبد الحميد، نا شهر بن حوشب، حدثني ابو ظبية، ان شرحبيل بن السمط دعا عمرو بن عبسة السلمي، قال: يا ابن عبسة، هل انت محدثي حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعته انت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ليس فيه تزيد ولا كذب، ولا تحدثنيه عن آخر سمعه منه غيرك؟ قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: إن الله يقول: " قد حققت محبتي للذين يتحابون من اجلي، وقد حققت محبتي للذين يتصافون من اجلي، وقد حققت محبتي للذين يتزاورون من اجلي، وقد حققت محبتي للذين يتباذلون من اجلي، وقد حققت محبتي للذين يتناصرون من اجلي".أنا أنا عَبْدُ الْحَمِيدِ، نا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو ظَبْيَةَ، أَنَّ شُرَحْبِيلَ بْنَ السِّمْطِ دَعَا عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ السُّلَمِيَّ، قَالَ: يَا ابْنَ عَبَسَةَ، هَلْ أَنْتَ مُحَدِّثِي حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتَهُ أَنْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ فِيهِ تَزَيُّدٌ وَلا كَذِبٌ، وَلا تُحَدِّثْنِيهِ عَنْ آخَرَ سَمِعَهُ مِنْهُ غَيْرُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: " قَدْ حَقَّقْتُ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَحَابُّونَ مِنْ أَجْلِي، وَقَدْ حَقَّقْتُ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَصَافُّونَ مِنْ أَجْلِي، وَقَدْ حَقَّقْتُ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَزَاوَرُونَ مِنْ أَجْلِي، وَقَدْ حَقَّقْتُ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَبَاذَلُونَ مِنْ أَجْلِي، وَقَدْ حَقَّقْتُ مَحَبَّتِي لِلَّذِينَ يَتَنَاصَرُونَ مِنْ أَجْلِي".
شرجیل بن سمط نے عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابن عبسہ! کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کریں گے، جس میں کوئی اضافہ نہ ہو اور وہ جھوٹ بھی نہ ہو اور نہ ایسے شخص سے بیان کریں، جس نے آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ کہا کہ ہاں۔ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یقینا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تحقیق میں نے اپنی محبت ان لوگوں کے لیے ثابت کردی ہے جو میری وجہ سے باہم متفق ہوئے ہیں، بلاشبہ میں نے اپنی محبت ان لوگوں کے لیے ثابت کردی ہے جو میری وجہ سے باہم ملتے جلتے ہیں، بے شک میں نے اپنی محبت ان لوگوں کے لیے ثابت کردی ہے، جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ یقینا میں نے اپنی محبت ان لوگوں کے لیے ثابت کردی ہے، جو میری وجہ سے ایک دوسرے کی مد د کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2984، 4309، 4615، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2483، 2484، 2575، 4396، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3142، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 769، 4335، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3965، 3966، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1635، 1638، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2812، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2419، 2420، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18580، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17294، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 3165، 9080، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 1095 الزهد، ابن مبارك: 249، مؤطا: 4/349، مسند احمد (الفتح الرباني)19/159، طبراني صغیر: 2/116، صحیح الترغیب والترهیب، حدیث: 3021۔»
عن شعبة، حدثني ابو عمران الجوني، قال: سمعت رجلا من قريش يقال له: طلحة، قال: قالت عائشة: يا رسول الله، إن لي جارين فإلى ايهما اهدي؟ قال:" إلى اقربهما منك بابا".عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ: طَلْحَةُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ:" إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میرے دو ہمسائے ہیں، میں ان دونوں میں سے ہدیہ کسے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح بخاري، حدیث: 2595، الزهد، ابن مبارك: 251، تاریخ بغداد: 7/275۔»