حدثنا يزيد بن عبد ربه، حدثنا بقية، عن خالد بن يزيد، عن عطاء بن السائب، قال: سمعت محارب بن دثار، يقول: سمعت ابن عمر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " توضئوا من لحوم الإبل، ولا توضئوا من لحوم الغنم، وتوضئوا من البان الإبل، ولا توضئوا من البان الغنم، وصلوا في مرابض الغنم، ولا تصلوا في معاطن الإبل".حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَارِبَ بْنَ دِثَارٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الإِبِلِ، وَلا تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ، وَتَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الإِبِلِ، وَلا تَوَضَّئُوا مِنْ أَلْبَانِ الْغَنَمِ، وَصَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلا تُصَلُّوا فِي مَعَاطِنِ الإِبِلِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرو اور بکری کا گوشت کھانے سے وضو نہ کرو، اونٹنیوں کا دودھ پینے سے وضو کرو اور بکریوں کا دودھ پینے سے وضو نہ کرو۔ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو اور اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: الطهارة: باب ما جاء فى الوضوء من لحوم الابل: رقم الحديث: 497» محدث البانی نے اسے «وتوضواء من البان الابل ولا توضؤا من البان الغنم» کے علاوہ ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک آسمان میں رہنے والے، زمین والوں (کی باتوں) سے اذان کے سوا کچھ نہیں سنتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «المطالب العاليه لابن حجر: 1/132، ضعيف الجامع الصغير للالباني: رقم الحديث: 1835، السلسلة الضعيفه: رقم الحديث: 3173»
وعن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " المؤذنون اطول الناس اعناقا يوم القيامة، وهم اول من يكسى".وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهُمْ أَوَّلُ مَنْ يُكْسَى".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان دینے والے قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے اور انہیں سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: الصلاة: باب فضل الأذان وهرب الشيطان عند سماعه: رقم الحديث: 387: عن معاوية بن ابي سفيان، دون ”وهم اول من يكسٰي“»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال کاموں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہے۔“تخریج: سنن ابن ماجة، الطلاق، باب حدثنا سوید بن سعید، رقم الحدیث: 2018، سنن ابی داؤد، الطلاق، باب فی کراهية الطلاق، رقم الحدیث: 2178۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: الطلاق: باب حدثنا سويد بن سعيد: رقم الحديث: 2018، سنن ابي داؤد: الطلاق: باب فى كراهية الطلاق: رقم الحديث: 2178»
ہمیں حدیث بیان کی ابو امیہ نے انہوں نے کہا ہمیں حدیث بیان کی کثیر بن عبید نے انہوں نے کہا،ہمیں حدیث بیان کی محمد بن مخلد نے معرف بن واصل سے، انہوں نے محارب بن دثار سے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: الطلاق: باب حدثنا سويد بن سعيد: رقم الحديث: 2018، سنن ابي داؤد: الطلاق: باب فى كراهية الطلاق: رقم الحديث: 2178»
حدثنا كثير، حدثنا محمد بن خالد، عن الوصافي، عن محارب بن دثار، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " سماهم الله الابرار، لانهم بروا الآباء والابناء، كما ان لوالديك عليك حقا كذلك لولدك عليك حق".حَدَّثَنَا كَثِيرٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ الْوَصَّافِيِّ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَمَّاهُمُ اللَّهُ الأَبْرَارَ، لأَنَّهُمْ بَرُّوا الآبَاءَ وَالأَبْنَاءَ، كَمَا أَنَّ لِوَالِدَيْكَ عَلَيْكَ حَقًّا كَذَلِكَ لِوَلَدِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے ان کا نام ابرار (نیکوکار) رکھا ہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے والدین اور اولاد کے ساتھ نیکیاں کیں۔ جیسا کہ تیرے والدین کا تجھ پرحق ہے،ا سی طرح تیری اولاد کا بھی تجھ پرحق ہے۔“
تخریج الحدیث: «الادب المفرد للبخاري: باب بر الأب لولده: رقم الحديث: 94، مجمع الزوائد: 8/146، المعجم الكبير: رقم الحديث: 13814، السلسلة الضعيفة: 7/206: رقم الحديث: 3221» علامہ ہیثمی اور محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
وعن ابن عمر، قال:" ما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصي بالصلاة وما ملكت ايمانكم، حتى انكسر لسانه".وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" مَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِي بِالصَّلاةِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ، حَتَّى انْكَسَرَ لِسَانُهُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل نماز اور غلاموں سے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ آپ کی زبان مبارک خاموش ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: الجنائز: باب ذكر مرض رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: رقم الحديث: 1625، مسند احمد: 6/311 321: عن ام سلمة، الارواء الغليل: 7/238» محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ان سے دریافت کیا گیا: آپ دو رکنوں پر (شدید) مزاحمت کرتے ہیں، جبکہ ہم نے کسی اور کو آپ کی طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے، تو انہوں نے کہا: اگر میں اس طرح کرتا ہوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”بے شک ان کا چھونا، گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 9/513: رقم الحديث: 5701، سنن نسائي: مناسك الحج: باب ذكر الفضل فى الطواف بالبيت: رقم الحديث: 2919، صحيح ابن خزيمة: 4/218: رقم الحديث: 2729، ابن خزيمه» محدث البانی اور احمد شاکر نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقینا چغل خوری جھوٹ ہے اور کینہ اور (خاندانی و جاہلی) حمیت جہنم میں ہے۔ یہ دونوں چیز ایک مسلمان کے سینے میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔“
تخریج الحدیث: «المعجم الكبير للطبراني: 12/445: رقم الحديث: 13615، مجمع الزوائد: 2/134، الترغيب والترهيب: 3/497، الكامل لابن عدي: 5/201» اس کی سند میں عفیر بن معدان یحصبی ضعیف راوی ہے، ابن معین نے کہا: وہ کچھ بھی نہیں، احمد نے کہا منکر الحدیث ہے، امام ترمذی نے کہا: حدیث میں ضعیف ہے۔
وعن وعن عطاء، قال: كنت عند ابن عمر فسمعته، يقول:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لعن النائحة والمستمعة، والحالقة والصالقة، والواشمة، والموشومة، وقال: ليس للنساء في اتباع الجنائز اجر".وَعَنْ وَعَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَعَنَ النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ، وَالْحَالِقَةَ وَالصَّالِقَةَ، وَالْوَاشِمَةَ، وَالْمَوْشُومَةَ، وَقَالَ: لَيْسَ لِلنِّسَاءِ فِي اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ أَجْرٌ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی اور (مصیبت کے وقت) بال منڈوانے والی اور چیخ وپکار کرنے والی اور گودنے والی اور گودوانے والی عورت پرلعنت فرمائی اور فرمایا: جنازوں کے پیچھے چلنے میں عورتوں کے لیے ثواب نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «مجمع الزوائد: 3/14: رقم الحديث: 4020، السنن الكبريٰ للبيهقي: 4/105: رقم الحديث: 7114: عن ابن عمر، سنن ابي داؤد: الجنائز: باب فى النوح: رقم الحديث: 3128، مسند احمد: 3/65 مختصراً: عن ابي سعيد الارواء: 3/222» اس کی سند میں عفیر بن معدان یحصبی ضعیف راوی ہے، محدث البانی نے اس کی سند کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔