”اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ اسے ثابت قدم رکھ۔“ یہ الفاظ ثابت نہیں ہیں، بلکہ یہ مصنف کے الفاظ ہیں، لیکن حدیث سے ان کا مفہوم ثابت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: ”اپنے بھائی کے لئے بخشش طلب کرو، اور اس کی ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اس وقت اس سے پوچھا جا رہا ہے۔“[اسناده حسن، سنن ابي داؤد: 3221، المستدرك للحاكم: 1 /371ح1372، السنن الكبري للبيهقي: 4 /56]
السلام عليكم اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا، إن شاء الله بكم للاحقون {ويرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين} اسال الله لنا ولكم العافية السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ {وَيَرْحَمْ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ} أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ
”ان گھروں میں رہنے والے مؤمنوں اور مسلمانوں تم پر سلام ہو، اور یقیناً ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ ہم میں سے پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم فرمائے) میں اللہ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔“[صحيح مسلم: 974، 975، ببعض الاختلاف]
اللٰهم إني اسئلك خيرها واعوذ بك من شرها اللَٰهُمَّ إِنِّي اَسْئَلُكَ خَيْرَهَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا
”اے اللہ! میں تجھ سے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“ اصل روایت ان الفاظ کے بغیر ہے اور یہ الفاظ مصنف کی طرف سے اس حدیث کا مفہوم ہیں۔ [اسناده صحيح، سنن ابي داؤد: 5097، 5099، سنن ابن ماجه: 3727، 3882، المستدرك للحاكم: 4/ 285 ح7769]
اللٰهم إني اسالك خيرها، وخير ما فيها، وخير ما ارسلت به، واعوذ بك من شرها، وشر ما فيها، وشر ما ارسلت به اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا، وَخَيْرَ مَا فِيهَا، وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ
”اے اللہ! میں تجھ سے اس کی بھلائی، جو اس میں ہے اس کی بھلائی اور جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے اس کے شر، جو اس میں ہے اس کے شر اور جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔“[صحيح مسلم: 899]
سبحان الذي يسبح الرعد بحمده والملائكة من خيفته سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ
”پاک ہے وہ ذات جس کی تعریف کے ساتھ یہ گرج تسبیح کرتی ہے اور فرشتے اس کے خوف سے تسبیح کرتے ہیں۔“ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جب بادل گرج سنتے تو تمام باتیں چھوڑ کر یہ کلمات کہتے۔ [صحيح، موطا للامام مالك: 380/2]
”اے اللہ! ہمیں ایسی بارش سے سیراب کر جو مددگار، خوشگوار، سرسبز و شاداب، نفع بخش، نقصان نہ دینے والی، جلد برسنے والی، دیر سے برسنے والی نہ ہو۔“[اسناده حسن، سنن ابي داؤد: 1169، المستدرك للحاكم: 327/1 ح1222]
”اے اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا، اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔“[اسناده ضعيف، سنن ابي داؤد: 1176، الموطاللا مالك: 1/ 124]