والذٰاكرين اللٰه كثيرا والذٰاكرات اعد الله لهم مغفرة واجرا عظيما [ سورة الاحزاب:35]وَالذّٰاكِرِينَ اللّٰهَ كَثِيرًا وَالذّٰاكِرَاتِ أَعَدَّ اللهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا [ سورة الأحزاب:35]
”اور اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور بکثرت یاد کرنے والی عورتیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔“[سورة الأحزاب:35]
واذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ودون الجهر من القول بالغدو والآصال ولا تكن من الغافلين [ سورة الاعراف:205]وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ [ سورة الأعراف:205]
”اے انسان! اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور بلند آواز کی نسبت پست آواز کے ساتھ صبح و شام یاد کر، اور غافلوں میں سے نہ ہو جانا۔“[سورة الأعراف:205]
مثل الذي يذكر ربه والذي لا يذكر ربه، مثل الحي والميتمَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس شخص (کی مثال) جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا، زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔“[صحیح بخاری:6407] اور مسلم میں یہ الفاظ ہیں: «مَثَلُ الْبَيْتِ الَّذِي يُذْكَرُ اللهُ فِيهِ، وَالْبَيْتِ الَّذِي لَا يُذْكَرُ اللهُ فِيهِ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ» ”اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور اس گھر (کی مثال) جس میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا، زندہ اور مردہ کی مانند ہے۔“[صحیح مسلم:779]
الا انبئكم بخير اعمالكم، وازكاها عند مليككم، وارفعها في درجاتكم وخير لكم من إنفاق الذهب والورق، وخير لكم من ان تلقوا عدوكم فتضربوا اعناقهم ويضربوا اعناقكم؟ قالوا: بلى. قال: ”ذكر اللٰه تعالىٰ“أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى. قَالَ: ”ذِكْرُ اللَٰهِ تَعَالىٰ“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے بہترین (عمل) کے بارے میں نہ بتاؤں، جو تمہارے مالک کے نزدیک پاکیزہ ترین، تمہارے درجات میں بلند ترین، تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے سے اچھا اور تمہارے لئے اس بات سے بھی بہتر کہ تم اپنے دشمن سے آمنا سامنا کرو تو تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ذکر۔“[اسناده حسن، ترمذي:3377، ابن ماجه:3790]
يقول اللٰه تعالىٰ: «انا عند ظن عبدي بي، وانا معه إذا ذكرني، فإن ذكرني في نفسه ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم، وإن تقرب إلي بشبر تقربت إليه ذراعا، وإن تقرب إلي ذراعا تقربت إليه باعا، وإن اتاني يمشي اتيته هرولةيَقُولُ اللَٰهُ تَعَالىٰ: «أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میں اپنے بارے میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہترین جماعت میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ بالشت بھر میرے قریب آئے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں اگر وہ ایک ہاتھ (کے فاصلے برابر) میرے قریب آئے تو میں دو ہاتھ (پھیلانے کے فاصلے کے برابر) اس کے قریب آتا ہوں، اگر وہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آتا ہوں۔“[صحيح بخاري:7405، واللفظ لهو عنده ”شبرًا إلي“ صحيح مسلم:2675]
وعن عبد اللٰه بن بسر رضى الله عنه، ان رجلا قال: يا رسول اللٰه إن شرائع الإسلام قد كثرت علي، فاخبرني بشيء اتشبث به، قال: «لا يزال لسانك رطبا من ذكر اللٰهوَعَنْ عَبْدِ اللَٰهِ بْنِ بُسْرٍ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَٰهِ إِنَّ شَرَائِعَ الإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ: «لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَٰهِ
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر اسلام کے احکامات بہت زیادہ ہو چکے ہیں، آپ مجھے کسی ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جس پر میں مضبوطی سے (مستقل مزاجی کے ساتھ) عمل کر سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔“[اسناده حسن، سنن ترمذي:3375، ابن ماجه:3793]
من قرا حرفا من كتاب اللٰه فله به حسنة، والحسنة بعشر امثالها، لا اقول {الم} حرف، ولكن الف حرف ولام حرف وميم حرفمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَٰهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ {الم} حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے اس کے بدلے میں ایک نیکی ہے، اور ایک نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں کے برابر ہے (یعنی دس گنا اجر ملے گا) میں نہیں کہتا کہ «الم» ایک حرف ہے لیکن الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔“[اسناده حسن، سنن ترمذي:2910]
وعن عقبة بن عامر رضى اللٰہ عنه، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في الصفة، فقال: «ايكم يحب ان يغدو كل يوم إلى بطحان، او إلى العقيق، فياتي منه بناقتين كوماوين في غير إثم، ولا قطع رحم؟، فقلنا: يا رسول الله نحب ذلك، قال: افلا يغدو احدكم إلى المسجد فيعلم، او يقرا آيتين من كتاب الله عز وجل، خير له من ناقتين، وثلاث خير له من ثلاث، واربع خير له من اربع، ومن اعدادهن من الإبلوَعَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِىَ اللّٰہُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي الصُّفَّةِ، فَقَالَ: «أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى بُطْحَانَ، أَوْ إِلَى الْعَقِيقِ، فَيَأْتِيَ مِنْهُ بِنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ فِي غَيْرِ إِثْمٍ، وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ؟، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ نُحِبُّ ذَلِكَ، قَالَ: أَفَلَا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَيَعْلَمُ، أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِلِ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ہم سفر میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے اور فرمایا: ”تم میں سے کون ہے جسے یہ بات پسند ہو کہ بطاحان یا عقیق (دو وادیوں کے نام) کی طرف صبح سویرے جائے اور بڑے بڑے کوہانوں والی دو اونٹنیاں بغیر گناہ کئے اور بغیر قطع رحمی کئے لے آئے۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم سب یہ بات پسند کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو صبح سویرے مسجد کی طرف آئے اور اللہ عزوجل کی کتاب کی دو آیات سیکھے یا پڑھے یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چار آیات چار انٹنیوں سے بہتر ہیں، اور جتنی آیات ہوں گی اتنی ہی انٹنیوں سے بہتر ہیں۔“[صحيح مسلم:803]