سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو قرآن پاک کی تلاوت نے مجھ سے سوال کرنے اور میری یاد سے مشغول رکھا میں نے اس کو سوال کرنے والوں سے اچھا اجر و ثواب دیا، اور اللہ کے کلام کی بزرگی تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی بزرگی و عظمت اپنی مخلوق پر ہے۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده ضعيفان: محمد بن الحسن الهمداني وعطية العوفي، [مكتبه الشامله نمبر: 3399]» اس حدیث کی سند میں محمد بن الحسن الہمدانی اور عطیہ العوفی ضعیف ہیں، لیکن بہت سے طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2927]، [البيهقي فى الأسماء و الصفات، ص: 238] و [الاعتقاد، ص: 62] و [الشعب 2015]، [البخاري فى خلق أفعال العباد، ص: 109]، [أبونعيم فى الحلية 106/5] و [ابن كثير فى فضائل القرآن، ص: 274]۔ نیز دیکھئے: [ابن أبى شيبه 9320]، [فتح الباري 66/9] و [ابن عبدالبر فى التمهيد 45/6، وغيرهم فى كتب الرجال]
وضاحت: (تشریح احادیث 3386 سے 3388) ترمذی وغیرہ میں ہے الله تعالیٰ فرماتا ہے: جس کو مشغول کیا ..... یعنی حدیثِ قدسی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو قرآن کی تلاوت نے اوراد و وظائف اور دعا سے مشغول رکھا یعنی قرآن پڑھتا رہا دعا نہ بھی کی تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو دعا مانگنے والوں سے زیادہ دنیا و آخرت میں عطا فرمائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھنا سارے وظائف سے زیادہ افضل ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ضعيفان: محمد بن الحسن الهمداني وعطية العوفي
شہر بن حوشب نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایا: ”اللہ کے کلام کی فضیلت مخلوق کے کلام پر ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت اپنی مخلوق پر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3400]» اس حدیث کی سند حسن ہے اور مرسل ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد فى مراسيله 535]، [ابن الضريس فى فضائله 139] و [أبويعلى فى معجم شيوخه 294] و [البيهقي فى الأسماء و الصفات، ص: 239] و [في شعب الإيمان 2208]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وهو مرسل
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن پاک اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس سے زیادہ محبوب و پیارا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة وعبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3401]» اس حدیث کی سند میں «رجل من شيوخ مصر» مجہول اور عبداللہ بن صالح سییٔ الحفظ جدا ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن وتلاوته لابي الفضل عبدالرحمٰن الرازي 28]
وضاحت: (تشریح احادیث 3388 سے 3390) ان تمام احادیث سے کلام الله العزیز کی فضیلت معلوم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سب کو تدبر و تفہم سے قرآن پڑھنے اور اس پر غور کرنے کی پھر اس پر عمل کی توفیق بخشے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة وعبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک دل لگے، جب دل اُچاٹ ہو جائے تو پھر کھڑے ہو جاؤ (یعنی مجلس برخاست کر دو اور تلاوت روک دو)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3402]» اس روایت کی سند صحیح اور دوسری سند سے متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5060]، [مسلم 2667]، [أبويعلی 1519]، [ابن حبان 732]، [نسائي فى فضائل القرآن 121، 122]، [ابن كثير فى فضائله، ص: 267]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک کہ اس میں دل لگے، جب جی اُچاٹ ہونے لگے تو پڑھنا بند کر دو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على جندب، [مكتبه الشامله نمبر: 3403]» اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ امام بخاری نے اسے موصولاً روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5060]
وضاحت: (تشریح احادیث 3390 سے 3392) اس حدیث کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے کہ قرآن مجید اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل ملے جلے ہوں اور اختلاف و فساد کی نیت نہ ہو، پھر جب تم میں اختلاف پڑ جائے اور تکرار و فساد کی نیت ہو جائے تو اٹھ کھڑے ہو اور قرآن پڑھنا موقوف کر دو۔ اختلاف کر کے فساد تک نوبت پہنچانا کتنا برا ہے یہ اس سے ظاہر ہے۔ کاش مسلمان اس پر غور کریں (راز رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على جندب
(حديث موقوف) حدثنا ابو نعيم، حدثنا فطر، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي رضي الله عنه، قال: "من الناس من يؤتى الإيمان ولا يؤتى القرآن، ومنهم من يؤتى القرآن ولا يؤتى الإيمان، ومنهم من يؤتى القرآن والإيمان، ومنهم من لا يؤتى القرآن ولا الإيمان، ثم ضرب لهم مثلا، قال: فاما من اوتي الإيمان ولم يؤت القرآن، فمثله مثل التمرة حلوة الطعم، لا ريح لها، واما مثل الذي اوتي القرآن، ولم يؤت الإيمان، فمثل الآسة طيبة الريح، مرة الطعم، واما الذي اوتي القرآن والإيمان، فمثل الاترجة، طيبة الريح، حلوة الطعم، واما الذي لم يؤت القرآن ولا الإيمان، فمثله مثل الحنظلة، مرة الطعم، لا ريح لها".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "مِنَ النَّاسِ مَنْ يُؤْتَى الْإِيمَانَ وَلَا يُؤْتَى الْقُرْآنَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْتَى الْقُرْآنَ وَلَا يُؤْتَى الْإِيمَانَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْتَى الْقُرْآنَ وَالْإِيمَانَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْتَى الْقُرْآنَ وَلَا الْإِيمَانَ، ثُمَّ ضَرَبَ لَهُمْ مَثَلًا، قَالَ: فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ الْإِيمَانَ وَلَمْ يُؤْتَ الْقُرْآنَ، فَمَثَلُهُ مَثَلُ التَّمْرَةِ حُلْوَةُ الطَّعْمِ، لَا رِيحَ لَهَا، وَأَمَّا مَثَلُ الَّذِي أُوتِيَ الْقُرْآنَ، وَلَمْ يُؤْتَ الْإِيمَانَ، فَمَثَلُ الْآسَةِ طَيِّبَةُ الرِّيحِ، مُرَّةُ الطَّعْمِ، وَأَمَّا الَّذِي أُوتِيَ الْقُرْآنَ وَالْإِيمَانَ، فَمَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ، طَيِّبَةُ الرِّيحِ، حُلْوَةُ الطَّعْمِ، وَأَمَّا الَّذِي لَمْ يُؤْتَ الْقُرْآنَ وَلَا الْإِيمَانَ، فَمَثَلُهُ مَثَلُ الْحَنْظَلَةِ، مُرَّةُ الطَّعْمِ، لَا رِيحَ لَهَا".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کو ایمان دیا جاتا ہے لیکن قرآن نہیں دیا جاتا ہے، اور ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کو قرآن ملتا ہے ایمان نہیں ملتا، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو قرآن اور ایمان دونوں ملتے ہیں، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو نہ ایمان دیا جاتا ہے اور نہ قرآن۔ پھر ان کی مثال دیتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جس کو ایمان دیا گیا اور قرآن نہیں ملا اس کی مثال کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ میٹھا لیکن خوشبو نہیں ہوتی، اور جس کو قرآن ملا ایمان نہیں ملا اس کی مثال دوا کی سی ہے جس کی مہک اچھی ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور جسے قرآن و ایمان دونوں ملے اس کی مثال نارنگی (میٹھا لیموں) کی سی ہے جس کی خوشبو اچھی اور ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے، اور جس کو نہ قرآن ملا نہ ایمان اس کی مثال اندرائن کی سی ہے جس کا مزہ کڑوا اور کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فطر بن خليفة لم يذكر فيمن رووا قديما عن أبي إسحاق وهو موقوف على علي، [مكتبه الشامله نمبر: 3405]» اس اثر کی سند ضعیف و موقوف ہے، لیکن موصولاً اس کے مثل صحیح روایت بھی ہے، «كما سيأتي» ۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 387] و [ابن أبى شيبه مختصرًا 10220]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فطر بن خليفة لم يذكر فيمن رووا قديما عن أبي إسحاق وهو موقوف على علي
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن انس بن مالك، عن ابي موسى الاشعري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "مثل المؤمن الذي يقرا القرآن، مثل الاترجة، طعمها طيب، وريحها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن، مثل التمرة، طعمها حلو، وليس لها ريح، ومثل المنافق الذي يقرا القرآن، مثل الريحانة، ريحها طيب، وطعمها مر، ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن، مثل الحنظلة، ليس لها ريح، وطعمها مر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، مَثَلُ التَّمْرَةِ، طَعْمُهَا حُلْوٌ، وَلَيْسَ لَهَا رِيحٌ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، مَثَلُ الرَّيْحَانَةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، مَثَلُ الْحَنْظَلَةِ، لَيْسَ لَهَا رِيحٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مؤمن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا مزہ لذیذ اور خوشبو بہترین ہوتی ہے، اور جو مؤمن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے جس کا مزہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن خوشبو نہیں ہوتی، اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحانہ (پھول) کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور وہ منافق جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا اس کی مثال اندرائن کی سی ہے جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3406]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5020]، [مسلم 797]، [أبوداؤد 4829]، [ترمذي 2865]، [نسائي 5053]، [ابن ماجه 214]، [أبويعلی 7237]، [ابن حبان 121، 770]، [السخاوى جمال القراء 151/1]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث موقوف) اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، قال: "مثل الذي اوتي الإيمان ولم يؤت القرآن مثل التمرة، طعمها طيب، ولا ريح لها، ومثل الذي اوتي القرآن ولم يؤت الإيمان مثل الريحانة الآسة، ريحها طيب، وطعمها مر، ومثل الذي اوتي القرآن والإيمان مثل الاترجة، ريحها طيب، وطعمها طيب، ومثل الذي لم يؤت الإيمان ولا القرآن مثل الحنظلة، ريحها خبيث، وطعمها خبيث".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: "مَثَلُ الَّذِي أُوتِيَ الْإِيمَانَ وَلَمْ يُؤْتَ الْقُرْآنَ مَثَلُ التَّمْرَةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الَّذِي أُوتِيَ الْقُرْآنَ وَلَمْ يُؤْتَ الْإِيمَانَ مَثَلُ الرَّيْحَانَةِ الْآسَةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الَّذِي أُوتِيَ الْقُرْآنَ وَالْإِيمَانَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ، رِيحُهَا طَيِّبٌ، وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الَّذِي لَمْ يُؤْتَ الْإِيمَانَ وَلَا الْقُرْآنَ مَثَلُ الْحَنْظَلَةِ، رِيحُهَا خَبِيثٌ، وَطَعْمُهَا خَبِيثٌ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کی مثال جس کو ایمان دیا گیا اور قرآن نہیں دیا گیا کھجور کی سی ہے جس کا مزہ لذیذ ہوتا ہے لیکن کوئی خوشبو نہیں ہوتی، اور اس کی مثال جس کو قرآن دیا گیا ایمان نہیں دیا گیا ریحانہ (پھول) کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہوتی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور اس کی مثال جس کو قرآن اور ایمان دونوں دئیے گئے سنگترے (نارنگی) جیسی ہے جس کا مزہ لذیذ اور خوشبو بہترین ہوتی ہے، اور اس کی مثال جس کو نہ قرآن دیا گیا اور نہ ایمان اندرائن جیسی ہے کہ اس کی مہک خراب (بدبودار) اور مزہ (ذائقہ) بھی خراب ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3407]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 387]
وضاحت: (تشریح احادیث 3392 سے 3396) ان احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ مؤمن اور منافق کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ مؤمن جو قرآن پڑھتا ہے اور ایک وہ جو قرآن نہیں پڑھتا، اسی طرح ایک وہ منافق جو قرآن پڑھتا ہے اور ایک وہ جو قرآن نہیں پڑھتا، قرآن پڑھنے والا مؤمن سنگترے کی طرح ہے اور نہ پڑھنے والا کھجور کی طرح ہے، اور قرآن پڑھنے والا منافق ریحانہ کی طرح اور نہ پڑھنے والا اندرائن کی طرح۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ایمان اور قرآن والا بنائے، آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، حدثني عامر بن واثلة: ان نافع بن عبد الحارث لقي عمر بن الخطاب بعسفان، وكان عمر استعمله على اهل مكة، فسلم على عمر، فقال له عمر: من استخلفت على اهل الوادي؟ فقال نافع: استخلفت عليهم ابن ابزى، فقال عمر: ومن ابن ابزى؟ فقال: مولى من موالينا، فقال عمر: فاستخلفت عليهم مولى؟ فقال: يا امير المؤمنين، إنه قارئ لكتاب الله، عالم بالفرائض، فقال عمر: اما إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "إن الله يرفع بهذا الكتاب اقواما، ويضع به آخرين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ: أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَنْ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ فَقَالَ نَافِعٌ: اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أَبْزَى، فَقَالَ عُمَرُ: وَمَنْ ابْنُ أَبْزَى؟ فَقَالَ: مَوْلًى مِنْ مَوَالِينَا، فَقَالَ عُمَرُ: فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ".
عامر بن واثلہ نے بیان کیا کہ نافع بن عبدالحارث عسفان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملے جن کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ پر حاکم مقرر کیا تھا، (امیر المومنین) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے اہل وادی (مکہ والوں) پر کس کو اپنا نائب مقرر کیا؟ نافع نے کہا: میں نے ان پر ابن ابزی کو اپنا نائب بنا دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن ابزی کون ہیں؟ عرض کیا: وہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک آزاد کئے ہوئے غلام ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ان پر مولی کو خلیفہ بنا دیا، انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! وہ قرآن کے قاری اور فرائض کے عالم ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو اس قرآن کی برکت سے بلند کرے گا اور دوسروں کو زیر کرے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3408]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 817]، [ابن ماجه 218]، [أبويعلی 210]، [ابن حبان 772]، [طحاوي فى مشكل الآثار 57/3]، [عبدالرزاق 20943]، [أبوالفضل الرازي فى فضائل القرآن 63]
وضاحت: (تشریح حدیث 3396) مطلب یہ ہے کہ جو اس قرآن کے تابع فرمان ہوں گے دنیا میں حکومت اور آخرت میں جنّت پائیں گے، اور جو منکر ہوں گے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عقوبت اٹھائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سو فیصد صحیح ثابت ہوا، عرب کی وہ قوم جن میں چند پڑھے لکھے لوگ تھے لیکن صدیوں دنیا کے ایک معتد بہ حصہ پر حکومت کرتے رہے، اللہ تعالیٰ نے موالی اور غلاموں کو بھی اسلام میں داخل ہونے کے بعد سر بلندی عطا ء کی، سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا مقام وہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جنّت میں اپنے آگے ان کی آہٹ سنتے ہیں، اسی طرح یہ آزاد کردہ غلام ابن ابزی ہیں جو قرآن پاک کی وجہ سے اہلِ مکہ کے حاکم بنتے ہیں۔ «اَللّٰهُمَّ انْفَعْنَا بِكِتَابِكَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ.» آمین۔