(حديث موقوف) اخبرنا محمد بن المبارك، حدثنا صدقة بن خالد، عن ابن جابر، حدثنا شيخ يكنى ابا عمرو، عن معاذ بن جبل، قال: "سيبلى القرآن في صدور اقوام كما يبلى الثوب، فيتهافت، يقرءونه لا يجدون له شهوة ولا لذة، يلبسون جلود الضان على قلوب الذئاب، اعمالهم طمع لا يخالطه خوف، إن قصروا، قالوا: سنبلغ، وإن اساءوا، قالوا: سيغفر لنا، إنا لا نشرك بالله شيئا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ يُكَنَّى أَبَا عَمْرٍو، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: "سَيَبْلَى الْقُرْآنُ فِي صُدُورِ أَقْوَامٍ كَمَا يَبْلَى الثَّوْبُ، فَيَتَهَافَتُ، يَقْرَءُونَهُ لَا يَجِدُونَ لَهُ شَهْوَةً وَلَا لَذَّةً، يَلْبَسُونَ جُلُودَ الضَّأْنِ عَلَى قُلُوبِ الذِّئَابِ، أَعْمَالُهُمْ طَمَعٌ لَا يُخَالِطُهُ خَوْفٌ، إِنْ قَصَّرُوا، قَالُوا: سَنَبْلُغُ، وَإِنْ أَسَاءُوا، قَالُوا: سَيُغْفَرُ لَنَا، إِنَّا لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: کچھ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم ایسے ہی پرانا ہو جائے گا جیسے کپڑا پرانا ہو جاتا ہے، لوگ اس کو پڑھیں گے لیکن اس میں رغبت و لذت نہ پائیں گے، ایسے لوگ پگھلنے والے دلوں پر میڈھوں کی کھال پہنیں گے، ان کے اعمال میں لالچ ہو گا، خوف الٰہی اس میں نہ ہو گا، اگر ان سے کوتاہی ہو گی تو کہیں گے ہم عنقریب (منزل مقصود کو) پہنچ جائیں گے، اور اگر گناہ کریں گے تو کہیں گے ہماری مغفرت کر دی جائے گی کیوں کہ ہم اللہ کے ساتھ کوئی شرک نہیں کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى معاذ وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3389]» اس حدیث کی سند سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ تک صحیح و موقوف ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى معاذ وهو موقوف عليه
(حديث مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد، عن شعبة، عن منصور قال: سمعت ابا وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم: "قال بئسما لاحدكم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت، بل هو نسي، واستذكروا القرآن، فإنه اسرع تفصيا من صدور الرجال من النعم من عقلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَالَ بِئْسَمَا لِأَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ، وَاسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ أَسْرَعُ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنْ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت برا ہے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ) مجھے بھلا دیا گیا، اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسان کے دلوں میں دور ہو جانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے بڑھ کر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3390]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5032]، [مسلم 790]، [ترمذي 2944]، [نسائي 942]، [أبويعلی 5136]، [ابن حبان 762]، [الحميدي 91] و [موارد الظمآن 1784]
وضاحت: (تشریح احادیث 3372 سے 3379) «نَسِيْتُ» یعنی میں بھول گیا۔ یہ کہنے سے اس لئے منع کیا گیا کہ اس عبارت سے ایسا لگتا ہے کہ بھولنا اس کا اختیاری فعل ہے، حالانکہ یہ تو الله تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، چاہے جس کے دل میں قرآن بسا دے اور جس کے دل سے چاہے اس کو مٹا دے۔ « ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾[الجمعة: 4] »
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا موسى يعني ابن علي، قال: سمعت ابي، قال: سمعت عقبة بن عامر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تعلموا كتاب الله وتعاهدوه، وتغنوا به واقتنوه، فوالذي نفسي بيده او: فوالذي نفس محمد بيده لهو اشد تفلتا من المخاض في العقل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي ابْنَ عُلَيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُول: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعَلَّمُوا كِتَابَ اللَّهِ وَتَعَاهَدُوهُ، وَتَغَنَّوْا بِهِ وَاقْتَنُوهُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَوْ: فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِن الْمَخَاضِ فِي الْعُقُلِ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب کو پڑھو اور اس کی حفاظت کرو (یعنی بار بار دہراؤ) اس سے گنگناؤ اور اس کو لازم پکڑو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (یا یہ کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے) کیوں کہ وہ دور ہو جانے میں اونٹ کے بھاگ جانے سے بڑھ کر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3391]» اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن موقوف على سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ ہے، آگے موصول روایت بھی آرہی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 146/4]، [ابن أبى شيبه 10040]، [نسائي فى فضائل القرآن 59-60]
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، قال حدثني موسى عن ابيه، عن عقبة بن عامر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "تعلموا كتاب الله تعالى وتعاهدوه، واقتنوه وتغنوا به، فوالذي نفسي بيده، لهو اشد تفلتا من المخاض في العقل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "تَعَلَّمُوا كِتَابَ اللَّهِ تَعَالَى وَتَعَاهَدُوهُ، وَاقْتَنُوهُ وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنْ الْمَخَاضِ فِي الْعُقُلِ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب پڑھو، اس کو یاد کرو، اس سے چمٹے رہو، اور اس سے گنگناؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ بھول جانے میں اونٹ کے بھاگ جانے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے۔“(یعنی جس طرح اونٹ بھاگ جاتا ہے قرآن پاک بھی دلوں سے محو ہو جاتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 3392]» عبداللہ بن صالح کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 119]، [نسائي فى فضائل القرآن 60]، [طبراني فى الكبير 290/17، 800]، و [الأوسط 3211]، [موارد الظمآن 1788]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ قرآن پاک کو اپنے چہرے سے لگاتے اور کہتے تھے: میرے رب کی کتاب ہے، یہ میرے پروردگار کی کتاب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع ابن أبي ملكية لم يدرك عكرمة وهو موقوف أيضا على عكرمة، [مكتبه الشامله نمبر: 3393]» اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، کیوں کہ ابن ابی ملیکہ نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کو پایاہی نہیں، نیز یہ اثر سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ پر ہی موقوف ہے یعنی ان کا اپنا فعل ہے۔ دیکھئے: [طبراني 371/17، 1018]، [الحاكم 243/3]، [البيهقي فى الشعب 2229]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع ابن أبي ملكية لم يدرك عكرمة وهو موقوف أيضا على عكرمة
ثابت نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک قرآن پڑھتے رہتے۔ راوی نے کہا: اور ثابت بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ثابت وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3394]» اس اثر کی سند ثابت تک صحیح اور موقوف علیہ ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 751]
وضاحت: (تشریح احادیث 3379 سے 3383) ان تمام آثار و احادیث میں قرآن پاک پڑھنے، اسے حفظ کرنے، یاد رکھنے، اور اس سے برابر لگاؤ رکھنے کی ترغیب ہے، اور اس سے ڈرایا گیا ہے کہ یاد کر کے ایک مسلمان اس کو پسِ پشت نہ ڈالے، اس کو دہراتا رہے اور عمل بھی کرے، قرآن پاک کا یہ معجزہ بھی ان میں مذکور ہے کہ بار بار پڑھنے سے اور تازگی آتی ہے، اکتاہٹ نہیں ہوتی، کتنے ایسے مسلمان ہیں جو پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی قرآن کو نہ کھول کر دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا: اے اللہ کی نبی! میں کتنے دن میں قرآن پاک ختم کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ایک مہینہ میں، عرض کیا: میں زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: پچیس دن میں، پھر بیس دن میں، یہاں تک کہ کہا: پانچ دن میں۔ یہ روایت آگے (3518) نمبر پر آرہی ہے۔ ایک اور روایت میں کم سے کم تین دن میں قرآن پاک ختم کرنے کا حکم ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک مہینے میں ایک قرآن ضرور ختم کرنا چاہئے، اور کم سے کم تین دن میں۔ تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کم میں ختمِ قرآن کرنے والا کچھ نہ سمجھے گا۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجه 1347] ۔ الله تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن پاک پڑھنے اور اس کو یاد کرنے نیز سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیقِ ارزانی نصیب فرمائے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ثابت وهو موقوف عليه
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، عن يزيد بن زريع، عن سعيد، عن قتادة، قال: إن الله لا يستحيي ان يضرب مثلا ما بعوضة فما فوقها فاما الذين آمنوا فيعلمون انه الحق من ربهم واما الذين كفروا فيقولون ماذا اراد الله بهذا مثلا يضل به كثيرا ويهدي به كثيرا وما يضل به إلا الفاسقين سورة البقرة آية 26، قال: "اي يعلمون انه كلام الرحمن".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ سورة البقرة آية 26، قَالَ: "أَيْ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ كَلَامُ الرَّحْمَنِ".
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: اس آیت: «﴿فَأَمَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ . . . . . .﴾»[البقره: 26/2] سے مراد یہ ہے کہ مومنین جانتے ہیں کہ یہ رحمٰن کا کلام ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3395]» اس اثر کی سند قتادہ رحمہ اللہ تک صحیح اور انہیں پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 180/1]
عطیہ بن قیس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ کے نزدیک کسی کا کلام اس کے اپنے کلام سے زیادہ عظیم نہیں ہے، اور بندے کوئی کلام نہیں پڑھتے ہیں جو اللہ کے نزدیک اس کے اپنے کلام سے زیاده محبوب ہو۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده ضعيفان: عبد الله بن صالح وأبو بكر بن أبي مريم وهو أيضا مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3396]» اس اثر کی سند میں عبداللہ بن صالح اور ابوبکر بن ابی مریم ضعیف، اور عطیہ کی مرسل روایت ہے۔ دیکھئے: [البيهقي فى الأسماء والصفات، ص: 244]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ضعيفان: عبد الله بن صالح وأبو بكر بن أبي مريم وهو أيضا مرسل
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے زمانے میں عرفات میں اپنے کو حجاج کے سامنے پیش کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”کوئی آدمی مجھے اپنی قوم کی پناہ میں لے سکتا ہے؟ کیوں کہ قریش نے مجھے اپنے پروردگار کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3397]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 390/3]، [أبوداؤد 4734]، [ترمذي 2926]، [ابن ماجه 201]، [بخاري فى خلق أفعال العباد، ص: 60]، [ابن أبى شيبه 310/14، 18431]، [البيهقي فى الاعتقاد، ص: 61]، [أبونعيم دلائل النبوة 217]، [الحاكم 613/2]، [ابن كثير فى البداية والنهاية 146/3] و [البيهقي فى شعب الإيمان 118]
وضاحت: (تشریح احادیث 3383 سے 3386) اس حدیث سے معلوم ہوا قرآن پاک اللہ کا کلام ہے۔
ابوالزعراء نے کہا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا کر دھوکے میں نہ پڑنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 3398]» لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور ابوالزعراء: عبداللہ بن ہانی ہے۔ دیکھئے: [الأسماء والصفات للبيهقي، ص: 242] و [شعب الإيمان 189/1 و الاعتقاد له ايضًا ص: 64] و [الشريعة للآجري، ص: 78، وغيرهم]۔ بعض نسخ میں «فَلَا يَغُرَّنَّكُمْ» کی جگہ «فَلَا أَعْرِفَنَّكُمْ» ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم