(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا شعبة، حدثنا ابو إسحاق، عن ابي حبيبة، قال: سالت ابا الدرداء عن رجل جعل دراهم في سبيل الله، فقال ابو الدرداء: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مثل الذي يتصدق عند موته او يعتق، كالذي يهدي بعد ما شبع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ عَنْ رَجُلٍ جَعَلَ دَرَاهِمَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الَّذِي يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ أَوْ يُعْتِقُ، كَالَّذِي يُهْدِي بَعْدَ مَا شَبِعَ".
ابوحبیبہ نے کہا: میں نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ایک آدمی نے اپنے روپئے پیسے فی سبیل اللہ وقف کر دیئے ہوں اس کا کیا حکم ہے؟ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنہ نے فرمایا: ”جو آدمی اپنی موت کے وقت صدقہ کرتا ہے، یا آزادی دیتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو شکم سیر ہونے کے بعد ہدیہ دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3269]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3968]، [ترمذي 2123]، [نسائي 3644]، [ابن حبان 3336]، [موارد الظمآن 1219]، [عبدالرزاق 16740]
وضاحت: (تشریح احادیث 3255 سے 3258) ان احادیث میں صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب ہے۔ صحیح متفق علیہ حدیث میں ہے: ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کون سا صدقہ اجر کے اعتبار سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا صدقہ کرنا جب کہ تو تندرست و توانا ہو، مال کی حرص دل میں ہو، تجھے فقر کا اندیشہ ہو، تونگری کی امید ہو، اور تو صدقہ کرنے میں تأخیر نہ کر، یہاں تک کہ جب روح گلے تک پہنچ جائے تو کہے: فلاں کے لئے اتنا، فلاں کے لئے اتنا، جب کہ وہ فلاں (وارث) کے لئے ہو چکا۔ [بخاري: 1419] و [مسلم: 1032] ۔ معلوم ہوا صدقہ وہی افضل ہے جو انسان صحت کی حالت میں کرے، موت کے آثار شروع ہونے کے بعد صدقہ کرنا ویسے ہی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا: پیٹ بھرنے کے بعد باقی ماندہ کھانا کوئی خیرات کرے۔ نیز یہ کہ موت کے وقت آدمی ایک تہائی مال سے زیادہ صدقہ کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ اس وقت مال وارثوں کا حق بن جاتا ہے، جسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حد مقرر فرما دی کہ موت کے وقت کوئی اپنا مال صدقہ کرے تو وہ ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، اس لئے آدمی کو صدقہ کرنے میں تأخیر نہیں کرنی چاہیے۔ (حافظ صلاح الدین یوسف)۔
(حديث مقطوع) حدثنا الحسن بن بشر، حدثنا المعافى، عن عثمان بن الاسود، عن عطاء، قال: "من اوصى او اعتق، فكان في وصيته عول، دخل العول على اهل العتاقة، واهل الوصية". قال عطاء: إن اهل المدينة غلبونا، يبدءون بالعتاقة قبل.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: "مَنْ أَوْصَى أَوْ أَعْتَقَ، فَكَانَ فِي وَصِيَّتِهِ عَوْلٌ، دَخَلَ الْعَوْلُ عَلَى أَهْلِ الْعَتَاقَةِ، وَأَهْلِ الْوَصِيَّةِ". قَالَ عَطَاءٌ: إِنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ غَلَبُونَا، يَبْدَءُونَ بِالْعَتَاقَةِ قَبْلُ.
عطاء سے مروی ہے کوئی آدمی وصیت کرے اور (غلام) آزاد کرے اور اس کی وصیت میں عول ہو (یعنی حصص زیادہ ہوں) تو یہ عول آزادی اور وصیت والے سب لوگوں پر ہو گا۔ عطاء نے کہا: اہل مدینہ اس مسئلہ میں ہم پر غالب آ گئے، وہ آزادی سے ابتداء کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3272]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ معافیٰ: ابن عمران، اور عطاء: ابن ابی رباح ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10934]، [عبدالرزاق 16748]، [البيهقي 277/6]
(حديث مقطوع) حدثنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن منصور، عن إبراهيم، قال: "يبدا بالعتاقة قبل الوصية".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "يُبْدَأُ بِالْعَتَاقَةِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: آزاد کرنے کو وصیت پر مقدم رکھاجائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3275]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10931]، [ابن منصور 397، 402]، [البيهقي 277/6]
وضاحت: (تشریح احادیث 3258 سے 3264) ان تمام آثار سے ثابت ہوا کہ مختلف وصایا میں عتاق (آزادی) سب پر مقدم ہوگی، اس سے اسلام میں غلام آزاد کرنے کی زبردست ترغیب ہے، اور اس کا بہت بڑا اجر و ثواب ہے۔ افریقہ میں اس وقت بھی غلامی کا دور ہے اور وہاں غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا المعلى بن اسد، قال: حدثنا وهيب، عن يونس، عن الحسن:"في الرجل يوصي لبني فلان، قال: غنيهم وفقيرهم وذكرهم وانثاهم سواء".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ:"فِي الرَّجُلِ يُوصِي لِبَنِي فُلَانٍ، قَالَ: غَنِيُّهُمْ وَفَقِيرُهُمْ وَذَكَرُهُمْ وَأُنْثَاهُمْ سَوَاءٌ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی کسی کی اولاد کے لئے وصیت کرے تو اس وصیت میں مال دار، محتاج، مرد و عورت سب برابر ہوں گے۔ یعنی سب کو ثلث میں سے برابر کا حصہ دیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3276]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10803]، [ابن منصور 366]
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی کسی کی اولاد کے لئے وصیت کرے تو اس میں مرد و عورت سب برابر ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عمرو، [مكتبه الشامله نمبر: 3277]» عمرو کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری حسن سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 365]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عمرو
(حديث مقطوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زائدة بن موسى الهمداني، حدثني سيار بن ابي كرب:"ان آتيا اتى شريحا، فساله عن رجل اوصى بسهم من ماله، قال: تحسب الفريضة، فما بلغ سهامها، اعطي الموصى له سهما كاحدها".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ مُوسَى الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنِي سَيَّارُ بْنُ أَبِي كَرِبٍ:"أَنَّ آتِيًا أَتَى شُرَيْحًا، فَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ أَوْصَى بِسَهْمٍ مِنْ مَالِهِ، قَالَ: تُحْسَبُ الْفَرِيضَةُ، فَمَا بَلَغَ سِهَامَهَا، أُعْطِيَ الْمُوصَى لَهُ سَهْمًا كَأَحَدِهَا".
سیار بن ابی کرب نے بیان کیا کہ ایک آدمی قاضی شریح کے پاس آیا اور اس نے سوال کیا: کوئی آدمی اپنے مال کے ایک حصہ کی وصیت کرے، تو انہوں نے کہا: یہ فریضہ میں شامل ہو گا، جتنے حصے ہوں اس میں سے ایک حصہ جس کے لئے وصیت کی ہے دیگر سہام کی طرح اس کو بھی دیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3278]» اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10846]، [ابن منصور 364]۔ بعض نسخ میں «إن ثابتا آتی شريحا» ہے، جو تحریف ہے کیوں کہ مذکور بالا مصادر میں «إن آتيا» اور «إن رجلا آتی شريحا» کی صراحت ہے۔