(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا شعبة، حدثنا ابو إسحاق، عن ابي حبيبة، قال: سالت ابا الدرداء عن رجل جعل دراهم في سبيل الله، فقال ابو الدرداء: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مثل الذي يتصدق عند موته او يعتق، كالذي يهدي بعد ما شبع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ عَنْ رَجُلٍ جَعَلَ دَرَاهِمَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الَّذِي يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ أَوْ يُعْتِقُ، كَالَّذِي يُهْدِي بَعْدَ مَا شَبِعَ".
ابوحبیبہ نے کہا: میں نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ایک آدمی نے اپنے روپئے پیسے فی سبیل اللہ وقف کر دیئے ہوں اس کا کیا حکم ہے؟ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنہ نے فرمایا: ”جو آدمی اپنی موت کے وقت صدقہ کرتا ہے، یا آزادی دیتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو شکم سیر ہونے کے بعد ہدیہ دیتا ہے۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 3255 سے 3258) ان احادیث میں صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب ہے۔ صحیح متفق علیہ حدیث میں ہے: ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کون سا صدقہ اجر کے اعتبار سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا صدقہ کرنا جب کہ تو تندرست و توانا ہو، مال کی حرص دل میں ہو، تجھے فقر کا اندیشہ ہو، تونگری کی امید ہو، اور تو صدقہ کرنے میں تأخیر نہ کر، یہاں تک کہ جب روح گلے تک پہنچ جائے تو کہے: فلاں کے لئے اتنا، فلاں کے لئے اتنا، جب کہ وہ فلاں (وارث) کے لئے ہو چکا۔ [بخاري: 1419] و [مسلم: 1032] ۔ معلوم ہوا صدقہ وہی افضل ہے جو انسان صحت کی حالت میں کرے، موت کے آثار شروع ہونے کے بعد صدقہ کرنا ویسے ہی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا: پیٹ بھرنے کے بعد باقی ماندہ کھانا کوئی خیرات کرے۔ نیز یہ کہ موت کے وقت آدمی ایک تہائی مال سے زیادہ صدقہ کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ اس وقت مال وارثوں کا حق بن جاتا ہے، جسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا جا سکتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حد مقرر فرما دی کہ موت کے وقت کوئی اپنا مال صدقہ کرے تو وہ ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، اس لئے آدمی کو صدقہ کرنے میں تأخیر نہیں کرنی چاہیے۔ (حافظ صلاح الدین یوسف)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3269]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3968]، [ترمذي 2123]، [نسائي 3644]، [ابن حبان 3336]، [موارد الظمآن 1219]، [عبدالرزاق 16740]