(حديث مقطوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ابي عبد الله الشقري، وابي هاشم، عن إبراهيم، قال: "المدبر من جميع المال".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الشَّقَرِيِّ، وَأَبِي هَاشِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "الْمُدَبَّرُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: غلام مدبرمیت کے پورے مال سے آزاد ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3321]» اس اثر کی سند میں ابوعبداللہ شقری ہیں، تستری محرف ہے۔ ابراہیم رحمہ اللہ تک اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 470]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے کہا: موت کے بعد آزاد ہونے والا غلام کل مال سے آزاد ہو گا، راوی نے کہا: امام ابومحمد دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ کی کیا رائے ہے؟ کہا: تہائی مال سے آزاد ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3322]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوعوانہ: وضاح یشکری، اور ابوبشر: جعفر بن ایاس ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1915]، [ابن منصور 474]
وضاحت: (تشریح احادیث 3305 سے 3311) آخر کے دو قول یہ ہیں کہ مدبر پورے مال سے آزاد ہو گا، باقی تمام اقوال یہ ہیں کہ ثلث مال سے آزاد ہوگا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی اس قول کو ترجیح دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی مال اور غلام چھوڑے جس کو مدبر کیا ہو، اگر اس کی قیمت ایک ثلث کے برابر ہو تو وہ آزاد ہو گا، اس سے زیادہ ہو تو بقدرِ ثلث آزاد ہوگا، اور باقی دو ثلث ورثاء میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سعيد بن المغيرة، حدثنا مخلد، عن هشام، عن الحسن، قال: "لا تشهد على وصية حتى تقرا عليك، ولا تشهد على من لا تعرف".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "لَا تَشْهَدْ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى تُقْرَأَ عَلَيْكَ، وَلَا تَشْهَدْ عَلَى مَنْ لَا تَعْرِفُ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کسی وصیت پر گواہ نہ بنو یہاں تک کہ وہ تم کو سنائی جائے، اور جس کو جانتے نہیں اس کی گواہی نہ دو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3323]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اور مخلد: ابن الحسین ہیں، اس کے ہم معنی [ابن أبى شيبه 18091] نے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 3311) امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے: وہ سورج کی طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے: «على مثل هذه أشهد» سورج کی طرح واضح چیز کی گواہی دو، اور جھوٹی گواہی سے شریعت نے روکا ہے «ألا و شهادة الزور.» اور قرآن پاک میں ہے: « ﴿وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ﴾[الحج: 30] » یعنی ”جھوٹی گواہی دینے سے بچو۔ “ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کی ماؤں کے لئے چار ہزار کی وصیت کی، ان میں سے ہر ایک عورت کے لئے چار ہزار کی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن منقطع الحسن لم يسمع من عمر، [مكتبه الشامله نمبر: 3324]» اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن سند میں انقطاع ہے۔ حسن رحمہ اللہ کا لقاء سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11021]، [عبدالرزاق 16458]، [ابن منصور 438]
وضاحت: (تشریح حدیث 3312) «أمهات أولاده» سے مراد وہ لونڈیاں ہیں جن سے ان کا مالک جماع کرے اور ان سے اولاد ہو جائے، ان کے لئے کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اس لئے وصیت میں ان کے لئے مالک کچھ حصہ مقرر کر سکتا ہے۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن منقطع الحسن لم يسمع من عمر
(حديث مقطوع) حدثنا يحيى بن حسان، انبانا ابن ابي الزناد، عن ابيه، عن عمر بن عبد العزيز: انه "اجاز وصية ابن ثلاث عشرة سنة".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، أنبأنا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ: أَنَّهُ "أَجَازَ وَصِيَّةَ ابْنِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً".
عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے تیرہ سال کے لڑکے کی وصیت کو جائز قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3325]» اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10898]، [عبدالرزاق 16416، 16419]
(حديث مقطوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، قال:"اوصى غلام من الحي ابن سبع سنين، فقال شريح: إذا اصاب الغلام في وصيته، جازت". قال ابو محمد: يعجبني، والقضاة لا يجيزون.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ:"أَوْصَى غُلَامٌ مِنْ الْحَيِّ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ، فَقَالَ شُرَيْحٌ: إِذَا أَصَابَ الْغُلَامُ فِي وَصِيَّتِهِ، جَازَتْ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يُعْجِبُنِي، وَالْقُضَاةُ لَا يُجِيزُونَ.
ابواسحاق نے کہا: ایک قبیلے کے سات سالہ لڑکے نے وصیت کی تو قاضی شریح نے کہا: اگر وصیت صحیح ہے تو جائز ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ رائے مجھے پسند ہے لیکن قاضی حضرات اس کو جائز نہیں گردانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3326]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10904]، [عبدالرزاق 16414]، [ابن منصور 434]، [اخبار القضاة 264/2]
(حديث مقطوع) حدثنا جعفر بن عون، اخبرنا يونس، حدثنا ابو إسحاق انه"شهد شريحا اجاز وصية عباس بن إسماعيل بن مرثد لظئره من اهل الحيرة"، وعباس صبي.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق أَنَّهُ"شَهِدَ شُرَيْحًا أَجَازَ وَصِيَّةَ عَبَّاسِ بْنِ إِسْمَاعِيل بْنِ مَرْثَدٍ لِظِئْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ"، وَعَبَّاسٌ صَبِيٌّ.
ابواسحاق بن اسماعیل نے بیان کیا کہ وہ قاضی شریح کے پاس تھے، انہوں نے عباس بن اسماعیل بن مرثد کی اہلِ حیرہ کی دایہ کے لئے وصیت کو جائز قرار دیا، اس وقت عباس بچے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3327]» اس اثر کی سند صحیح ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔