سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب جہاد کے بارے میں
28. باب الْعُذْرِ في التَّخَلُّفِ عَنِ الْجِهَادِ:
28. جہاد سے عذر کے سبب پیچھے رہ جانے کا بیان
حدیث نمبر: 2457
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، قال: انبانا ابو إسحاق، قال: سمعت البراء، يقول: لما نزلت هذه الآية: لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم زيدا فجاء بكتف فكتبها. وشكا ابن ام مكتوم ضرارته، فنزلت: لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير اولي الضرر سورة النساء آية 95.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا فَجَاءَ بِكَتِفٍ فَكَتَبَهَا. وَشَكَا ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ ضَرَارَتَهُ، فَنَزَلَتْ: لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیتِ شریفہ: «﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ ........... الخ﴾» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ کندھے کی چوڑی ہڈی لے کر حاضر ہوئے اور اس آیت کو لکھ لیا، پھر سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے شکایت کی تو پھر پوری آیت نازل ہوئی۔ (آیت: سورہ نساء: 95/4)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2464]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2831]، [مسلم 1898]، [أبويعلی 1725]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2455 سے 2457)
یہ آیت: « ﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ » اس طرح نازل ہوئی، یعنی جہاد سے بیٹھے رہ جانے والے، اور جہاد کرنے والے فضیلت میں ایک دوسرے کے برابر نہیں ہو سکتے۔
اس پر سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے حسرت سے کہا: ہم تو پھر بڑے گھاٹے میں رہیں گے، کیونکہ وہ نابینا تھے اور جہاد میں نہیں جا سکتے تھے۔
تب پھر یہ آیت استثناء کے ساتھ یوں نازل ہوئی: « ﴿لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ﴾ [النساء: 95] » اور اس سے لنگڑے، اندھے، اپاہج لوگوں کو نکال دیا کیونکہ وہ معذور ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ دلیل ہے کہ معذورین سے جہاد معاف ہے، لیکن ان کو مجاہدین کا ثواب نہیں بلکہ نیک نیتی اور ثواب کی امید کا ثواب ملے گا، بشرطیکہ وہ نیتِ صالحہ رکھتے ہوں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد اور نیتِ جہاد قیامت تک کے لیے باقی ہے۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جہاد فرضِ عین نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے، اور ہمیشہ سے فرضِ کفایہ ہی رہا ہے۔
اس حدیث میں ہڈی پر لکھنے کا تذکرہ ہے، یہ اس لئے کہ اس زمانے میں کاغذ زیادہ نہیں تھا اس لئے ہڈی، چمڑے اور دوسری چیزوں پر لکھا جاتا تھا جو سالہا سال تک باقی رہتا تھا۔
اس آیت و حدیث سے نابینا وغیرہ معذورین سے استثنیٰ ہو گیا، اسی طرح جس دور میں بھی، جیسے کہ آج کل ہے، شرائطِ جہاد پورے نہ ہوں اس دور کے اہلِ اسلام بھی معذور ہی شمار ہوں گے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
29. باب في فَضْلِ غُزَاةِ الْبَحْرِ:
29. سمندر کے غازیوں کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2458
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن انس بن مالك، قال: حدثتني ام حرام بنت ملحان: ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال: في بيتها يوما، فاستيقظ وهو يضحك، فقلت: يا رسول الله، ما اضحكك؟. قال: "اريت قوما من امتي يركبون ظهر هذا البحر كالملوك على الاسرة". قلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم. قال:"انت منهم". ثم نام ايضا فاستيقظ وهو يضحك، فقلت: يا رسول الله، ما اضحكك؟. قال:"اريت قوما من امتي يركبون ظهر هذا البحر كالملوك على الاسرة". قلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم. قال:"انت منهم"، ثم نام ايضا فاستيقظ وهو يضحك، فقلت: يا رسول الله، ما اضحكك؟ قال:"اريت قوما من امتي يركبون هذا البحر كالملوك على الاسرة". قلت: يا رسول الله، ادع الله ان يجعلني منهم؟. قال:"انت من الاولين". قال: فتزوجها عبادة بن الصامت، فغزا في البحر، فحملها معه، فلما قدموا، قربت لها بغلة لتركبها، فصرعتها، فدقت عنقها، فماتت.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فِي بَيْتِهَا يَوْمًا، فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَضْحَكَكَ؟. قَالَ: "أُرِيتُ قَوْمًا مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. قَالَ:"أَنْتِ مِنْهُمْ". ثُمَّ نَامَ أَيْضًا فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَضْحَكَكَ؟. قَالَ:"أُرِيتُ قَوْمًا مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. قَالَ:"أَنْتِ مِنْهُمْ"، ثُمَّ نَامَ أَيْضًا فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:"أُريتُ قَوْمًا مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ هذَا الْبَحْرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ؟. قَالَ:"أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ". قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، فَغَزَا فِي الْبَحْرِ، فَحَمَلَهَا مَعَهُ، فَلَمَّا قَدِمُوا، قُرِّبَتْ لَهَا بَغْلَةٌ لِتَرْكَبَهَا، فَصَرَعَتْهَا، فَدُقَّتْ عُنُقُهَا، فَمَاتَتْ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (ان کی خالہ) سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ان کے گھر میں قیلولہ فرمایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! آپ کو کس چیز نے ہنسا دیا؟ فرمایا: میں نے (خواب میں) دیکھا میری امت کے کچھ لوگ اس سمندر پر سوار ہو کر (جہاد کے لئے) جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں (چڑھتے ہیں)۔ میں نے عرض کیا: آپ میرے لئے بھی دعا کر دیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنادے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں میں ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کس واسطے ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: میں نے اپنی قوم کے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر پر سوار ہونگے جیسے بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دعا کر دیجئے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے بنادے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پہلی والی جماعت میں سے ہوگی۔
راوی نے کہا: ان (سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا) سے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے نکاح کرلیا اور انہیں لے کر سمندر کے بحری بیڑے میں شریک ہوئے، اور واپسی میں ان کے لئے سواری قریب لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن اس نے سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا کو گرا دیا اور گردن کچل ڈالی اور وہ انتقال کر گئیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2465]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2788]، [مسلم 1912]، [أبوداؤد 2492]، [نسائي 3172]، [ابن ماجه 2776]، [أبويعلی 3675]، [ابن حبان 4608]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2457)
انبیاء کے خواب بھی وحی اور الہام ہی ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کے کچھ لوگ بڑی شان اور شوکت کے ساتھ بادشاہوں کی طرح سمندر پر سوار ہورہے ہیں، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خواب پورا ہوا اور مسلمانوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سرداری میں روم سے جنگ کے لئے بحری بیڑہ تیار کر کے جہاد کیا۔
سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا بھی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بحری بیڑے میں شریک ہو کر واپسی کے سفر میں سواری سے گر کر شہید ہوگئیں، اور قرآن و حدیث کی رو سے جو ٹولی جہاد کے لئے نکلے اور راستے میں اپنی طبعی موت مر جائے تب بھی وہ شہید ہے۔
اس سے عورتوں کا جہاد کے لئے نکلنا ثابت ہوا، سیدہ اُم حرام رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالی تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آیا کرتے تھے، وہ ماں کی طرح نہایت درجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شفیق و مہربان تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتی تھیں۔
«(رضي اللّٰه عنها وأرضاها)»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
30. باب في النِّسَاءِ يَغْزُونَ مَعَ الرِّجَالِ:
30. خواتین کا مردوں کے ساتھ جہاد کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2459
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عاصم بن يوسف، حدثنا ابو إسحاق الفزاري، عن هشام، عن حفصة، عن ام عطية، قالت: "غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم سبع غزوات اداوي الجريح او الجرحى واصنع لهم الطعام، واخلفهم في رحالهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ أُدَاوِي الْجَرِيحَ أَوِ الْجَرْحَى وَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ، وَأَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ".
سیدہ ام عطیہ (نسیبہ بنت الحارث) رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی، ان کے لئے کھانا بناتی اور ان کے سامان کی حفاظت کرتی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو إسحاق هو: إبراهيم بن محمد بن الحارث، [مكتبه الشامله نمبر: 2466]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1812]، [ابن ماجه 2856]، [أحمد 84/5، 407/6]، [ابن أبى شيبه 15497]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2458)
اس حدیث سے عورت کا مجاہدین کے ساتھ جہاد میں نکلنا، مریضوں کی تیمارداری، مجاہدین کی خدمت اور ان کے سامان کی نگرانی کرنا ثابت ہوا، یعنی وقتِ ضرورت عورت جہاد میں شریک ہو سکتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو إسحاق هو: إبراهيم بن محمد بن الحارث
31. باب في خُرُوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ بَعْضِ نِسَائِهِ في الْغَزْوِ:
31. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بعض بیویوں کے ساتھ جہاد کے لئے نکلنے کا بیان
حدیث نمبر: 2460
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا عبد الواحد بن ايمن، قال: حدثني ابن ابي مليكة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج، اقرع بين نسائه فطارت القرعة على عائشة وحفصة، فخرجتا معه جميعا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ، أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ فَطَارَتْ الْقُرْعَةُ عَلَى عَائِشَةَ وَحَفْصَةَ، فَخَرَجَتَا مَعَهُ جَمِيعًا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نکلتے تو اپنی بیویوں کے نام کی قرعہ اندازی کرتے تھے، ایک بار سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما دونوں کا قرعہ نکل آیا تو وہ دونوں ایک ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئیں۔

تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2467]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5211]، [مسلم 2770]، [أبويعلی 4397]، [ابن حبان 4221]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
32. باب فَضْلِ مَنْ رَابَطَ يَوْماً وَلَيْلَةً:
32. جو شخص ایک دن یا ایک رات پہرہ دے اس کی فضیلت
حدیث نمبر: 2461
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا ليث بن سعد، حدثنا ابو عقيل: زهرة بن معبد، عن ابي صالح مولى عثمان، قال: سمعت عثمان على المنبر وهو يقول: إني كنت كتمتكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم كراهية تفرقكم عني، ثم بدا لي ان احدثكموه ليختار امرؤ لنفسه ما بدا له، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "رباط يوم في سبيل الله خير من الف يوم فيما سواه من المنازل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ: زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَنَازِلِ".
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابوصالح نے کہا: میں نے امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا: میں نے تم سے ایک حدیث چھپائی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، یہ اس وجہ سے کہ تم مجھ کو چھوڑ کر نہ چلے جاؤ، پھر مجھے خیال آیا کہ وہ حدیث میں تمہارے سامنے بیان کر دوں تاکہ آدمی اپنے لئے جو مناسب سمجھے وہ اختیار کرلے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: اللہ کے راستے میں ایک دن پہرہ دینا ہزار سال سے بہتر ہے اور گھروں میں پہرہ دینے سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2468]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1667]، [نسائي 3169]، [ابن حبان 4609]، [موارد الظمآن 1592]۔ اس حدیث سے اللہ کے راستے میں پہرہ دینے کی فضیلت معلوم ہوئی اور پیچھے گذر چکا ہے کہ ”جو آنکھ اللہ کے راستے میں پہرہ دے وہ جہنم میں نہ جائے گی۔“

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
33. باب في فَضْلِ مَنْ مَاتَ مُرَابِطاً:
33. جو شخص پہرے داری کرتے ہوئے مر جائے اس کی فضیلت
حدیث نمبر: 2462
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا ابن لهيعة، عن مشرح، قال: سمعت عقبة بن عامر، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "كل ميت يختم على عمله إلا المرابط في سبيل الله فإنه يجرى له عمله حتى يبعث".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مِشْرَحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الْمُرَابِطَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُجْرَى لَهُ عَمَلُهُ حَتَّى يُبْعَثَ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: ہر مرنے والے کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے اللہ کے راستے میں پہرہ دینے والے کے، اس کے عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة وإن كان من رواية عبد الله بن يزيد عنه، [مكتبه الشامله نمبر: 2469]»
اس روایت میں عبداللہ بن لہیعہ ہیں جو ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [أحمد 150/4، 157]، [طبراني 308/17، 4480]، [مستدرك 144/2]، اس کا شاہد بھی ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4624]، [موارد الظمآن 1624]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة وإن كان من رواية عبد الله بن يزيد عنه
34. باب فَضْلِ الْخَيْلِ في سَبِيلِ اللَّهِ:
34. جہاد میں گھوڑے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2463
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا زكريا، عن عامر، عن عروة البارقي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الخيل معقود في بنواصيها الخير إلى يوم القيامة: الاجر والمغنم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي بِنَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ: الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ".
سیدنا عروه البارقی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر و برکت قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ بندھی رہے گی، یعنی یہ آخرت میں ثواب اور دنیا میں مالِ غنیمت کا سبب ہونگے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2470]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2852]، [مسلم 1873]، [أبويعلی 6828]، [ابن منصور 2826]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2464
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن حصين، وعبد الله بن ابي السفر , عن الشعبي، عن عروة البارقي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة: الاجر والمغنم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ: الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ".
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔ روایت کا ترجمہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2471]»
اس روایت کی تخریج اوپر ذکر کی جا چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2459 سے 2464)
مولانا داؤد راز رحمہ اللہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ گھوڑے میں خیر و برکت سے متعلق جو حدیث ہے وہ اس کے آلۂ جہاد ہونے کی وجہ سے ہے، اور جب قیامت تک اس میں خیر باقی رہے گی تو اس سے نکلا کہ جہاد کا حکم بھی قیامت تک باقی رہے گا، اور چونکہ قیامت تک آنے والا دور ہر اچھا اور برا دونوں ہوگا اس لئے مسلمانوں کے امراء بھی اسلامی شریعت کے پوری طرح پابند ہونگے اور کبھی ایسے نہ ہوں گے، لیکن جہاد کا سلسلہ کبھی بند نہ ہو گا کیونکہ یہ اعلاء کلمۃ اللہ اور دنیا و آخرت میں سربلندی کا ذریعہ ہے، اس لئے اسلامی مفاد کے پیشِ نظر ظالم حکمرانوں کی قیادت میں بھی جہاد کیا جاتا رہے گا۔
(انتہیٰ)۔
«والإسلام يعلو ولا يعلى عليه» اسلام کفر و شرک کی تمام طاقتوں کے اجتماع کے باوجود باذن الله سربلند ہی رہے گا، جس کا آج ہم نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
35. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْخَيْلِ وَمَا يُكْرَهُ:
35. کون سا گھوڑا پسندیدہ اور کون سا نا پسندیدہ ہوتا ہے
حدیث نمبر: 2465
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الرحمن الدمشقي، حدثنا الوليد، حدثني ابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، عن علي بن رباح، عن ابي قتادة الانصاري: ان رجلا , قال: يا رسول الله، إني اريد ان اشتري فرسا، فايها اشتري؟. قال: "اشتر ادهم، ارثم، محجلا، طلق اليد اليمنى، او من الكميت على هذه الشية، تغنم وتسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ: أَنَّ رَجُلًا , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَشْتَرِيَ فَرَسًا، فَأَيُّهَا أَشْتَرِي؟. قَالَ: "اشْتَرِ أَدْهَمَ، أَرْثَمَ، مُحَجَّلًا، طَلْقَ الْيَدِ الْيُمْنَى، أَوِ مِنَ الْكُمَيْتِ عَلَى هَذِهِ الشِّيَةِ، تَغْنَمْ وَتَسْلَمْ".
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں سو کون سا گھوڑا خریدوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کالا گھوڑا خریدو جس کی ناک اور اوپر کے ہونٹ پر سفیدی ہو، اور ہاتھ پاؤں پربھی سفیدی ہو، صرف دایاں ہاتھ پر سفیدی نہ ہو، یا پھر کالا سرخی مائل ان علامتوں والا گھوڑا خریدو، تم کو غنیمت بھی ملے گی اور (باذن اللہ) محفوظ بھی رہوگے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2472]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن حدیث دوسری سند سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4676]، [موارد الظمآن 1633]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
36. باب في السَّبْقِ:
36. گھوڑ دوڑ کا بیان
حدیث نمبر: 2466
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "يسابق بين الخيل المضمرة من الحفياء إلى الثنية، والتي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وان ابن عمر كان فيمن سابق بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُسَابِقُ بَيْنَ الْخَيْلِ الْمُضَمَّرَةِ مِنْ الْحَفْيَاءِ إِلَى الثَّنِيَّةِ، وَالَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ، وَأَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ فِيمَنْ سَابَقَ بِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مضمر گھوڑوں کی حفیا سے ثنیہ تک دوڑ کراتے تھے اور غیر مضر گھوڑوں کی ثنیہ سے مسجد بنی زریق تک کی دوڑ کراتے تھے۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی اس گھوڑ دوڑ میں شریک ہونے والوں میں سے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2473]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 420، 2868]، [مسلم 1870]، [أبوداؤد 1820]، [نسائي 3586]، [ابن حبان 4686، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2464 سے 2466)
مضمر اس گھوڑے کو کہتے ہیں کہ پہلے اس کو خوب کھلایا جاتا ہے تاکہ خوب موٹا ہو جائے، پھر اس کا دانہ چارہ کم کر دیا جاتا ہے اور اصطبل میں جھول ڈال کر بند رکھا جاتا ہے تاکہ گرمی سے چربی پگھلتی رہے اور پسینہ آ کر گوشت کم ہو جائے، ایسا گھوڑا دوڑنے میں بہت تیز ہوتا ہے اور طاقتور بھی ہوتا ہے۔
اور حفیا اور ثنیہ مدینہ طیبہ میں دو مشہور مقامات کے نام ہیں جن کا درمیانی فاصلہ چھ یا سات کیلومیٹر کے قریب تھا۔
مضمر اور مدرب گھوڑوں کی دوڑ اتنی مسافت کی ہوتی تھی لیکن غیر مضمر گھوڑے صرف ثنیہ اور مسجد بنی زریق تک دوڑائے جاتے تھے جس کا فاصلہ تقریباً ایک میل ہوتا تھا۔
گھوڑا بڑا بابرکت جانور ہے۔
آج کے مشینی دور میں بھی ایک متمدن حکومت کے لئے گھوڑے کی بڑی اہمیت اور شان و شوکت ہے۔
عربی نسل کے گھوڑے جو فوقیت رکھتے ہیں وہ محتاجِ بیان نہیں، زمانۂ رسالت میں بھی گھوڑوں کو سدھانے کے لئے یہ مقابلے کی دوڑ ہوا کرتی تھی، مگر آج کل ریس کے نام سے جو دوڑ شہروں میں کرائی جاتی ہے، اور اس پر بڑی بڑی رقوم بطورِ جوئے بازی کے لگائی جاتی ہیں، یہ کھلا ہوا جوا ہے جو شرعاً قطعاً حرام ہے۔
(راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه

Previous    1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.