(حديث مرفوع) اخبرنا القاسم بن كثير، قال: سمعت عبد الرحمن بن شريح، يحدث عن ابي الصباح محمد بن شمير، عن ابي علي الهمداني، عن ابي ريحانة انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فسمعه ذات ليلة وهو يقول: "حرمت النار على عين سهرت في سبيل الله، وحرمت النار على عين دمعت من خشية الله". قال: وقال الثالثة، فنسيتها. قال ابو شريح: سمعت من يقول ذاك"حرمت النار على عين غضت عن محارم الله، او عين فقئت في سبيل الله عز وجل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِير، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ مُحَمَّدِ بْنِ شُمَيْر، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَسَمِعَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ يَقُولُ: "حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ سَهِرَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَحُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ دَمَعَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ". قَالَ: وَقَالَ الثَّالِثَةَ، فَنَسِيتُهَا. قَالَ أَبُو شُرَيْحٍ: سَمِعْتُ مَنْ يَقُولُ ذَاكَ"حُرِّمَتِ النَّارُ عَلَى عَيْنٍ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ، أَوْ عَيْنٍ فُقِئَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ انہوں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”حرام ہے دوزخ پر وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگے، اور حرام ہے دوزخ پر وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کی خشیت (خوف) سے اشکبار ہو جائے“(یعنی آنسوں سے بھر جائے)، سیدنا ابوریحانہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری آنکھ کا بھی تذکرہ کیا لیکن میں اسے بھول گیا۔ ابوشریح نے کہا: میں نے اس راوی سے سنا جس نے تیسری آنکھ کا ذکر کیا اور وہ یہ ہے: ”اللہ تعالیٰ نے حرام کر دی ہے دوزخ ایسی آنکھ کے لئے جو اللہ کے محارم کے دیکھنے سے بچی رہے“(یعنی فواحش و منکرات نہ دیکھے یا ایسی آنکھ جو اللہ عزوجل کے راستے میں پھوڑ دی گئی (یعنی ضائع ہوگئی)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2445]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 3117]، [نسائي فى الكبرىٰ 4325]، [ابن أبى شيبه 350/5]، [الحاكم 83/2]، [أبويعلی 4346]
وضاحت: (تشریح حدیث 2436) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں جاگ کر پہرہ دے وہ جہنم میں نہیں جائے گا، اسی طرح اللہ کے ڈر سے رونے اور گڑگڑانے والا بھی جہنم میں نہیں جائے گا، حرام چیزوں کے دیکھنے سے اپنی نگاہیں جھکانے والا بھی، اور جس کی آنکھ فی سبیل اللہ ضائع ہوئی وہ شخص بھی جہنم کی آگ سے دور رہے گا، اس آنکھ پر جہنم کی آگ حرام ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ جہنم میں نہیں گئی تو وہ آدمی خود بھی جہنم میں نہیں جائے گا کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسے آدمی کی آنکھ تو جنت میں جائے اور اس کا سارا جسم جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور یہ اطلاق الجزء و ارادة الکل کے قبیل سے ہے، یعنی کبھی جزء بولا جائے اس کا کل مراد ہوتا ہے، اور کبھی کل بول کر اس کا جزء مراد ہوتا ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فوج کی پہرے داری کرنے والے پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث کی سند میں عمر بن عبدالعزیز کی ملاقات سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔
تخریج الحدیث: «في اسناده علتان: الانقطاع وضعف صالح بن محمد بن زائدة، [مكتبه الشامله نمبر: 2445]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، اور صالح بن محمد ضعیف ہیں۔ تخریج کیلئے دیکھئے: [أبويعلی 1750]، [سنن سعيد بن منصور 2416]، [مصباح الزجاجه 394/2]، [البيهقي 149/1، و مرسلًا بسند ضعيف]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده علتان: الانقطاع وضعف صالح بن محمد بن زائدة
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی مہار (نکیل) والی اونٹنی لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ اللہ کے راستے میں (ہدیہ) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے قیامت کے دن (اس ایک کے بدلے) سات سو اونٹنیاں ہوں گی جو سب کی سب مہار والی ہوں گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو عمرو هو: سعد بن إياس، [مكتبه الشامله نمبر: 2446]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1892]، [نسائي 3187]، [أحمد 121/4]، [طبراني 229/17، 634]، [الحاكم 90/2، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 2437 سے 2439) سبحان الله! کیا شان اور رحمتِ الٰہی ہے، ایک کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملتی ہیں، قرآن پاک میں اسی طرح ہے کہ ایک کے بدلے سات سو کی مثال دی گئی: « ﴿مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ﴾[البقرة: 261] » مطلب یہ کہ جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے نکلے۔ ایک دانے سے سات سو دانے جس طرح بن گئے، اسی طرح الله تعالیٰ ایک کے بدلے سات سو تک عطا فرمائے گا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو عمرو هو: سعد بن إياس
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا هشام، عن الحسن، عن صعصعة بن معاوية، قال: لقيت ابا ذر وهو يسوق جملا له، او يقوده، في عنقه قربة، فقلت: يا ابا ذر، ما مالك؟. قال: لي عملي، فقلت: ما مالك؟. قال: لي عملي. قلت: حدثني حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "ما من مسلم انفق زوجين من مال في سبيل الله إلا ابتدرته حجبة الجنة". قال ابو محمد: هو درهمين او امتين او عبدين او دابتين.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ وَهُوَ يَسُوقُ جَمَلًا لَهُ، أَوْ يَقُودُهُ، فِي عُنُقِهِ قِرْبَةٌ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا مَالُكَ؟. قَالَ: لِي عَمَلِي، فَقُلْتُ: مَا مَالُكَ؟. قَالَ: لِي عَمَلِي. قُلْتُ: حَدِّثْنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ مَالٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا ابْتَدَرَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هُوَ دِرْهَمَيْنِ أَوْ أَمَتَيْنِ أَوْ عَبْدَيْنِ أَوْ دَابَّتَيْنِ.
صعصعہ بن معاویہ نے کہا: میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملا قات کی جو اپنے اونٹ کو لے جا رہے تھے اور ان کی گردن میں مشکیز ہ لٹکا ہوا تھا، میں نے عرض کیا: اے ابوذر! یہ کیا ہے؟ آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا: یہ میرا کام ہے، میں نے پھر عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ پھر جواب دیا کہ: یہ میرا کام ہے، میں نے عرض کیا: کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: میں نے سنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جو مسلمان بھی اللہ کی راہ میں ایک جوڑا خرچ کریگا (دے گا) تو جنت کے دربان اس کے استقبال کیلئے جلد بازی کریں گے۔“ نسائی کی روایت میں ہے کہ ”بہشت کے دربان اسے اپنی طرف بلائیں گے“(کہ ان کے دروازے سے داخل ہو)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: جوڑے سے مراد: دو درہم یا دو لونڈی، دو غلام، یا دو سواریاں ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2447]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 3185]، [ابن حبان 2940، 4643]، [ابن أبى شيبه 348/5]، [الحاكم 82/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2439) نسائی میں ہے کہ کسی راوی نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: زوجین سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: اگر اونٹ رکھتا ہو تو دو اونٹ اللہ کے راستے میں دے دی ہو، اور گائے رکھتا ہو تو دو گائے اللہ کے راستے میں دی ہو، تو اس کے لئے یہ ثواب ہے۔ اس حدیث سے صرف دو روپے، یا دو درہم، دو دینار اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت معلوم ہوئی کہ قیامت کے دن بہشت کے ہر دروازے سے اس کو بلایا جائیگا۔ «(اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ يَارَبَّ الْعَالَمِيْنِ)» آمین۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت کی (ترجمہ): ”تیار کرو کافروں کے لئے جہاں تک تم سے ہو سکے قوت، سنو: قوت سے مراد ہے: تیر اندازی کرنا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2448]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1917]، [أبوداؤد 2514]، [ابن ماجه 2813]، [أبويعلی 1743]، [ابن حبان 4709]، [سعيد بن منصور 2448]، [الطيالسي 1182]
وضاحت: (تشریح حدیث 2440) یعنی دشمنوں کے مقابلے کیلئے ہمیشہ اپنی طاقت و قوت کو بڑھاتے رہو، اور ہر وقت مستعد رہو، اس سے غفلت نہ برتو کیونکہ معلوم نہیں دشمن کس وقت حملہ کر بیٹھے اور ہلاکت و ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس حدیث میں فنِ سپاہ گری اور ہتھیار چلانے کی ترغیب ہے، اب تیر کے عوض بندوق، توپ اور دیگر آلاتِ حرب کی ٹریننگ ہے جس کا سیکھنا ضروری ہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آوے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي سلام، عن عبد الله بن زيد الازرق، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله عز وجل يدخل الثلاثة بالسهم الواحد الجنة: صانعه يحتسب في صنعته الخير، والممد به، والرامي به". وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ارموا واركبوا، ولان ترموا احب إلي من ان تركبوا". وقال: "كل شيء يلهو به الرجل باطل إلا رمي الرجل بقوسه وتاديبه فرسه، وملاعبته اهله، فإنهن من الحق" وقال: "من ترك الرمي بعدما علمه، فقد كفر الذي علمه"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَزْرَقِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُدْخِلُ الثَّلَاثَةَ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ الْجَنَّةَ: صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالْمُمِدُّ بِهِ، وَالرَّامِيَ بِهِ". وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا". وَقَالَ: "كُلُّ شَيْءٍ يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَ الرَّجُلِ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهَ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ" وَقَالَ: "مَنْ تَرَكَ الرَّمْيَ بَعْدَمَا عَلِّمَهُ، فَقَدْ كَفَرَ الَّذِي عَلِّمَهُ"..
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله عز و جل ایک تیر کے سبب تین آدمیوں کو جنت میں داخل کریگا، تیر بنانے والے کو اگر اس کے بنانے میں اچھی نیت کی ہوگی، اس کی مدد کرنے والے اور تیر چلانے والے کو“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیراندازی کرو، سواری کرو، اور میرے نزدیک تیر اندازی محبوب ہے سواری کرنے سے“، اور فرمایا: ”اور ہر کھیل جو آدمی کھیلتا ہے وہ باطل ہے سوائے اپنی کمان سے تیراندازی کرنے، اور گھوڑے کی تربیت کرنے، اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنے کے، یہ تین کھیل حق ہیں۔“ اور فرمایا: ”جس نے سیکھنے کے بعد تیراندازی چھوڑ دی اس نے ناشکری کی اس کی جس نے اسے سکھایا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2449]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2513]، [ترمذي 1627]، [نسائي 3580]، [ابن ماجه 2811]، [أحمد 144/4، 146]، [سعيد بن منصور 2450]، [طيالسي 1179]، [طحاوي فى مشكل الآثار 368/1]، [البيهقي 12/10، وغيرهم وله شواهد]
وضاحت: (تشریح حدیث 2441) اس حدیث سے تیر اندازی کی اور گھوڑ سواری کی فضیلت ثابت ہوئی، اب تیر کے بدلے بندوق و توپ اور ٹینک وغیرہ آلاتِ حرب کی ٹریننگ اورمشق ہے، اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے سفر کرنا بھی جہاد میں داخل ہے۔ یہ تین کھیل صحیح اور حق ہیں، یعنی لغو اور بیکار و باطل نہیں ہیں، تیراندازی و گھوڑے کی دیکھ بھال و تربیت میں آدمی جہاد کی تیاری کرتا ہے، اور تیسرے بیوی بچوں کے ساتھ کھیل میں الفت، محبت، انسیت اور بیوی کے حق کی ادائیگی ہے جس سے نسلِ انسانی کا قیام و بقا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ عز و جل کی راہ میں زخمی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ایسے اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہتا ہوگا جس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی اور رنگ بالکل خون کا سا ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2450]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 237]، [مسلم 1876]، [ابن ماجه 2795]، [أبويعلی 6263]، [ابن حبان 4652]، [الحميدي 1123]، [سنن سعيد بن منصور 2571]
وضاحت: (تشریح حدیث 2442) اس حدیث سے شہادت کی فضلیت ثابت ہوتی ہے کہ شہید کے خون سے مشک کی خوشبو آئے گی حالانکہ دیکھنے میں وہ اصلی خون ہی ہوگا۔ «(أسال اللّٰه القدير أن يرزقني الشهادة وإياكم).»
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سہل بن امامہ بن سہل بن حنیف نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صدقِ دل سے شہادت طلب کرے، الله تعالیٰ اس کو شہیدوں کے مرتبہ تک پہنچاتا ہے، چاہے وہ اپنے بستر پر مرا ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کو قتل کی اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2452]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1668]، [ابن حبان 4655]، [موارد الظمآن 1613]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو علي الحنفي، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من نفس تموت فتدخل الجنة فتود انها رجعت إليكم ولها الدنيا وما فيها، إلا الشهيد فإنه ود انه قتل كذا مرة لما راى من الثواب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ فَتَدْخُلُ الْجَنَّةَ فَتَوَدُّ أَنَّهَا رَجَعَتْ إِلَيْكُمْ وَلَهَا الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، إِلَّا الشَّهِيدُ فَإِنَّهُ وَدَّ أَنَّهُ قُتِلَ كَذَا مَرَّةً لِمَا رَأَى مِنَ الثَّوَابِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی نفس ایسا نہیں ہے جو مر جائے اور جنت میں داخل ہو جائے، پھر وہ یہ چاہے کہ تمہاری طرف (دنیا میں) لوٹ آئے سوائے شہید کے جو چاہے گا کہ اسے بار بار قتل کیا جائے شہادت کے ثواب کی وجہ سے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو علي الحنفي هو: عبيد الله بن عبد المجيد. والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2453]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2795]، [مسلم 1877]، [ترمذي 1643]، [أبويعلی 2879]
وضاحت: (تشریح احادیث 2444 سے 2446) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شہید بار بار دنیا میں آنے کی تمنا کرے گا۔ بخاری شریف کی دوسری روایت (2817) میں ہے کہ دس بار تمنا کرے گا، شہید ہو پھر زندہ کیا جائے، پھر اللہ کے راستے میں شہید ہو۔ اور حدیث گذر چکی ہے کہ شہید کو اتنی بھی تکلیف نہیں ہوتی جتنی کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ایسی ہی شہادت اور موت نصیب فرمائے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو علي الحنفي هو: عبيد الله بن عبد المجيد. والحديث متفق عليه