سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
قربانی کے بیان میں
5. باب الْبَدَنَةُ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ:
5. اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات افراد کی شرکت کا بیان
حدیث نمبر: 1994
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: نحرنا يوم الحديبية سبعين بدنة، البدنة عن سبعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اشتركوا في الهدي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: نَحَرْنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ سَبْعِينَ بَدَنَةً، الْبَدَنَةُ عَنْ سَبْعَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اشْتَرِكُوا فِي الْهَدْيِ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے صلح حدیبیہ کے دن ستر اونٹ ذبح کئے، ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہدی (قربانی) میں شراکت کر لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1998]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1318]، [أبوداؤد 2809]، [ترمذي 904، 1502]، [ابن ماجه 3132]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1995
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ابي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: "نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البقرة عن سبعة". قيل لابي محمد: تقول به؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ". قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تَقُولُ بِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات افراد کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا آپ یہ ہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1999]»
اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1318]، [الموطأ فى الضحايا 9]۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ دیکھئے: حدیث رقم (1957)

وضاحت:
(تشریح احادیث 1993 سے 1995)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں، اونٹ کے لئے بھی یہی حکم ہے، بعض روایات میں ہے کہ اونٹ کی قربانی میں 10 آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔
دیکھئے: [ترمذي 1501]، لیکن اولی اور احوط یہی ہے کہ سات آدمی ہی شریک ہوں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
6. باب في لُحُومِ الأَضَاحِيِّ:
6. قربانی کے گوشت کا بیان
حدیث نمبر: 1996
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لحوم الاضاحي، او قال: "لا تاكلوا لحوم الاضاحي بعد ثلاث".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ، أَوْ قَالَ: "لَا تَأْكُلُوا لُحُومَ الْأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے گوشت (کو روکنے) سے منع کیا یا یہ فرمایا کہ: قربانی کا گوشت تین دن کے بعد نہ کھاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2000]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5574]، [مسلم 1970]، [ترمذي 1509]، [ابن حبان 5923]، [أبويعلی 997]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1997
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، عن خالد هو ابن عبد الله الطحان، عن خالد الحذاء، عن ابي قلابة، عن ابي المليح، عن نبيشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم،، قال:"إنا كنا نهيناكم عن لحوم الاضاحي ان تاكلوها فوق ثلاثة ايام كي تسعكم، فقد جاء الله بالسعة، فكلوا، وادخروا، وائتجروا". قال ابو محمد: ائتجروا: اطلبوا فيه الاجر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّحَّانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ نُبَيْشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، قَالَ:"إِنَّا كُنَّا نَهَيْنَاكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تَأْكُلُوهَا فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ كَيْ تَسَعَكُمْ، فَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالسَّعَةِ، فَكُلُوا، وَادَّخِرُوا، وَائْتَجِرُوا". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: ائْتَجِرُوا: اطْلُبُوا فِيهِ الْأَجْرَ.
سیدنا نبیشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تم کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا تاکہ تم کو کافی ہو اور اب وسعت آ گئی ہے، تم کھاؤ، ذخیرہ کرو اور اجر و ثواب حاصل کرو۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اتجروا» کا مطلب ہے اجر حاصل کرو۔ یعنی صدقہ و خیرات کر کے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2001]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2813]، [نسائي فى الصغریٰ 4235]، [ابن ماجه 3160]، [شرح معاني الآثار للطحاوي 186/4]، [أحمد 75/5]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1995 سے 1997)
پہلی حدیث میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت ہے، اس کا سبب اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے تم کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے اور کھانے سے منع کیا تھا کیونکہ اس وقت لوگ محتاج تھے اور ہر ایک کے پاس قربانی کی وسعت نہ تھی تو حکم دیا گیا کہ تین دن میں کھا لو اور صدقہ و خیرات کر دو، تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت نہ رکھو، لیکن اب وسعت آگئی، لوگ مالدار ہو گئے ہیں اس لئے کھاؤ بھی، صدقہ بھی کرو، چاہو تو رکھو بھی، لہٰذا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے، اور اب قربانی کا گوشت فریج میں رکھنا اور بعد میں کھاتے رہنا بھی جائز ٹھہرا۔
مزید تفصیل اس نہی کی اگلی حدیث میں بھی آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1998
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا محمد بن إسحاق، حدثني عبد الله بن ابي بكر، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى عن لحوم الاضاحي بعد ثلاث، فلما كان العام القابل وضحى الناس، قلت: يا رسول الله، إن كانت هذه الاضاحي لترفق بالناس، كانوا يدخرون من لحومها وودكها. قال:"فما يمنعهم من ذلك اليوم؟"قلت: يا نبي الله، او لم تنههم عام اول عن ان ياكلوا لحومها فوق ثلاث؟ فقال:"إنما نهيت عن ذلك للحاضرة التي حضرتهم من اهل البادية ليبثوا لحومها فيهم، فاما الآن، فلياكلوا وليدخروا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْقَابِلُ وَضَحَّى النَّاسُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ لَتَرْفُقُ بِالنَّاسِ، كَانُوا يَدَّخِرُونَ مِنْ لُحُومِهَا وَوَدَكِهَا. قَالَ:"فَمَا يَمْنَعُهُمْ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمَ؟"قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَوَ لَمْ تَنْهَهُمْ عَامَ أَوَّلَ عَنْ أَنْ يَأْكُلُوا لُحُومَهَا فَوْقَ ثَلَاثٍ؟ فَقَالَ:"إِنَّمَا نَهَيْتُ عَنْ ذَلِكَ لِلْحَاضِرَةِ الَّتِي حَضَرَتْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ لِيَبُثُّوا لُحُومَهَا فِيهِمْ، فَأَمَّا الْآنَ، فَلْيَأْكُلُوا وَلْيَدَّخِرُوا".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرما دیا تھا، اگلے سال لوگوں نے قربانیاں کیں تو میں نے عرض کیا: اس قربانی سے لوگوں کے لئے آسانی تھی، لوگ ان کے گوشت اور چربی کا ذخیرہ کر لیتے اور (کافی دن تک) کھاتے رہتے تھے؟ فرمایا: تو اب انہیں ذخیرہ کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ ہی نے تو پچھلے سال ان کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کر دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس وقت ان حاضرین کی وجہ سے منع کیا تھا جو دیہات سے آ کر جمع ہو گئے تھے تاکہ ان کے درمیان قربانیوں کا گوشت تقسیم کروا دیا جائے، لیکن اب لوگ کھائیں اور ذخیرہ اندوزی بھی کر سکتے ہیں۔ (یعنی ممانعت کا حکم صرف اسی سال کے لئے تھا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2002]»
اس روایت کی سند صحیح اور مختلف سیاق سے یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5423]، [مسلم 1971]، [أبوداؤد 2812]، [نسائي 4443]، [ابن حبان 5927]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1999
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا يحيى بن حمزة، حدثني محمد بن الوليد الزبيدي، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، حدثني ابي، انه سمع ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن بمنى: "اصلح لنا من هذا اللحم"فاصلحت له منه، فلم يزل ياكل منه حتى بلغنا المدينة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزَّبِيدِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِمِنًى: "أَصْلِحْ لَنَا مِنْ هَذَا اللَّحْمِ"فَأَصْلَحْتُ لَهُ مِنْهُ، فَلَمْ يَزَلْ يَأْكُلُ مِنْهُ حَتَّى بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں: ہم منیٰ میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا: ہمارے لئے اس گوشت کو صاف کر کے رکھ لو، چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپسی تک وہی گوشت تناول فرماتے رہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2003]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1975]، [أبوداؤد 2814]، [ابن حبان 5932]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1997 سے 1999)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل دونوں سے ثابت ہوا کہ قربانی کا گوشت تین دن کے بعد بھی رکھا اور کھایا جا سکتا ہے، کیونکہ مکہ سے مدینہ منورہ کی مسافت تقریباً ایک ہفتہ کی تھی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2000
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن عمرو بن دينار، قال: سمعت عطاء، قال: سمعت جابرا، يقول:"إن كنا لنتزود من مكة إلى المدينة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم". قال ابو محمد: يعني: لحوم الاضاحي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ:"إِنْ كُنَّا لَنَتَزَوَّدُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي: لُحُومَ الْأَضَاحِيِّ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زاد سفر کے طور پر (گوشت کا توشہ) مکہ سے مدینہ تک کے لئے رکھ لیا کرتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: یعنی قربانی کے گوشت کو رکھ لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2004]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2980، 5567]، [مسلم 1972]، [نسائي 1980]، [ابن حبان 5930]، [الحميدي 1297]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1999)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے گوشت کو خود بھی کھائیں اور غریبوں، محتاجوں، سوالیوں کو بھی کھلائیں، قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں، ایک حصہ اپنے لئے، ایک حصہ دوست احباب کے لئے، اور ایک حصہ غرباء و مساکین کے لئے۔
(مولانا راز رحمۃ اللہ علیہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
7. باب في الذَّبْحِ قَبْلَ الإِمَامِ:
7. امام سے پہلے قربانی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2001
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، وزبيد، عن الشعبي، عن البراء بن عازب، ان ابا بردة بن نيار ضحى قبل ان يصلي، فلما صلى النبي صلى الله عليه وسلم، دعاه فذكر له ما فعل، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إنما شاتك شاة لحم". فقال: يا رسول الله، عندي عناق جذعة من المعز هي احب إلي من شاتين. قال:"فضح بها، ولا تجزئ عن احد بعدك". قال ابو محمد: قرئ على محمد، عن سفيان: ومن ذبح بعد الصلاة والإمام يخطب اجزاه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَزُبَيْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ أَبَا بُرْدَةَ بْنَ نِيَارٍ ضَحَّى قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَعَاهُ فَذَكَرَ لَهُ مَا فَعَلَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّمَا شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ". فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي عَنَاقٌ جَذَعَةٌ مِنْ الْمَعْزِ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْنِ. قَالَ:"فَضَحِّ بِهَا، وَلَا تُجْزِئُ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: قُرِئَ عَلَى مُحَمَّدٍ، عَنْ سُفْيَانَ: وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ أَجْزَأَهُ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے (عید الاضحیٰ) کی نماز سے پہلے قربانی کر دی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو انہیں بلایا اور انہوں نے اپنا ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری یہ بکری گوشت کھانے کی ہوئی (یعنی قربانی نہیں ہوئی)، سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک بکری کا بچہ سال بھر کا ہے، یا یہ کہا: میرے پاس بکری کا جذعہ ہے جو میرے نزدیک دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے؟ فرمایا: اسی ایک سال کے بچے کو ذبح کر دو (قربانی ہو جائے گی) لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایک سال کے بچے کی قربانی نہ ہو گی۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: محمد (بن يوسف) پر سفیان سے یہ بھی پڑھا گیا اور جو نماز کے بعد ذبح کرے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس کی قربانی ہو جائے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2005]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 983، 5556]، [مسلم 1961]، [أبوداؤد 2800]، [ترمذي 1508]، [ابن حبان 5906]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2002
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو علي الحنفي، حدثنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، عن ابي بردة بن نيار، ان رجلا ذبح قبل ان ينصرف النبي صلى الله عليه وسلم "فامره ان يعيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، أَنَّ رَجُلًا ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَأَمَرَهُ أَنْ يُعِيدَ".
سیدنا ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کے بعد گھر واپسی سے پہلے قربانی (ذبح کر دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2006]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں ایک شخص کے نماز سے پہلے قربانی کرنے کا ذکر کیا ہے اور اس کے فاعل غالباً وہ خود ہیں، یہ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ماموں ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [بخاري 951، 955]، [مسلم 1961]، [الموطأ فى الأضاحي 4]، [ابن حبان 5905]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2000 سے 2002)
پہلی حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ عید سے پہلے قربانی کر دی اور یہ اس لئے کہ سب سے پہلے قربانی کرنے والوں میں ان کا نام لکھا جائے، جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے۔
اور یہ چیز صحابۂ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی اعمالِ صالحہ میں سبقت اور شدید حرص پر دلالت کرتی ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص نماز اور امام سے پہلے قربانی کر دے اس کی قربانی درست نہیں، اس کو دوبارہ قربانی کرنی ہوگی، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
یہاں امام سے مراد خلیفہ اور حاکم ہے اور مقصد امام کی اتباع ہے جو اسلامی امور میں ہر لحظہ مطلوب ہے۔
موجودہ دور میں بھی اس پر عمل کیا جائے تو بہت اچھا ہے۔
ایک اور مسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بکرے کی قربانی میں دانتا ہوا مسنہ ہونا چاہے، ایک سال کے بکری کے بچے کی قربانی کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کی مجبوری کی وجہ سے دی تھی، کیونکہ ان کے پاس اور قربانی کا جانور موجود نہ تھا، اور پھر یہ بھی وضاحت فرما دی کہ تمہارے بعد تمہارے علاوہ کسی اور کو ایک سال کے بکری کے بچے کی قربانی کی اجازت نہیں ہے۔
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں قربانی کرنے سے یہ ثابت ہوا کہ قربانی اپنے اپنے گھروں میں کرنی چاہیے، قربان گاہ یا عید گاہ کے آس پاس بھی کی جا سکتی ہے۔
لیکن ہڈی و گوشت وغیرہ راستے میں نہیں پھینکنے چاہئیں، اس میں نعمتِ الٰہی کی بے حرمتی بھی ہے اور راستہ چلنے والوں کو ایذا و تکلیف میں مبتلا کرنا بھی ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
8. باب في الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ:
8. فرع اور عتیرہ کا بیان
حدیث نمبر: 2003
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا فرع ولا عتيرة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرع اور عتیره (اسلام میں) نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2007]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5474]، [مسلم 1976]، [ترمذي 1512]، [نسائي 4233]، [ابن ماجه 3168]، [أبويعلی 5879]، [ابن حبان 5890]، [الحميدي 1126]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2002)
بخاری شریف کی روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔
فرع اونٹنی کے پہلے بچے کو کہتے ہیں، زمانۂ جاہلیت میں اس کو لوگ اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔
اور عتیرہ وہ قربانی ہے جسے وہ رجب میں کرتے تھے۔
مولانا راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عوامِ جہلاء مسلمانوں میں اب تک یہ رسم ماہِ رجب میں کونڈے بھرنے کی رسم کے نام سے جاری ہے۔
رجب کے آخری عشرے میں بعض جگہ بڑے ہی اہتمام سے کونڈے بھرنے کا تہوار منایا جاتا ہے۔
بعض لوگ اسے کھڑے پیر کی نیاز بتلاتے ہیں اور اسے کھڑے ہی کھڑے کھاتے ہیں، یہ جملہ محدثات بدعتِ ضلالہ ہیں (اور مذکورہ بالا حدیث میں اس کی ممانعت ہے)، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایسی خرافات سے بچنے کی ہدایت بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.