یزید بن اصم سے مروی ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے واپسی پر مقام سرف میں نکاح کیا اس حال میں کہ ہم حلال ہو چکے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1865]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1411]، [أبوداؤد 1843]، [ترمذي 845]، [ابن ماجه 1964]، [أبويعلی 7105]، [ابن حبان 4134]
وضاحت: (تشریح حدیث 1861) اس میں روایت میں اُم المومنین سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا خود اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ احرام میں نکاح کیا ہو، اور یہ راوی یزید بن اسم سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی روایت ہے کہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا میری اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں۔
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے (جب) نکاح کیا تو وہ بے احرام کے تھے اور (جب) صحبت کی تب بھی بے احرام کے تھے، اور میں ان دونوں کے بیچ میں پیغام رسانی کرنے والا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1866]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4130]، [المعرفة للبيهقي 9749]
وضاحت: (تشریح حدیث 1862) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اُم المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بارے میں اختلاف ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہاں اور کس حالت میں نکاح کیا، تو صحیح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مکہ کے راستے میں نکاح کیا تو بعض صحابہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے احرام باندھنے سے قبل نکاح کیا لیکن یہ نکاح احرام باندھنے کے بعد مشہور ہوا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کھول چکے تب ان سے صحبت کی تھی مقامِ سرف میں جو مکہ سے دس میل کے فاصلے پر ہے (اتفاق ہے) سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے وہیں مقامِ سرف میں وفات پائی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صحبت کی تھی اور وہ وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ محرم حالتِ احرام میں نہ اپنا نکاح کر سکتا ہے نا کسی اور کا نکاح کرا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى، عن عبد الله بن ابي قتادة، قال: انطلق ابي مع النبي صلى الله عليه وسلم عام الحديبية، فاحرم اصحابه ولم يحرم ابو قتادة، فاصاب حمار وحش، فطعنه واكل من لحمه، فقلت: يا رسول الله، إني اصبت حمار وحش، فطعنته، فقال للقوم: "كلوا"وهم محرمون.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ أَبِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ أَبُو قَتَادَةَ، فَأَصَابَ حِمَارَ وَحْشٍ، فَطَعَنَهُ وَأَكَلَ مِنْ لَحْمِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ، فَطَعَنْتُهُ، فَقَالَ لِلْقَوْمِ: "كُلُوا"وَهُمْ مُحْرِمُونَ.
عبدالله بن ابی قتادہ نے بیان کیا کہ میرے والد صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے (اور دشمنوں کا پتہ لگانے آگے نکل گئے)، ان کے ساتھیوں نے احرام باندھ لیا، سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا، انہوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا، اس کا نیزے سے شکار کیا اور اس کا گوشت کھایا، ان کا بیان ہے کہ پھر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے جنگلی گدھا دیکھا تو اس پر نیزه یا تیر پھینک کر شکار کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: ”کھاؤ“ اور وہ سب حالت احرام میں تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1867]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1821]، [مسلم 1196]، [نسائي 2824]، [ابن ماجه 3093]، [ابن حبان 3966]، [الحميدي 428]
وضاحت: (تشریح حدیث 1863) احرام کی حالت میں شکار کرنا ممنوع ہے، سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا اس لئے ان کے شکار کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نکیر نہیں کی، اور جو لوگ احرام باندھ چکے تھے ان کو اس کا گوشت کھانے کے لئے کہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محرم شکار نہیں کر سکتا لیکن شکار کیا ہوا گوشت کھا سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، قال: بينما نحن نسير وهم محرمون، وابو قتادة حلال، إذ رايت حمارا، فركبت فرسا، فاصبته، فاكلوا من لحمه وهم محرمون ولم آكل، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فسالوه، فقال: "اشرتم، قتلتم؟ او قال: ضربتم؟ قالوا: لا، قال: فكلوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ وَهُمْ مُحْرِمُونَ، وَأَبُو قَتَادَةَ حَلَالٌ، إِذْ رَأَيْتُ حِمَارًا، فَرَكِبْتُ فَرَسًا، فَأَصَبْتُهُ، فَأَكَلُوا مِنْ لَحْمِهِ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَلَمْ آكُلْ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: "أَشَرْتُمْ، قَتَلْتُمْ؟ أَوْ قَالَ: ضَرَبْتُمْ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَكُلُوا".
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا قافلہ احرام باندھے چلا جا رہا تھا اور میں (سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ) بے احرام کے تھا کہ اچانک میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا، میں گھوڑے پر سوار ہوا اور اسے شکار کر لیا، ساتھیوں نے اس کے گوشت کو کھایا اور وہ احرام کی حالت میں ہی تھے، اور میں نے نہیں کھایا، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس بارے میں) پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تم نے اشارہ کیا؟ تم نے اسے شکار کیا؟“ یا یہ کہا کہ ”تم نے مارا؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1869]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1824]، [مسلم 1196]، [نسائي 2826]
وضاحت: (تشریح حدیث 1864) اس سے معلوم ہوا کہ محرم کا شکار کی طرف اشارہ بھی کرنا ممنوع ہے اور نہ وہ ایسی صورت میں شکار کا گوشت کھا سکتے ہیں۔
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ: ”ہم احرام کی حالت میں ہیں، شکار نہیں کھا سکتے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1870]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1824]، [مسلم 1193]، [ترمذي 849]، [نسائي 2818]، [ابن ماجه 3090]، [ابن حبان 136، 3967]، [الحميدي 801]
وضاحت: (تشریح حدیث 1865) اس ہدیہ گوشت کو لینے اور کھانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے انکار کر دیا کہ وہ شکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرنے کی نیّت سے کیا گیا تھا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
معاذ بن عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی سے روایت ہے کہ ان کے والد عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے کہ ان کو ایک پرندہ ہدیہ پیش کیا گیا اور وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے، اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سو رہے تھے تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے اس پرندے کے گوشت کو کھایا اور کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا، جب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے تو لوگوں نے انہیں اس کی خبر دی، پس سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تائید کی جنہوں نے گوشت کھا لیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شکار کا گوشت کھایا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1871]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1197]، [نسائي 2816]، [ابن حبان 3966]، [الحميدي 428]
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا دوان میں میرے پاس سے گزرے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جنگلی گدھے کا گوشت پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس کر دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر ملال دیکھا تو فرمایا: ”ہم کو یہ (لوٹانے کی ضرورت نہیں تھی) لیکن اس وقت ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1872]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے، جیسا کہ اوپر (1866) میں گزر چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1866 سے 1868) محرم کا حالتِ احرام میں شکار کرنا باتفاق علماء حرام ہے، اگر محرم نے شکار کی طرف اشارہ کیا یا شکار میں مدد دی تب بھی وہ شکار کا گوشت محرم کے لئے حرام ہے جیسا کہ حدیث سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے ظاہر ہے، ہاں اگر کسی بے احرام والے نے اپنی مرضی سے بلا کسی محرم کی مدد کے شکار کیا اور نہ اس کی یہ نیّت رہی ہو کہ وہ احرام والوں کو شکار کا گوشت کھلائے گا، ایسی صورت میں احرام والے لوگ شکار کا گوشت کھا سکتے ہیں، احادیث الباب اسی کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی شکار کا گوشت کھایا اور صحابہ کرام کو کھلایا تھا جیسا کہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ «(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)» ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا وهيب، عن معمر، عن الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، عن الفضل بن عباس، انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، جاءت امراة من خثعم، فقالت: إن فريضة الله في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستمسك على راحلته، ولم يحج، افاحج عنه، قال:"نعم". سئل ابو محمد: تقول بهذا؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَمْسِكُ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَلَمْ يَحُجَّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ، قَالَ:"نَعَمْ". سُئِلَ أَبُو مُحَمَّد: تَقُولُ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خاتون آئیں اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ کا فریضہ حج بندوں پر ادا کرنا ضروری ہے اور میرے والد بہت بزرگ ہو چکے ہیں، سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، اور انہوں نے حج نہیں کیا ہے، کیا میں ان کی طرف سے نیابۃ حج کر سکتی ہوں؟ فرمایا: ”ہاں کر سکتی ہو۔“ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا: کیا آپ کا یہی قول ہے؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1873]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1513]، [مسلم 1334]، [أبوداؤد 2633]، [أبويعلی 2384]، [ابن حبان 3989]، [الحميدي 517]
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد اتنے بوڑھے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے اور ان پر حج فرض ہو گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی طرف سے حج کر لو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري وأخرجه مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 1874]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1853]، [مسلم 1335]، [ترمذي 928]، [نسائي 2909]، [الموصلي 6717]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أخرجه البخاري وأخرجه مسلم
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، حدثني الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، ان امراة من خثعم استفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، والفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن فريضة الله على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا، لا يستطيع ان يستوي على الراحلة، فهل يقضي ان احج عنه؟ قال:"نعم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَالْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ:"نَعَمْ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع میں ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا اور سیدنا فضل ابن عباس رضی اللہ عنہما (سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بھائی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے، عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بندوں پر الله کا فریضہ حج ضروری ہو گیا ہے اور میرے والد بہت بوڑھے ہو چکے ہیں حتیٰ کہ سواری پر بھی نہیں بیٹھ سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کا حج ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہو جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1875]» اس روایت کی سند مثلِ سابق ہے۔ نیز دیکھئے: [بخاري 4399]