(حديث مرفوع) اخبرنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن ابي حصين، عن يحيى بن وثاب، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:"في كل الليل قد اوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانتهى وتره إلى السحر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهِ عَنْهَا، قَالَتْ:"فِي كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھی ہے، اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1628]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 996]، [مسلم 742]، [أبوداؤد 1435]، [ترمذي 456]، [نسائي 1680]، [ابن ماجه 1185]، [أبويعلی 4370]، [ابن حبان 2443]، [مسند الحميدي 188]
وضاحت: (تشریح حدیث 1625) دوسری روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر شروع رات، وسط اور آخر شب میں بھی پڑھی ہے، مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوعِ فجر تک کا ہے، رسولِ رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امّت کی آسانی کے لئے عشاء کے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر سے پہلے وتر پڑھ لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1629]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 754/169]، [ترمذي 468]، [نسائي 1683]، [ابن ماجه 1189، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1626) اس حدیث سے وتر کا آخری وقت معلوم ہوا جو کہ طلوعِ فجر سے پہلے تک ہے۔ اگر اس وقت نہ پڑھ سکیں تو پھر دن نکلنے کے بعد ظہر سے پہلے تک قضا کر سکتے ہیں، لیکن ایک رکعت کی جگہ دو رکعت پڑھنی ہوں گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں وتر نہ پڑھ سکے تو دن میں 12 رکعت نماز پڑھی، یعنی 11 کی جگہ بارہ رکعت۔ اس کی تفصیل حدیث نمبر (1514)، میں گذر چکی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، قال: حدثنا زكرياء، عن ابي إسحاق، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:"كان النبي صلى الله عليه وسلم يوتر بثلاث: يقرا في الاولى بسبح اسم ربك الاعلى، وفي الثانية بقل يا ايها الكافرون، وفي الثالثة بقل هو الله احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ: يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے، پہلی رکعت میں «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» دوسری رکعت میں «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» اور تیسری رکعت میں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1630]» اس حدیث کی تخریج (1625)، میں گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1627) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر میں مذکورہ بالا سورتیں: الاعلیٰ، الکافرون، الاخلاص پڑھتے تھے، جو سنّت ہے، کبھی کبھار دوسری سورتیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ کہا: ہاں (یعنی وتر سواری پر پڑھا جا سکتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1631]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 999]، [مسلم 700]، [أبوداؤد 1226]، [ترمذي 472]، [نسائي 1687]، [ابن ماجه 1200]، [أبويعلی 5459]، [ابن حبان 2413]
وضاحت: (تشریح حدیث 1628) اس حدیث سے سواری پر بیٹھے ہوئے وتر پڑھنا ثابت ہوا، علماء کرام نے کہا: یہ وتر کے عدم وجوب کی دلیل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نوافل سواری پر پڑھتے تھے اور فرض نماز پڑھنی ہوتی تو سواری سے اتر کر پڑھتے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا شعبة، عن بريد بن ابي مريم، عن ابي الحوراء السعدي، قال: قلت للحسن بن علي: ما تذكر من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:"حملني على عاتقه، فاخذت تمرة من تمر الصدقة، فادخلتها في فمي، فقال لي:"القها، اما شعرت انا لا تحل لنا الصدقة؟". قال: وكان يدعو بهذا الدعاء: "اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما اعطيت، وقني شر ما قضيت، إنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، تباركت وتعاليت"..(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: مَا تَذْكُرُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:"حَمَلَنِي عَلَى عَاتِقِهِ، فَأَخَذْتُ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَأَدْخَلْتُهَا فِي فَمِي، فَقَالَ لِي:"أَلْقِهَا، أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ؟". قَالَ: وَكَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: "اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ"..
ابوحوراء سعدی نے کہا: میں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز یاد ہے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار مجھے اپنے کندھے پر بٹھا لیا، میں نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اگل دو، کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے“، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وتر میں) یہ دعا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ ...... تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ» ۔ ”اے الله جن لوگوں کو تو ہدایت فرمائے ان کے ساتھ مجھے بھی ہدایت دے، اور جن کو تو عافیت دے ان کے ساتھ مجھے بھی عافیت دے، اور جن کا تو کارساز ہے ان کے ساتھ میرا بھی کارساز بن، اور ان تمام چیزوں میں جو تو نے مجھے دی ہیں برکت دے، اور جو تو نے میرے لئے مقدر کیا ہے مجھے اس کے شر سے بچا، تیرا ہی حکم چلتا ہے اور تیرے اوپر کسی کا حکم نہیں چلتا، جس کا تو دوست ہو گیا وہ ذلیل و خوارنہیں ہوتا، تو بڑی برکت والا بڑی شان والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1632]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1425]، [ترمذي 464]، [نسائي 1744]، [ابن ماجه 1178]
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات یاد کرائے جو میں قنوت میں کہتا ہوں۔ پھر مذکورہ بالا دعا ذکر کی، یعنی «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِيْمَنْ هَدَيْتَ ........... الخ» ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1633]» اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [أبويعلی 6759]، [ابن حبان 945]، [موارد الظمآن 512]
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، قال: حدثني ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن بريد بن ابي مريم، عن ابي الحوراء السعدي، عن الحسن بن علي رضي الله عنه، قال: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات اقولهن في قنوت الوتر: "اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما اعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنك تقضي ولا يقضى عليك، وإنه لا يذل من واليت، تباركت وتعاليت". قال ابو محمد: ابو الحوراء اسمه: ربيعة بن شيبان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ: "اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَبُو الْحَوْرَاءِ اسْمُهُ: رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ.
ابوحوراء سعدی سے مروی ہے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کلمات یاد کرائے جو میں قنوت وتر میں پڑھتا ہوں اور «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِيْمَنْ هَدَيْتَ آخرتك پڑهي تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ» تک۔ امام دارمی ابومحمد رحمہ اللہ نے کہا: ابوحوراء سعدی کا نام ربیعہ بن شیبان ہے۔ ٭بعض نسخ میں ابوالجوزاء طبع ہو گیا ہے جو غلط ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1634]» اس روایت کی سند صحیح اور تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1629 سے 1632) ان احادیث سے وتر کے قنوت میں یہ دعا: «اَللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ فِيْمَنْ هَدَيْتَ ....... إلخ» پڑھنا ثابت ہوا، امام دارمی رحمہ اللہ نے صرف اسی پر اکتفا کیا، ہو سکتا ہے دوسری دعا «اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ .... إلخ» ان کے نزدیک اس درجہ کی نہ ہو، واللہ اعلم۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جاگنا مشقت اور بوجھ ہے، پس جب تم میں سے کوئی وتر پڑھ لے تو اس کے بعد دو رکعت اور پڑھ لے، اگر وہ رات میں اٹھ گیا تو ٹھیک ورنہ یہ دو رکعت ہی اس کے قیام اللیل میں شمار ہوں گی۔“ «هٰذا السهر» کے بجائے « «هٰذا السفر» بھی کہا گیا ہے، لیکن میں «هٰذا السهر» ہی کہتا ہوں۔ یعنی سو کر جاگنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1635]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 2577]، [موارد الظمآن 683]، [مجمع الزوائد 3021]، [شرح معاني الآثار 442/1]، ليكن طحاوی کی سند ضعیف ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1632) محققین نے «إِنَّ هٰذَا السَّفَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ» کو اصح بتایا ہے، اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی ایسے ہی روایت کیا ہے، اور اس سے استدلال کیا ہے کہ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنا جائز ہے۔ نیز اس حدیث سے ان دو رکعت کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ اگر کوئی تہجد کے لئے اٹھ نہ سکے تو ان دو رکعت کا ثواب قیام اللیل کے مرادف ہے۔ لیکن اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ وتر کے بعد کوئی نماز نہیں جیسا کہ متفق علیہ حدیث ہے: «إِجْعَلُوْا آخِرَ صَلَاتِكُمْ وِتْرًا.» اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند ایک بار ہی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد دو رکعت پڑھیں جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے، اور اس کا تذکرہ گذر چکا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث بھی اگر سفر کی مناسبت سے صحیح مان لی جائے تو سفر میں ایسا کرنا درست ہوگا، نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کا مذکورہ بالا حکم ان لوگوں کے لئے بیانِ جواز ہے جو وتر پڑھ کر سو گئے پھر رات میں جاگے تو کیا کریں، وتر تو پڑھ چکے ہیں، تو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وہ وتر پڑھ لینے کے باوجود نوافل پڑھ سکتے ہیں اور انہیں دوبارہ وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ «لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ» ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں ہے «(هٰذا ما عندي، واللّٰه أعلم)» مترجم۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن ابن المسيب، وابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان"إذا اراد ان يدعو على احد او يدعو لاحد، قنت بعد الركوع، فربما قال إذا قال:"سمع الله لمن حمده، ربنا ولك الحمد، اللهم انج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام، وعياش بن ابي ربيعة، والمستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطاتك على مضر، واجعلها سنين كسني يوسف"، ويجهر بذلك، يقول في بعض صلاته في صلاة الفجر:"اللهم العن فلانا وفلانا"لحيين من احياء العرب، فانزل الله تعالى: ليس لك من الامر شيء او يتوب عليهم او يعذبهم فإنهم ظالمون سورة آل عمران آية 128.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ عَلَى أَحَدٍ أَوْ يَدْعُوَ لِأَحَدٍ، قَنَتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَرُبَّمَا قَالَ إِذَا قَالَ:"سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ"، وَيَجْهَرُ بِذَلِكَ، يَقُولُ فِي بَعْضِ صَلَاتِهِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ:"اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا"لِحَيَّيْنِ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پر بددعا کرتے یا کسی کو دعا دیتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے، بعض اوقات کہا کہ «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کے بعد دعا فرماتے: «اَللّٰهُمَّ ........ الخ» یعنی اے اللہ ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مسلمانوں میں سے جو کمزور ہیں ان کو نجات دے، اے اللہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے اور ایسی قحط سالی میں مبتلا فرما دے جیسی قحط سالی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بآواز بلند یہ دعا کرتے اور عرب کے بعض قبیلوں پر بدعا کرتے «اَللّٰهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا» اے اللہ فلاں اور فلاں پرلعنت کر، یہاں تک کہ یہ آیت شریفہ نازل ہوئی: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ»[آل عمران: 128/3]”اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے یا انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1636]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 804]، [مسلم 675]، [أبوداؤد 1442]، [نسائي 1073]، [ابن ماجه 1244]، [أبويعلی 5873]، [ابن حبان 1972]، [مسند الحميدي 968]
وضاحت: (تشریح حدیث 1633) مفسرین نے لکھا ہے یہ قنوتِ نازلہ تھی، مذکورہ بالا آیتِ شریفہ کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کرنا بند کر دیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا عاصم، قال: سالت انس بن مالك عن القنوت، فقال: قبل الركوع. قال: فقلت: إن فلانا زعم انك قلت بعد الركوع. قال: كذب، ثم حدث ان النبي صلى الله عليه وسلم "قنت شهرا بعد الركوع، يدعو على حي من بني سليم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ الْقُنُوتِ، فَقَالَ: قَبْلَ الرُّكُوعِ. قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ فُلَانًا زَعَمَ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ. قَالَ: كَذَبَ، ثُمَّ حَدَّثَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ، يَدْعُو عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ".
عاصم نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رکوع سے پہلے ہے، میں نے کہا: فلاں کا تو خیال ہے کہ آپ نے کہا ہے قنوت رکوع کے بعد ہے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے جھوٹ بولا، پھر انہوں نے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھی، یا یہ کہا کہ ایک مہینے تک آپ بنی سلیم کے ایک قبیلے پر بددعا کرتے رہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1637]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1001]، [مسلم 677]، [أبويعلی 2921]، [ابن حبان 1973]
وضاحت: (تشریح حدیث 1634) مقصد یہ کہ صرف ایک ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی ہے، تفصیل آگے آرہی ہے۔