سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1386
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن شداد ابي عمار، عن ابي اسماء الرحبي، عن ثوبان، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان ينصرف من صلاته، استغفر ثلاث مرات، ثم قال: "اللهم انت السلام ومنك السلام، تباركت يا ذا الجلال والإكرام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ مِنْ صَلَاتِهِ، اسْتَغْفَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ".
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار «اَسْتَغْفِرُ اللهُ» کہتے پھر یہ کہتے: «اللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ ...... تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ» تک۔ اے الله تو تمام عیوب سے پاک ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے اے بزرگی و عزت والے تو بڑی برکت والا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1388]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالمغیرہ کا نام عبدالقدوس بن حجاج ہے اور ابواسماء رحبی کا نام: عمرو بن مرثد ہے۔ دیکھئے: [مسلم 591]، [أبوداؤد 1513]، [ترمذي 300]، [نسائي 1336]، [ابن ماجه 928]، [ابن حبان 2003]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1387
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن وراد كاتب المغيرة بن شعبة، قال: املى علي المغيرة بن شعبة في كتاب إلى معاوية، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: "لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير. اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فِي كِتَابٍ إِلَى مُعَاوِيَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وارد نے کہا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے ایک خط لکھوایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ ( «لا اله الا الله ... منك الجد» تک) اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تمام تعریف اسی کے لئے ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے اللہ! جس کو تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں ہے، اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں، اور کسی مال دار کو اس کی مالداری تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1389]»
مذکورہ بالا حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 844]، [مسلم 593]، [أبوداؤد 1505]، [نسائي 1340]، [ابن حبان 2005]، [الحميدي 780]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1384 سے 1387)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رو بیٹھے ہوئے تین بار استغفار پڑھتے پھر «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ» کہتے اس کے بعد نمازیوں کی طرف رخ پھیرتے تھے، اور پھر بعد کے اذکار «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ» تسبیح و تہلیل اور تکبیر کہتے، آیت الکرسی اور سورۂ اخلاص و معوذتین پڑھتے اور دیر تک بیٹھتے دعا و اذکار کرتے تھے جیسا کہ آگے بھی آرہا ہے۔
ان احادیث میں کہیں بھی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ثبوت نہیں ہے، نیز یہ کہ صحیح روایات میں «اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.» تک ہی وارد ہے «وَمِنْكَ السَّلَامُ» کے بعد «وَإِلَيْكَ يَرْجَعُ السَّلَامُ وَادْخِلْنَا دَارُ السَّلَامُ» کی زیادتی اور اس کا التزام کسی صحیح سند سے منقول و ماثور نہیں ہے، اپنی طرف سے اضافہ ہے جو چھوڑ دینا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
89. باب عَلَى أَيِّ شِقَّيْهِ يَنْصَرِفُ مِنَ الصَّلاَةِ:
89. امام نماز کے بعد کس جانب رخ کرے؟
حدیث نمبر: 1388
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن الاعمش، عن عمارة، عن الاسود، عن عبد الله، قال: لا يجعل احدكم للشيطان نصيبا من صلاته: يرى ان حقا عليه ان لا ينصرف إلا عن يمينه، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كثيرا "ينصرف عن يساره".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَا يَجْعَلْ أَحَدُكُمْ لِلشَّيْطَانِ نَصِيبًا مِنْ صَلَاتِهِ: يَرَى أَنَّ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا "يَنْصَرِفُ عَنْ يَسَارِهِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی نماز میں سے کچھ بھی شیطان کا حصہ نہ لگائے اس طرح کہ داہنی طرف سے ہی پلٹنا اپنے لئے ضروری قرار دے لے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز کے بعد) کثرت سے بائیں طرف سے پلٹتے دیکھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1390]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 852]، [مسلم 707]، [أبوداؤد 1042]، [نسائي 1359]، [ابن ماجه 930]، [أبويعلی 5174]، [ابن حبان 1997]، [الحميدي 127]، اس کی سند میں عمارہ: ابن عمیر اور الاسود: ابن یزید ہیں۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1387)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مستحب عمل کو واجب کر لینا شیطانی عمل ہے، اور جب مستحب کام شیطانی ہو جائے تو مکروہ و منکر اور بدعت کو لازم پکڑنے اور سنّت سے اعراض کرنے کی کیا حیثیت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ اس سے سب کو محفوظ رکھے۔
آمین

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1389
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، قال: سمعت انسا، يقول: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "ينصرف عن يمينه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دائیں طرف سے مڑتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1391]»
اس روایت کی یہ سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 708]، [نسائي 1358]، [أبويعلی 4042]، [ابن حبان 1996]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 1390
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن السدي، قال: سمعت انس بن مالك، قال: "انصرف النبي صلى الله عليه وسلم عن يمينه يعني: في الصلاة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ السُّدِّيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: "انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ يَعْنِي: فِي الصَّلَاةِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد اپنے دائیں طرف سے پھرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1392]»
یہ سند بھی حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1388 سے 1390)
یعنی دائیں طرف سے نمازیوں کی طرف رخ کیا۔
ان احادیث سے دائیں بائیں دونوں طرف سے مقتدی حضرات کی طرف رخ کرنے کا ثبوت ملتا ہے، احادیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور یمین کی فضیلت کی وجہ سے علماء نے دائیں طرف سے نمازیوں کی طرف رخ کرنے کو ترجیح دی ہے عمل دونوں پر ہو تو بہتر ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
90. باب التَّسْبِيحِ في دُبُرِ الصَّلَوَاتِ:
90. نماز کے بعد تسبیح کا بیان
حدیث نمبر: 1391
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا هقل، عن الاوزاعي، قال: حدثني حسان بن عطية، قال: حدثني محمد بن ابي عائشة، عن ابي هريرة، قال: قال ابو ذر: يا رسول الله، ذهب اصحاب الدثور بالاجور، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ولهم فضول اموال يتصدقون، بها وليس لنا ما نتصدق. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "افلا اعلمك كلمات إذا انت قلتهن، ادركت من سبقك، ولم يلحقك من خلفك إلا من عمل بمثل عملك؟". قال: قلت: بلى يا رسول الله. قال:"تسبح دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، وتحمده ثلاثا وثلاثين، وتكبره ثلاثا وثلاثين، وتختمها بلا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِقْلٌ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ أَصْحَابُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ فُضُولُ أَمْوَالٍ يَتَصَدَّقُونَ، بِهَا وَلَيْسَ لَنَا مَا نَتَصَدَّقُ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ إِذَا أَنْتَ قُلْتَهُنَّ، أَدْرَكْتَ مَنْ سَبَقَكَ، وَلَمْ يَلْحَقْكَ مَنْ خَلَفَكَ إِلَّا مَنْ عَمِلَ بِمِثْلِ عَمَلِكَ؟". قَالَ: قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:"تُسَبِّحُ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَخْتِمُهَا بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! امیر لوگ تو سارے اجر و ثواب کو لے گئے، ہم جیسے نماز پڑھتے ہیں وہ بھی نماز پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں وہ بھی روزہ رکھتے ہیں، وہ اپنے باقی مانده مال سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں جو صدقہ کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں کہ اگر تم اس کی پابندی کرو گے تو جو تم سے (اجر میں) آگے بڑھ چکے ہیں ان کو پا لو گے اور تمہارے مرتبے تک کوئی نہیں پہنچ سکتا سوائے اس کے جو تمہارے جیسا ہی عمل کرے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا عمل ضرور بتایئے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا (وہ عمل یہ ہے) کہ ہر نماز کے بعد تم 33 مرتبہ «سبحان الله» کہو، اور 33 مرتبہ «الحمد لله» کہو، اور 33 مرتبہ «الله اكبر» کہو، اور آخر میں «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْيءٍ قَدِيْر» سے سو کی تکمیل کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1393]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 843]، [مسلم 595]، [أبويعلی 6587]، [ابن حبان 2015]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1390)
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو امیر و غریب سب نے ایسا ہی شروع کر دیا، فقراء مہاجرین پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے امیر کبیر بھائیوں نے بھی یہ سن کر ایسا ہی عمل شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ , يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ.» یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے نواز دے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1392
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، حدثنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن كثير بن افلح، عن زيد بن ثابت، قال: "امرنا ان نسبح في دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، ونحمده ثلاثا وثلاثين، ونكبر اربعا وثلاثين"، فاتي رجل او اري رجل من الانصار في المنام، فقيل: امركم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تسبحوا الله في دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، وتحمدوا ثلاثا وثلاثين، وتكبروا اربعا وثلاثين؟ قال: نعم. قال: فاجعلوها خمسا وعشرين، خمسا وعشرين، واجعلوا معها التهليل، فاخبر بذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:"افعلوها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "أُمِرْنَا أَنْ نُسَبِّحَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَنَحْمَدَهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَنُكَبِّرَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، فَأُتِيَ رَجُلٌ أَوْ أُرِيَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْمَنَامِ، فَقِيلَ: أَمَرَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُسَبِّحُوا اللَّهَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتَحْمَدُوا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَتُكَبِّرُوا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَاجْعَلُوهَا خَمْسًا وَعِشْرِينَ، خَمْسًا وَعِشْرِينَ، وَاجْعَلُوا مَعَهَا التَّهْلِيلَ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"افْعَلُوهَا".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں ہر نماز کے بعد 33 بار «سبحان الله»، 33 بار «الحمد لله»، 34 بار «الله اكبر» کہنے کا حکم دیا گیا، تو انصار میں سے ایک آدمی کو خواب میں کہا گیا کہ تمہارے پیغمبر نے تم کو ہر نماز کے بعد 33 بار تسبیح کا، 33 بار تحمید کا اور 34 بار تکبیر کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو اس نے کہا: ان کو 25، 25 بار کہو اور 25 بار «لا اله الا الله» کہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خواب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا ہی کر لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1394]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 1349]، [ابن حبان 2017]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1391)
مومن کا خواب سچا ہوتا ہے لیکن خواب سے شرعی احکام کا ثبوت نہیں ہوتا، یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دیکھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے درست قرار دیا جو ہو سکتا ہے الہام یا وحی کے ذریعے سے ہو، بہر حال اس طرح ہر کلمہ 25، 25 بار پڑھنا بھی درست ہے اور 33، 33، 34 بار پڑھنا بھی صحیح ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
91. باب مَا أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:
91. قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا محاسبہ ہو گا اس کا بیان
حدیث نمبر: 1393
Save to word اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن داود بن ابي هند، عن زرارة بن اوفى، عن تميم الداري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن اول ما يحاسب به العبد الصلاة، فإن وجد صلاته كاملة، كتبت له كاملة، وإن كان فيها نقصان، قال الله تعالى لملائكته: انظروا هل لعبدي من تطوع فاكملوا له ما نقص من فريضته، ثم الزكاة، ثم الاعمال على حسب ذلك". قال ابو محمد: لا اعلم احدا رفعه غير حماد. قيل لابي محمد: صح هذا؟ قال: لا.(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلَاةُ، فَإِنْ وَجَدَ صَلَاتَهُ كَامِلَةً، كُتِبَتْ لَهُ كَامِلَةً، وَإِنْ كَانَ فِيهَا نُقْصَانٌ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَأَكْمِلُوا لَهُ مَا نَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ، ثُمَّ الزَّكَاةُ، ثُمَّ الْأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ حَمَّادٍ. قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: صَحَّ هَذَا؟ قَالَ: لَا.
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، پس اگر اس کی نماز کامل ہوئی تو کامل لکھ دی جائے گی اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائے گا: دیکھو میرے (اس) بندے کی نفلی نماز ہے؟ اگر ہے تو اسی نفلی نماز سے اس کی فرض نماز کو پورا کر دو۔ زکاۃ اور سارے فرض اعمال میں ایسا ہی حکم ہو گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: مجھے علم نہیں کہ حماد کے علاوہ کسی نے اس روایت کو مرفوع روایت کیا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے کہا گیا: کیا اس کا مرفوع ہونا صحیح ہے؟ کہا: نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1395]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 866]، [ابن ماجه 1426]، [أحمد 103/4]، [بيهقي 387/2]، [حاكم 262/1]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1392)
اس حدیث سے نماز کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔
بعض احادیث میں ہے کہ سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہوگا وہ خون کا حساب ہے۔
علماء نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا اور حقوق العباد میں سب سے پہلے خون کا حساب ہوگا۔
جو لوگ عمداً نماز چھوڑ دیتے ہیں، نماز ہی نہیں پڑھتے ان کا حساب کس طرح ہوگا؟ اور پھر جب نماز ہی میں کمی ہو تو پھر دوسرے اعمال کا کیا حال ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بہتر سے بہتر ادائیگی کی توفیق بخشے۔
آمین

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
92. باب صِفَةِ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
92. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ
حدیث نمبر: 1394
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن عبد الحميد بن جعفر، حدثني محمد بن عمرو بن عطاء، قال: سمعت ابا حميد الساعدي في عشرة من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، احدهم ابو قتادة، قال: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقالوا: لم؟ فما كنت اكثرنا له تبعة، ولا اقدمنا له صحبة؟ قال: بلى. قالوا: فاعرض. قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "إذا قام إلى الصلاة، رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم كبر حتى يقر كل عظم في موضعه، ثم يقرا، ثم يكبر ويرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه، ثم يركع ويضع راحتيه على ركبتيه حتى يرجع كل عظم إلى موضعه، ولا يصوب راسه ولا يقنع، ثم يرفع راسه فيقول: سمع الله لمن حمده، ثم يرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه يظن ابو عاصم انه قال: حتى يرجع كل عظم إلى موضعه معتدلا، ثم يقول: الله اكبر، ثم يهوي إلى الارض فيجافي يديه عن جنبيه، ثم يسجد، ثم يرفع راسه فيثني رجله اليسرى فيقعد عليها، ويفتح اصابع رجليه إذا سجد، ثم يعود فيسجد، ثم يرفع راسه فيقول: الله اكبر، ويثني رجله اليسرى فيقعد عليها معتدلا، حتى يرجع كل عظم إلى موضعه معتدلا، ثم يقوم فيصنع في الركعة الاخرى مثل ذلك، فإذا قام من السجدتين، كبر ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما فعل عند افتتاح الصلاة، ثم يصنع مثل ذلك في بقية صلاته، حتى إذا كانت السجدة او القعدة التي يكون فيها التسليم، اخر رجله اليسرى وجلس متوركا على شقه الايسر". قال: قالوا: صدقت، هكذا كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالُوا: لِمَ؟ فَمَا كُنْتَ أَكْثَرَنَا لَهُ تَبَعَةً، وَلَا أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً؟ قَالَ: بَلَى. قَالُوا: فَاعْرِضْ. قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ كَبَّرُ حَتَّى يَقَرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، وَلَا يُصَوِّبُ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ يَظُنُّ أَبُو عَاصِمٍ أَنَّهُ قَالَ: حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَسْجُدُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، ثُمَّ يَعُودُ فَيَسْجُدُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا مُعْتَدِلًا، حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُومُ فَيَصْنَعُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ، كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا فَعَلَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ السَّجْدَةُ أَوْ الْقَعْدَةُ الَّتِي يَكُونُ فِيهَا التَّسْلِيمُ، أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَجَلَسَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ". قَالَ: قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کے ساتھ تھے، ان میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تم سب سے زیادہ علم ہے۔ انہوں نے کہا: ایسا کیوں؟ تم ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کرنے والے اور ہم سے زیادہ آپ کے ساتھ رہنے والے نہیں ہو؟ کہا: ہاں، ایسا ہی ہے، انہوں نے کہا: تو پھر پیش کیجئیے؟ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے، پھر اللہ اکبر کہتے یہاں تک کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے، پھر آپ قرأت کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے پھر رکوع میں جاتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی اصلی حالت پر آ جاتی اور (رکوع میں) نہ سر کو اٹھاتے تھے اور نہ جھکاتے تھے (پیٹھ کے برابر رکھتے)، پھر اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده» کہتے اور اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے۔ ابوعاصم کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے اس وقت بھی انہوں نے کہا: (رکوع سے اٹھ کر کھڑے رہتے) یہاں تک کہ ہر ہڈی (جوڑ) اپنی جگہ (اصلی حالت) پر آ جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله اکبر کہتے اور سجدے میں چلے جاتے اور سجدے میں اپنے دونوں ہاتھ (بازو) پہلو سے دور رکھتے، پھر سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں قدم موڑ کر اس پر بیٹھتے، اور جب سجدہ کرتے پیروں کی انگلیاں کھلی رکھتے، پھر دوسرا سجدہ کرتے، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں پیر موڑ کر اس پر اچھی طرح بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی (جوڑ) اپنی اصلی حالت پر آ جاتی (یعنی باطمینان جلسہ استراحت فرماتے)، پھر کھڑے ہوتے اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے، اور جب تیسری رکعت کے لئے قیام فرماتے تو پھر رفع یدین کندھوں تک کرتے جیسا کہ نماز شروع کرتے وقت کیا تھا، پھر اپنی نماز اسی طرح پوری فرماتے تھے حتی کہ جب آخری تشہد یا قعدہ جس میں سلام پھیرنا ہوتا ہے بیٹھتے تو بایاں قدم کو (دایاں پیر کے نیچے سے) نکالتے اور بائیں جانب پر تورک کرتے ہوئے بیٹھتے۔ راوی نے کہا: ان دسوں صحابہ نے کہا: تم نے بالکل سچ کہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بالکل یہی طریقہ تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1396]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 828]، [أبوداؤد 730]، [ترمذي 304]، [نسائي 1180]، [ابن ماجه 803]، [ابن حبان 1865، 1866]، [موارد الظمآن 491، 492]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1395
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو، حدثنا زائدة بن قدامة، حدثنا عاصم بن كليب، اخبرني ابي، ان وائل بن حجر اخبره، قال: قلت: لانظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي؟ فنظرت إليه "فقام فكبر، فرفع يديه حتى حاذتا باذنيه، ووضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى، قال: ثم لما اراد ان يركع، رفع يديه مثلها، ووضع يديه على ركبتيه، ثم رفع راسه، فرفع يديه مثلها، ثم سجد فجعل كفيه بحذاء اذنيه، ثم قعد فافترش رجله اليسرى، ووضع كفه اليسرى على فخذه وركبته اليسرى، وجعل مرفقه الايمن على فخذه اليمنى، ثم قبض ثنتين، فحلق حلقة، ثم رفع اصبعه فرايته يحركها، يدعو بها". قال: ثم جئت بعد ذلك في زمان فيه برد، فرايت على الناس جل الثياب يحركون ايديهم من تحت الثياب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي؟ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ "فَقَامَ فَكَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى، قَالَ: ثُمَّ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، رَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَهَا، ثُمَّ سَجَدَ فَجَعَلَ كَفَّيْهِ بِحِذَاءِ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَعَدَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخْذِهِ الْيُمْنَى، ثُمَّ قَبَضَ ثِنْتَيْنِ، فَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا، يَدْعُو بِهَا". قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ، فَرَأَيْتُ عَلَى النَّاسِ جُلَّ الثِّيَابِ يُحَرِّكُونَ أَيْدِيَهُمْ مِنْ تَحْتِ الثِّيَابِ.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دل میں ٹھانی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا: کھڑے ہوئے اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے (یعنی رفع یدین کیا)، اور اپنا دایاں ہاتھ بایاں پنجے کے اوپر رکھا، پھر جب آپ نے رکوع کا ارادہ فرمایا تو اپنے ہاتھ اسی طرح اٹھائے (رفع یدین کیا) اور (رکوع میں) اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو رفع یدین کیا، پھر سجدہ کیا تو اپنے ہاتھ کو کانوں کے برابر رکھا، پھر (سجدے سے اٹھ کر) بیٹھے تو بایاں پیر (قدم) کو بچھا دیا اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران اور بائیں گھٹنے پر رکھا اور دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھا، پھر دو انگلیوں (یعنی انگوٹھا اور بیچ کی انگلی) کو موڑ کر حلقہ بنایا اور شہادت کی انگلی کو کھڑا رکھا۔ میں نے دیکھا آپ اسے حرکت دے رہے تھے گویا کہ اشارے سے دعا کر رہے ہیں۔ سیدنا وائل رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں کافی عرصے کے بعد سردیوں میں آیا تو دیکھا لوگ چادر میں (ملبوس) ہیں اور (رفع یدین کے لئے) چادر کے اندر اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1397]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 957]، [نسائي 1262]، [ابن ماجه 867]، [ابن حبان 1860]، [موارد الظمآن 485]، [الحميدي 909]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    14    15    16    17    18    19    20    21    22    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.