(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، حدثنا عوف، عن سيار بن سلامة، قال: دخلت مع ابي على ابي برزة الاسلمي وهو على علو من قصب، فساله ابي عن وقت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"كان يصلي الهجير التي تدعون الظهر إذا دحضت الشمس، وكان يصلي العصر ثم ينطلق احدنا إلى اهله في اقصى المدينة والشمس حية قال: ونسيت ما ذكر في المغرب، وكان يستحب ان يؤخر من صلاة العشاء التي تدعون العتمة، وكان ينصرف من صلاة الصبح والرجل يعرف جليسه، وكان يقرا فيها من الستين إلى المئة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَهُوَ عَلَى عُلْوٍ مِنْ قَصَبٍ، فَسَأَلَهُ أَبِي عَنْ وَقْتِ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"كَانَ يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَ الظُّهْرَ إِذَا دَحَضَتْ الشَّمْسُ، وَكَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ ثُمَّ يَنْطَلِقُ أَحَدُنَا إِلَى أَهْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ قَالَ: وَنَسِيتُ مَا ذَكَرَ فِي الْمَغْرِبِ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الَّتِي تَدْعُونَ الْعَتَمَةَ، وَكَانَ يَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَالرَّجُلُ يَعْرِفُ جَلِيسَهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِيهَا مِنْ السِّتِّينَ إِلَى الْمِئَةِ".
سیار بن سلامۃ نے کہا: میں اپنے والد کے ساتھ سیدنا ابوبرزۃ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جو بانس کی ایک جھونپڑی میں تھے، میرے والد نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات صلاة کے بارے میں دریافت کیا تو سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «هجير» جس کو تم ظہر کہتے ہو زوال آفتاب کے وقت پڑھتے تھے، اور عصر کی نماز جب پڑھ لیتے تو ہم میں سے کوئی شخص مدینے کے انتہائی کنارے پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا، سیار نے کہا: انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا تھا مجھے یاد نہ رہا، اور عشاء کی نماز جسے تم «عتمة» کہتے ہو اس میں تاخیر پسند فرماتے تھے، اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان سکتا اور آپ اس (صبح کی نماز) میں ساٹھ سے سو آیات تک قرأت کرتے تھے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1331 سے 1336) مذکورہ بالا تمام احادیث سے نمازِ فجر میں قراءت کی مقدار معلوم ہوئی جو اکثر و بیشتر لمبی ہوتی تھی جیسا کہ اس آخری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 60 سے 100 آیات تک فجر کی نماز میں پڑھا کرتے تھے، کبھی کبھار قصار مفصل جیسے سورۂ تکویر وغیرہ بھی پڑھ لیتے تھے، اس آخری حدیث میں اوقاتِ نماز بھی مذکور ہیں جن کا ذکر پچھلے ابواب میں گذر چکا ہے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں کو نماز میں آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دیکھا تو فرمایا: ”تم اس سے باز آ جاؤ ورنہ تمہاری آنکھوں سے بنائی جاتی رہے گی۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا محمد بن بشر، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه، قال: "ما بال اقوام يرفعون ابصارهم إلى السماء في صلاتهم؟"فاشتد قوله في ذلك حتى قال:"لتنتهن عن ذلك او ليخطفن الله ابصاركم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ، قَالَ: "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلَاتِهِمْ؟"فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى قَالَ:"لَتَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَيَخْطَفَنَّ اللَّهُ أَبْصَارَكُمْ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہے جو لوگ نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہایت سختی سے روکا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس حرکت سے باز آ جاؤ گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمہاری بینائی اچک لے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح محمد بن بشر سمع من سعيد قبل اختلاطه، [مكتبه الشامله نمبر: 1340]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 750]، [أبوداؤد 905]، [نسائي 1192]، [ابن ماجه 1044]، [أبويعلی 2918]، [ابن حبان 2284]
وضاحت: (تشریح احادیث 1336 سے 1338) اس حدیث میں نماز کے دوران آسمان کی طرف نظر اٹھانے پر سخت ترین وعید ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ الله تعالیٰ ان کی بینائی ختم کر دے، اس لئے نماز میں اس سے بچنا چاہئے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح محمد بن بشر سمع من سعيد قبل اختلاطه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا إسرائيل، حدثنا ابو يعفور العبدي، حدثني مصعب بن سعد، قال: كان بنو عبد الله بن مسعود إذا ركعوا، جعلوا ايديهم بين افخاذهم، فصليت إلى جنب سعد، فصنعته، فضرب يدي، فلما انصرف، قال: يا بني، اضرب بيديك ركبتيك، ثم فعلته مرة اخرى بعد ذلك بيوم فصليت إلى جنبه، فضرب يدي، فلما انصرف قال:"كنا نفعل هذا، وامرنا ان نضرب بالاكف على الركب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: كَانَ بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِذَا رَكَعُوا، جَعَلُوا أَيْدِيَهُمْ بَيْنَ أَفْخَاذِهِمْ، فَصَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ سَعْدٍ، فَصَنَعْتُهُ، فَضَرَبَ يَدِي، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: يَا بُنَيَّ، اضْرِبْ بِيَدَيْكَ رُكْبَتَيْكَ، ثُمَّ فَعَلْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى بَعْدَ ذَلِكَ بِيَوْمٍ فَصَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَضَرَبَ يَدِي، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:"كُنَّا نَفْعَلُ هَذَا، وَأُمِرْنَا أَنْ نَضْرِبَ بِالْأَكُفِّ عَلَى الرُّكَبِ".
مصعب بن سعد نے بیان کیا کہ بنو عبدالله بن مسعود جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھ رانوں کے درمیان رکھتے تھے، لہٰذا میں نے (اپنے والد) سعد (بن ابی وقاص) کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے ایسا ہی کیا، لیکن انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: بیٹے اپنے ہاتھوں کو (رکوع میں) گھٹنوں پر رکھو، میں نے ایک دن بعد پھر ان کے پہلو میں نماز پڑھی تو ویسے ہی کیا، انہوں نے پھر میرے ہاتھ کو مارا، اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: ہم اسی طرح (ہاتھ ملا کر رانوں کے بیچ) رکھتے تھے، ہم کو حکم دیا گیا کہ ہم ہتھیلیوں کو گھٹنوں پر رکھیں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1341]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 790]، [مسلم 535]، [أبويعلی 812]، [ابن حبان 1882]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا همام، حدثنا عطاء بن السائب، عن سالم البراد، قال: وكان عندي اوثق عندي من نفسي، قال: قال لنا ابو مسعود الانصاري: الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "فكبر وركع، ووضع يديه على ركبتيه، وفرج بين اصابعه حتى استقر كل شيء منه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَالِمٍ الْبَرَّادِ، قَالَ: وَكَانَ عِنْدِي أَوْثَقَ عِنْدِي مِنْ نَفْسِي، قَالَ: قَالَ لَنَا أَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ: أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فَكَبَّرَ وَرَكَعَ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ حَتَّى اسْتَقَرَّ كُلُّ شَيْءٍ مِنْهُ".
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاؤں؟ (سالم البراد نے) کہا: چنانچہ انہوں نے تکبیر کہی، رکوع کیا اور اپنے دونوں ہاتھ (ہتھیلیاں) اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے، اور اپنی انگلیاں کھلی رکھیں یہاں تک کہ ہر جوڑ سیدھا ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف همام متأخر السماع من عطاء. ولكن الحديث صحيح كما تبين من مصادر التخريج، [مكتبه الشامله نمبر: 1343]» ہمام کا لقاء عطاء سے متاخر تھا اس لئے مذکورہ بالا سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 863]، [نسائي 1035]، [مسند أحمد 119/4] و [الحاكم 224/1]
وضاحت: (تشریح احادیث 1338 سے 1341) ان احادیث کو ذکر کرنے سے امام دارمی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رکوع میں پہلے دونوں ہاتھ رانوں کے بیچ رکھے جاتے تھے جو بعد میں منسوخ ہو گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر رکھتے تھے اور انگلیاں کھلی رکھتے تھے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف همام متأخر السماع من عطاء. ولكن الحديث صحيح كما تبين من مصادر التخريج
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا موسى بن ايوب، حدثني عمي إياس بن عامر، قال: سمعت عقبة بن عامر، يقول: لما نزلت فسبح باسم ربك العظيم سورة الواقعة آية 74، قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اجعلوها في ركوعكم"، فلما نزلت سبح اسم ربك الاعلى سورة الاعلى آية 1 قال:"اجعلوها في سجودكم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَمِّي إِيَاسُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ سورة الواقعة آية 74، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجْعَلُوهَا فِي رُكُوعِكُمْ"، فَلَمَّا نَزَلَتْ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1 قَالَ:"اجْعَلُوهَا فِي سُجُودِكُمْ".
سیدنا عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ﴾» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”یہ رکوع میں کہا کرو“، پھر جب «﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے سجدوں میں پڑھا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1344]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 869]، [ابن ماجه 887]، [أبويعلی 1738]، [ابن حبان 1898]
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن سليمان، عن المستورد، عن صلة بن زفر، عن حذيفة، انه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فكان يقول في ركوعه: "سبحان ربي العظيم"، وفي سجوده:"سبحان ربي الاعلى"، وما اتى على آية رحمة إلا وقف عندها فسال، وما اتى على آية عذاب إلا تعوذ.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: "سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ"، وَفِي سُجُودِهِ:"سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى"، وَمَا أَتَى عَلَى آيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ عِنْدَهَا فَسَأَلَ، وَمَا أَتَى عَلَى آيَةِ عَذَابٍ إِلَّا تَعَوَّذَ.
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں «سجان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الاعلي» کہتے تھے، اور آیت رحمت سے گزرتے تو ٹھہر جاتے اور رحمت کی دعا کرتے، اور آیت عذاب پڑھتے تو پناہ طلب کرتے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا فليح بن سليمان، عن عباس بن سهل، قال: اجتمع محمد بن مسلمة، وابو اسيد، وابو حميد، وسهل بن سعد، فذكروا صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو حميد: انا اعلمكم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم "قام فكبر ورفع يديه، ثم رفع يديه حين كبر للركوع، ثم ركع ووضع يديه على ركبتيه كانه قابض عليهما، ووتر يديه فنحاهما عن جنبيه، ولم يصوب راسه، ولم يقنعه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ: اجْتَمَعَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَأَبُو أُسَيْدٍ، وَأَبُو حُمَيْدٍ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "قَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، ثُمَّ رَكَعَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ كَأَنَّهُ قَابِضٌ عَلَيْهِمَا، وَوَتَرَ يَدَيْهِ فَنَحَّاهُمَا عَنْ جَنْبَيْهِ، وَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُقْنِعْهُ".
عباس بن سہل سے مروی ہے کہ محمد بن مسلمہ، ابواسید، ابوحمید اور سہل بن سعد اکھٹے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ ہوا، ابوحمید نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تم سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لئے) کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے تو رفع یدین کرتے پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر رکھتے تھے، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پکڑے ہوئے ہوں، اور اپنی دونوں کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھتے تھے، اور (رکوع میں) نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر کو جھکاتے تھے اور نہ اوپر اٹھاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1346]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1865]، [موارد الظمآن 491]
وضاحت: (تشریح حدیث 1343) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع کرنے کا طریقہ معلوم ہوا، دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے، اور کہنیوں کو پہلو سے دور رکھنے، اور سر کو پیٹھ اور کمر کے برابر رکھنے کا ثبوت ملا کہ نہ سر پیٹھ سے اونچا رہے اور نہ نیچا، یہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع کرنے کا طریقہ، نیز اس حدیث میں رفع یدین کرنے کا بھی ثبوت ہے اور دیگر صحابہ کرام کی اس پر تصدیق ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة، رفع يديه حذو منكبيه، فإذا ركع، فعل مثل ذلك، وإذا رفع راسه من الركوع، فعل مثل ذلك، وقال: "سمع الله لمن حمده، اللهم ربنا ولك الحمد"، ولا يفعل ذلك في السجود.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، فَإِذَا رَكَعَ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَقَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"، وَلَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ.
سالم نے اپنے والد (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو کندھوں تک اپنے ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع کرتے تو ایسا ہی (رفع یدین) کرتے، پھر جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو ایسے ہی رفع یدین کرتے اور «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہتے، اور سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے (یعنی رفع یدین نہیں کرتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1347]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 735]، [مسلم 390]، [أبوداؤد 722]، [ترمذي 255]، [نسائي 1024]، [ابن ماجه 858]، [أبويعلی 5420]، [ابن حبان 1861]
وضاحت: (تشریح حدیث 1344) اس حدیث میں رفع یدین کرنے اور اس کی کیفیت کا بیان ہے، نیز یہ بیان کیا گیا ہے کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کیا کہنا چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنا درست نہیں ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه