سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے، اور ہم میں سے ہر ایک کو وضو اس وقت تک کافی ہوتا جب تک کوئی وضو توڑنے والی چیز پیش نہ آ جاتی۔ (یعنی پیشاب، پاخانہ، نیند وغیرہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 747]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 214]، [معجم الكبير 365/6]، [البيهقي 162/1]، [شرح السنة 230]، [ترمذي 60]، [أحمد 132/3]
وضاحت: (تشریح حدیث 742) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر نماز کے لئے نیا وضو مستحب ہے اور ایک وضو سے کئی نمازیں بھی ادا کی جا سکتی ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا حماد بن سلمة، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا وجد احدكم في صلاته حركة في دبره، فاشكل عليه احدث او لم يحدث، فلا ينصرفن حتى يسمع صوتا، او يجد ريحا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ حَرَكَةً فِي دُبُرِهِ، فَأَشْكَلَ عَلَيْهِ أَحْدَثَ أَوْ لَمْ يُحْدِثْ، فَلَا يَنْصَرِفَنَّ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا، أَوْ يَجِدَ رِيحًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو نماز میں سرین کے اندر حرکت محسوس ہو اور یہ (یقین) مشکل ہو جائے کہ وضو ٹوٹا ہے یا نہیں، تو وہ نماز نہ توڑے جب تک کہ آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کر لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 748]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 362]، [أحمد 414/2]، [أبوداؤد 177]، ونحوه [ترمذي 74] و [بيهقي 117/1]
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک آنکھیں دبر کا بندھن ہیں، پس جب آنکھیں سوجائیں تو (وہ) بندھن کھل جاتا ہے۔“ امام دارمی سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، جب کھڑے کھڑے سو جائے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 749]» اس حدیث کی سند ضعیف ہے، گرچہ بعض علماء نے اس حدیث کو متعدد طرق کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے۔ حوالہ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 7372]، [المعجم الكبير 272/19، 875]، [مشكل الآثار 355/4]، [البيهقي 931]، [حلية الأولياء 305/9]، [نيل الأوطار 241/1]
وضاحت: (تشریح احادیث 743 سے 745) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ دیگر احادیثِ صحیحہ سے وضاحت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بیٹھے بیٹھے نماز کے انتظار میں سو جاتے اور پھر بنا وضو کئے فریضۂ نماز ادا کر لیتے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور لیٹ کر گہری نیند سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ واللہ علم
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن سعيد بن عبيد بن السباق، عن ابيه، عن سهل بن حنيف رضي الله عنه، قال: كنت القى من المذي شدة، فكنت اكثر الغسل منه، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، وسالته عنه، فقال: "إنما يجزئك من ذلك الوضوء"، قال: قلت: فكيف بما يصيب ثوبي منه؟، قال:"خذ كفا من ماء فانضحه حيث ترى انه اصابه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ أَلْقَى مِنْ الْمَذْيِ شِدَّةً، فَكُنْتُ أُكْثِرُ الْغُسْلَ مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، فَقَالَ: "إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ"، قَالَ: قُلْتُ: فَكَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْهُ؟، قَالَ:"خُذْ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَانْضَحْهُ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَهُ".
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے مذی کی سخت شکایت تھی، جس کی وجہ سے میں اکثر غسل کیا کرتا تھا، لہٰذا میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور اس بارے میں آپ سے (حکم) دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے (اس صورت میں) وضو کر لینا کافی ہو گا۔“ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اور جو میرے کپڑوں پر لگ گئی اس کا کیا کروں؟ فرمایا: ”پانی کا ایک چلو بھر کر جہاں مذی لگ گئی ہے اس پر چھڑک دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 750]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 91/1]، [صحيح ابن خزيمه 291]، [أبوداؤد 210]، [ترمذي 115]، [ابن ماجة 506]، [صحيح ابن حبان 1102]، [موارد الظمآن 241]
وضاحت: (تشریح حدیث 745) مذی سفید چکنا پانی ہے جو ملاعبت یا بوس و کنار سے آ جاتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذی سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ناپاک ہے، دھو لینا چاہئے۔
سیدہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی عضو مخصوص کو چھو لے تو وضو کرے گا۔“ یعنی اس کا وضو ٹوٹ گیا، اور اس کو نماز کے لئے تجدیدِ وضو کرنا چاہیے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 751]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداود 181]، [ترمذي 82، 84]، [نسائي 163]، [ابن ماجه 479]۔ نیز دیکھئے: [شرح معاني الآثار 72/1]، [صحيح ابن حبان 1112] و [الموارد 211]
سیدہ بسره بنت صفوان رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو آدمی اپنی شرمگاہ کو مس کرے وہ وضو کر لے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: شرم گاہ کے سلسلے میں یہ سب سے معتمد روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 752]» یہ روایت اس سند سے ضعیف ہے، لیکن مذکورہ بالا سند صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 746 سے 748) مس ذکر و فرج سے وضو ٹوٹنے کے بارے میں صحابہ و تابعین علماء و فقہاء میں اختلاف ہے۔ صحیح اور خلاصہ یہ ہے کہ شرمگاہ کو بنا کسی حائل کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث اور حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہوتا ہے، اور جن حضرات نے طلق بن علی کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ وہ بھی جسم کا ایک ٹکڑا ہے وہ حدیث مذکور بالا بسره کی حدیث کے پائے کی نہیں، اس لئے راجح یہی ہے کہ مس ذکر سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ واللہ علم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
خارجہ بن زید انصاری نے خبر دی کہ ان کے والد سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: ”جو آگ پر پکا ہو اس کے کھانے سے وضو ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ کا عمل اس پر ہے؟ فرمایا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث، [مكتبه الشامله نمبر: 753]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن امام مسلم نے صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [مسلم كتاب الحيض 351]، [المعجم الكبير 4833 و 4834]، [نسائي 179]، [ابن حبان 1124] و [مجمع الزوائد 1315]
وضاحت: (تشریح حدیث 748) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ حدیث آگے آنے والی حدیث سے منسوخ ہے اور وضو سے مراد دھونا، کلی کرنا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صدر اول کا اس پر اجماع ہوگیا تھا کہ آگ کی پکی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے نواقض وضو میں سے صرف: ریح، نوم، مسِّ ذکر کی احادیث ذکر کی ہیں، دیگر محدثین نے وضو توڑنے والی چیزوں میں خارج من السبیلین، پیشاب، پائخانہ، خون، مذی، ودی، منی اور بدن کے کسی بھی حصے سے خون نکلنے سے، لیٹ کر سو جانے، اور بنا حائل کے شرمگاہ کو چھونے، اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے ٹوٹ جانے کی بھی احادیث ذکر کی ہیں۔ بکری کا گوشت کھانے یا کپڑے کے اوپر سے شرمگاه کو ہاتھ لگانے اور بیٹھے بیٹھے سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ نے اپنا مسلک بیان کیا ہے اور یہ ہی راجح ہے۔ (واللہ اعلم)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، حدثني جعفر بن عمرو بن امية، ان اباه عمرو بن امية رضي الله عنه اخبره، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم "يحتز من كتف شاة في يده، ثم دعي إلى الصلاة، فالقى السكين التي كان يحتز بها، ثم قام فصلى ولم يتوضا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ عَمْرَو بْنَ أُمَيَّةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يَحْتَزُّ مِنْ كَتِفِ شَاةٍ فِي يَدِهِ، ثُمَّ دُعِيَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَلْقَى السِّكِّينَ الَّتِي كَانَ يَحْتَزُّ بِهَا، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ".
جعفر بن عمرو بن اميہ سے مروی ہے کہ ان کے والد سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ایک بکری کا دستانہ چھری سے کاٹ کر کھا رہے تھے، اتنے میں نماز کے لئے بلائے گئے تو آپ نے سکین (چھری) چھوڑ دی جس سے گوشت کاٹ رہے تھے، پھر کھڑے ہوئے اور آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف كسابقه ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 754]» اس حدیث کی سند بھی حسبِ سابق ضعیف ہے، لیکن حدیث اور معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 208]، [صحيح مسلم 355]، [صحيح ابن حبان 1141]، [نيل الأوطار 252/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 749) یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث کی ناسخ ہے جس سے معلوم ہوا کہ پکا ہوا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، نیز اس حدیث میں چھری سے گوشت کاٹنے کی بھی اباحت ہے۔ لہٰذا چھری سے کاٹ کر گوشت کھایا جا سکتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف كسابقه ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن احمد الحراني، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن يزيد بن ابي حبيب، عن الجلاح، عن عبد الله بن سعيد المخزومي، عن المغيرة بن ابي بردة، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: اتى رجال من بني مدلج إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إنا اصحاب هذا البحر نعالج الصيد على رمث فنعزب فيه الليلة والليلتين والثلاث والاربع، ونحمل معنا من العذب لشفاهنا، فإن نحن توضانا به، خشينا على انفسنا، وإن نحن آثرنا بانفسنا وتوضانا من البحر، وجدنا في انفسنا من ذلك، فخشينا ان لا يكون طهورا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "توضئوا منه فإنه الطاهر ماؤه الحلال ميتته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ الْجُلَاحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رِجَالٌ مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَصْحَابُ هَذَا الْبَحْرِ نُعَالِجُ الصَّيْدَ عَلَى رَمَثٍ فَنَعْزُبُ فِيهِ اللَّيْلَةَ وَاللَّيْلَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ وَالْأَرْبَعَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا مِنْ الْعَذْبِ لِشِفَاهِنَا، فَإِنْ نَحْنُ تَوَضَّأْنَا بِهِ، خَشِينَا عَلَى أَنْفُسِنَا، وَإِنْ نَحْنُ آثَرْنَا بِأَنْفُسِنَا وَتَوَضَّأْنَا مِنْ الْبَحْرِ، وَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا مِنْ ذَلِكَ، فَخَشِينَا أَنْ لَا يَكُونَ طَهُورًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَوَضَّئُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ الطَّاهِرُ مَاؤُهُ الْحَلَالُ مَيْتَتُهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بنومدلج کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم سمندر میں رہنے والے ہیں، تختوں پر بیٹھ کر شکار کرتے ہیں، پھر رات دو رات، تین رات، چار چار راتیں غائب رہتے ہیں، اپنے ساتھ ہونٹوں کے لئے میٹھا پانی رکھتے ہیں، پس اگر اس سے وضو کر لیں تو جانوں کا خطرہ ہو جائے، اور اگر اپنے نفس کو ترجيح دے کر سمندر کے پانی سے وضو کر لیں تو ہمارے دل میں خلش رہتی ہے کہ کہیں یہ پانی ناپاک نہ ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سمندر کے پانی سے وضو کرو، اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات لكن محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 755]» اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے، لیکن دوسری صحیح اسانید سے یہ حدیث مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 83]، [ترمذي 69]، [ابن ماجه 386]، [الموطا 2/1]، [مسند أحمد 237/2] و [المستدرك 141/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 750) صحابہ کرام نے صرف پانی کے بارے میں پوچھا تھا، نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لئے بھی بتلا دیا کہ اس میں مرا جانور بھی حلال ہے اور اس میں مچھلی وغیرہ سب داخل ہیں، اور یہ حکم صرف مچھلی کے ساتھ خاص نہیں (واللہ اعلم)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات لكن محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المبارك، عن مالك قراءة، عن صفوان بن سليم، عن سعيد بن سلمة من آل الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة وهو رجل من بني عبد الدار اخبره، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إنا نركب البحر ومعنا القليل من الماء، فإن توضانا به عطشنا، افنتوضا من ماء البحر؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هو الطهور ماؤه، الحل ميتته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَالِكٍ قِرَاءَةً، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَمَعَنَا الْقَلِيلُ مِنْ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحِلُّ مَيْتَتُهُ".
مغیرہ بن ابی بردہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: بنو عبدالدار کے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم سمندر میں سوار ہوتے ہیں، اور ہمارے ساتھ تھوڑا سا میٹھا پانی ہوتا ہے، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہیں، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا پانی پاک ہے اس کا مردہ حلال ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 756]» مذکورہ بالا حدیث میں اس کی تخریج گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [صحيح ابن حبان 1243]، [البيهقي 36/1]، [شرح السنة للبغوي 281] و [نيل الأوطار 17/1-20]
وضاحت: (تشریح حدیث 751) ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ سمندر کا پانی پاک ہے، اس سے وضو اور غسل کرنا جائز ہے۔ والله اعلم۔