ابوالأحوص سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث یاد کرو، کیونکہ اس کی زندگی اس کا یاد کرنا یا مذاکرہ کرنا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي إسرائيل وهو: إسماعيل بن خليفة لكن الأثر صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 643]» اس اثر کی سند ابواسرائیل اسماعیل بن خلیفہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 726] لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے اثر رقم (617، 626، 627)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي إسرائيل وهو: إسماعيل بن خليفة لكن الأثر صحيح بشواهده
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا المسعودي، عن عون، قال: قال عبد الله رضي الله عنه لاصحابه حين قدموا عليه: هل تجالسون؟، قالوا: ليس نترك ذاك، قال: فهل تزاورون؟، قالوا: نعم، يا ابا عبد الرحمن، إن الرجل منا ليفقد اخاه، فيمشي في طلبه إلى اقصى الكوفة حتى يلقاه، قال: "فإنكم لن تزالوا بخير ما فعلتم ذلك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَوْنٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لِأَصْحَابِهِ حِينَ قَدِمُوا عَلَيْهِ: هَلْ تَجَالَسُونَ؟، قَالُوا: لَيْسَ نُتْرَكُ ذَاكَ، قَالَ: فَهَلْ تَزَاوَرُونَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّ الرَّجُلَ مِنَّا لَيَفْقِدُ أَخَاهُ، فَيَمْشِي فِي طَلَبِهِ إِلَى أَقْصَى الْكُوفَةِ حَتَّى يَلْقَاهُ، قَالَ: "فَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ".
عون بن عبداللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا: کیا تم مجلس جماتے ہو؟ جواب دیا: اسے تو ہم چھوڑتے ہی نہیں، فرمایا: کیا تم ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہو؟ جواب دیا: جی ہاں اے ابوعبدالرحمٰن! ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنے ساتھی کو نہ دیکھے تو کوفے کے آخری کنارے تک اس کو دیکھنے جاتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جب تک ایسا کرتے رہو گے خیر سے رہو گے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والإنقطاع، [مكتبه الشامله نمبر: 644]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير 8979]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والإنقطاع
قاسم بن عبدالرحمٰن مسعودی سے مروی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث کی آفت نسیان ہے (یعنی بھلا دینا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عبد الرحمن المسعودي لم يسمع عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 646]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ ابوعمیس کا نام عتبہ بن عبداللہ بن عتبہ ہے۔ تخریج دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6191]، [جامع بيان العلم 691] اس کے دیگر اسانید سے شواہد موجود ہیں «كما سيأتي» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عبد الرحمن المسعودي لم يسمع عبد الله بن مسعود
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن الاعمش، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "آفة العلم النسيان، وإضاعته ان تحدث به غير اهله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "آفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ، وَإِضَاعَتُهُ أَنْ تُحَدِّثَ بِهِ غَيْرَ أَهْلِهِ".
اعمش سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کی آفت نسیان ہے، اور اس کا ضیاع یہ ہے کہ تم نااہل کو اس کی تعلیم دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 648]» اس حدیث کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل، ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6190]، [جامع بيان العلم 690]، [المحدث الفاصل 793]
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، انبانا ابو حمزة الثمالي، عن الحسن، قال: "غائلة العلم النسيان".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَنَا أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "غَائِلَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ".
ابوحمزه التمار سے مروی ہے، حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: علم کی برائی نسیان ہے۔
تخریج الحدیث: «الأثر صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 649]» اس روایت میں ابوحمزہ کو شیخ کہا گیا ہے، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 689] اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں لہٰذا صحیح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الأثر صحيح بشواهده
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا كهمس، عن ابن بريدة، قال: قال علي: "تذاكروا هذا الحديث، وتزاوروا، فإنكم إن لم تفعلوا يدرس".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: "تَذَاكَرُوا هَذَا الْحَدِيثَ، وَتَزَاوَرُوا، فَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا يَدْرُسْ".
ابن بريدة سے مروی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس (علم) حدیث کو یاد کرو (دہراؤ)، ایک دوسرے کی زیارت کرو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ (علم) مٹ جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 650]» اس اثر کی سند صحیح ہے اور یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6185]، [جامع بيان العلم وفضله 624]، [المحدث الفاصل 721] و [الجامع لأخلاق الراوي 468،467]
(حديث مقطوع) اخبرنا بشر بن الحكم، قال: سمعت سفيان، يقول: قال الزهري: "كنت احسب باني اصبت من العلم، فجالست عبيد الله، فكاني كنت في شعب من الشعاب".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: "كُنْتُ أَحْسَبُ بِأَنِّي أَصَبْتُ مِنْ الْعِلْمِ، فَجَالَسْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ، فَكَأَنِّي كُنْتُ فِي شِعْبٍ مِنْ الشِّعَابِ".
سفیان رحمہ اللہ سے مروی ہے، امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں سمجھتا تھا کہ میں نے علم کی تکمیل کر لی، لیکن جب عبیداللہ (بن عبدالله بن مسعود) کی مجالست اختیار کی تو لگا کہ میں تو علم کی بہت ساری گھاٹی یا وادیوں میں سے صرف ایک وادی میں تھا (یعنی ان کے مقابلہ میں میرا علم بہت تھوڑا تھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 651]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعة 1395]
وضاحت: (تشریح احادیث 626 سے 649) ان تمام آثار سے علماء کی قدر و منزلت، ان کی زیارت کی اہمیت و فضیلت، اور علمی مذاکرۂ احادیث و اصول یاد کرنے کی ضرورت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ احادیث کا یاد کرنا دہرانا سمر میں داخل نہیں جس سے احادیث میں روکا گیا ہے اور علمی مذاکره رات بھر تہجد پڑھنے سے بہتر ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن حماد بن سلمة، عن حميد، قال: قيل لعمر بن عبد العزيز رحمه الله تعالي: لو جمعت الناس على شيء؟، فقال: "ما يسرني انهم لم يختلفوا، قال: ثم كتب إلى الآفاق وإلى الامصار، ليقض كل قوم بما اجتمع عليه فقهاؤهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ رَحِمَهُ الله تَعَالَي: لَوْ جَمَعْتَ النَّاسَ عَلَى شَيْءٍ؟، فَقَالَ: "مَا يَسُرُّنِي أَنَّهُمْ لَمْ يَخْتَلِفُوا، قَالَ: ثُمَّ كَتَبَ إِلَى الْآفَاقِ وَإِلَى الْأَمْصَارِ، لِيَقْضِ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ فُقَهَاؤُهُمْ".
حمید نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا: کاش آپ سارے لوگوں کو ایک چیز پر جمع کر دیتے، انہوں نے جواب دیا: اگر وہ اختلاف نہ کرتے تو مجھے مسرت نہ ہوتی، حمید نے کہا: پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے تمام شہروں اور صوبوں میں لکھ بھیجا کہ ہر جماعت اس کے مطابق فیصلہ کرے جس پر اس کے فقہاء کا اجماع ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 652]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ان الفاظ میں یہ روایت نہیں مل سکی، لیکن اس کے ہم معنی روایات موجود ہیں۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه 743، 744، 745]