(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم قال: "كانوا يكرهون ان توطا اعقابهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: "كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُهُمْ".
منصور (بن المعتمر) سے مروی ہے کہ ابراہیم نے کہا: پیچھے پیچھے چلنے کو (اسلاف کرام) ناپسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 541]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 158]، [مصنف ابن أبى شيبه 5864]
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن بسطام بن مسلم، قال: كان محمد بن سيرين إذا مشى معه الرجل قام، فقال: "الك حاجة؟ فإن كانت له حاجة، قضاها، وإن عاد يمشي معه قام، فقال: الك حاجة؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ بِسْطَامِ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ إِذَا مَشَى مَعَهُ الرَّجُلُ قَامَ، فَقَالَ: "أَلَكَ حَاجَةٌ؟ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ، قَضَاهَا، وَإِنْ عَادَ يَمْشِي مَعَهُ قَامَ، فَقَالَ: أَلَكَ حَاجَةٌ؟".
بسطام بن مسلم نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے پیچھے جب کوئی آدمی چلتا تو وہ کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اگر اس کی کوئی حاجت ہوتی تو پوری فرماتے، پھر بھی اگر وہ آپ کے پیچھے چلتا تو پوچھتے: کوئی اور حاجت ہے؟
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 542]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 267/2]
وضاحت: (تشریح احادیث 540 سے 542) یعنی وہ اپنے پیچھے کسی کا چلنا پسند نہ کرتے تھے، یہ ان لوگوں کے لئے باعثِ نصیحت ہے جو چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے آگے پیچھے حاشیہ برداری کریں۔
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا حسن بن صالح، عن ابي حمزة، عن إبراهيم، قال: "إياكم ان توطا اعقابكم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "إِيَّاكُمْ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُكُمْ".
ابوحمزہ سے مروی ہے ابراہیم نے کہا: اس سے ہوشیار رہو کہ تمہارے پیچھے چلا جائے۔ (یعنی اس سے بچنا کہ تمہارے نقشِ پا پر چلا جائے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 543]» اس روایت کی سند میں ابوحمزة میمون الاعور ضعیف ہیں، اور اسے صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔ ابونعیم: فضل بن دکین ہیں، (541) پر یہ روایت گذر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور
(حديث مقطوع) اخبرنا مخلد بن مالك، حدثنا حجاج بن محمد، حدثنا شعبة، عن الهيثم، عن عاصم بن ضمرة انه راى اناسا يتبعون سعيد بن جبير، قال: فاراه قال: نهاهم، وقال: "إن صنيعكم هذا او مشيكم هذا مذلة للتابع، وفتنة للمتبوع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْهَيْثَمِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ أَنَّهُ رَأَى أُنَاسًا يَتْبَعُونَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْر، قَالَ: فَأُرَاهُ قَالَ: نَهَاهُمْ، وَقَالَ: "إِنَّ صَنِيعَكُمْ هَذَا أَوْ مَشْيَكُمْ هَذَا مَذَلَّةٌ لِلتَّابِعِ، وَفِتْنَةٌ لِلْمَتْبُوعِ".
عاصم بن ضمرہ سے مروی ہے کہ انہوں نے دیکھا کچھ لوگ سعید بن جبیر کے پیچھے چل رہے ہیں، راوی نے کہا: میرا خیال ہے عاصم نے کہا: انہوں نے انہیں اپنے پیچھے چلنے سے روکا اور فرمایا: تمہارا یہ فعل، یا کہا: تمہارا یہ میرے پیچھے چلنا متابعت کرنے والے کے لئے خواری ہے اور (متبوع) جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لئے فتنہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن ضمرة والهيثم بن حبيب الصيرفي، [مكتبه الشامله نمبر: 544]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 932]، [العلم 123]، [مصنف ابن أبى شيبه 6364]، [الزهد للبيهقي 304]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن ضمرة والهيثم بن حبيب الصيرفي
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، حدثنا حميد بن اسود، عن ابن عون، قال: "شاورت محمدا في بناء اردت ان ابنيه في الكلاء، قال: فاشار علي، وقال: إذا اردت اساس البناء فآذني حتى اجيء معك، قال: فاتيته، قال: فبينما نحن نمشي إذ جاء رجل فمشى معه، فقام، فقال: الك حاجة؟، قال: لا، قال: اما لا، فاذهب، ثم اقبل علي، فقال: انت ايضا فاذهب، قال: فذهبت حتى خالفت الطريق".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَسْوَدَ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: "شَاوَرْتُ مُحَمَّدًا فِي بِنَاءٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَهُ فِي الْكَلَّاءِ، قَالَ: فَأَشَارَ عَلَيَّ، وَقَالَ: إِذَا أَرَدْتَ أَسَاسَ الْبِنَاءِ فَآذِنِّي حَتَّى أَجِيءَ مَعَكَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَمْشِي إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَمَشَى مَعَهُ، فَقَامَ، فَقَالَ: أَلَكَ حَاجَةٌ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَمَّا لَا، فَاذْهَبْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: أَنْتَ أَيْضًا فَاذْهَبْ، قَالَ: فَذَهَبْتُ حَتَّى خَالَفْتُ الطَّرِيقَ".
عبداللہ بن عون نے کہا: میں نے محمد (ابن سیرین رحمہ اللہ) سے کھیت میں گھر بنانے کے بارے میں مشورہ کیا، انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: جب تمہارا بنیاد رکھنے کا ارادہ ہو تو مجھے خبر کرنا، لہٰذا جب میں ان کے پاس آیا اور ہم دونوں چلنے لگے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور ان کے پیچھے چلنے لگا، محمد رحمہ اللہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اس نے کہا: نہیں، فرمایا: جب کوئی حاجت نہیں ہے تو جاؤ، پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جاؤ تم بھی جاؤ، لہٰذا میں بھی (انہیں چھوڑ کر) دوسرے راستے سے روانہ ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 545]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 267/2]
وضاحت: (تشریح احادیث 542 سے 545) ان آثار سے معلوم ہوتا ہے اسلاف کرام شہرت سے اور اپنے پیچھے کسی کے چلنے سے احتیاط برتتے تھے کیوں کہ اپنے پیچھے شاگردوں یا متبعین کی بھیڑ دیکھ کر کبر و غرور کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ بہت ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن الحجاج، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن نسير، ان الربيع كان إذا اتوه، يقول: "اعوذ بالله من شركم"، يعني: اصحابه.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ نُسَيْرٍ، أَنَّ الرَّبِيعَ كَانَ إِذَا أَتَوْهُ، يَقُولُ: "أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكُمْ"، يَعْنِي: أَصْحَابَهُ.
نسیر (ابن ذعلوق) سے مروی ہے ربیع رحمہ اللہ کے پاس جب لوگ (ان کے شاگرد) آتے تو وہ کہتے تھے: میں تمہارے شر سے الله کی پناہ چاہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 546]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 129]، [زوائد نعيم بن حماد على زهد ابن المبارك 55]
عبدالرحمٰن بن بشر نے کہا: ہم سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ان کے شاگرد ان کے پاس آئے اور وہ چپ بیٹھے رہے، کہا گیا: کیا آپ اپنے شاگردوں کو حدیث بیان نہیں کریں گے؟ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ ایسی چیز ان سے بیان کر دوں جس پر خود عمل نہیں کرتا۔
تخریج الحدیث: «في إسناده رجاء الأنصاري وهذا إسناد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 547]» اس روایت کی سند حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ ابوخیثمہ نے [العلم 16] میں اسے روایت کیا ہے، لیکن ان کی سند ضعیف ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 545 سے 547) قول و عمل میں مطابقت ضروری ہے، اسی کے پیشِ نظر سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے احتیاط کیا کہ قول عمل کے خلاف نہ ہو۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده رجاء الأنصاري وهذا إسناد ضعيف
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن صالح، قال: سمعت الشعبي، قال: "وددت اني نجوت من عملي كفافا لا لي ولا علي".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، قَالَ: "وَدِدْتُ أَنِّي نَجَوْتُ مِنْ عَمَلِي كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ".
صالح (بن صالح بن حي) نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: میری آرزو ہے کاش میں اپنے علم میں برابر سرابر ہی چھوٹ جاؤں، نہ مجھے کچھ ملے (نہ مؤاخذہ ہو) نا گناہ کا مجھ پر بوجھ ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 548]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 592/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 547) ایسا شدتِ مؤاخذہ کے ڈر سے انہوں نے کہا: « ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ﴾[البروج: 12] » ترجمہ: ”بے شک تیرے رب کی پکڑ یقینا بہت سخت ہے۔ “
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا ابن عون، عن الحسن، ان ابن مسعود رضي الله عنه كان يمشي وناس يطئون عقبه، فقال: "لا تطئوا عقبي، فوالله لو تعلمون ما اغلق عليه بابي، ما تبعني رجل منكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الْحَسَنِ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَمْشِي وَنَاسٌ يَطَئُونَ عَقِبَهُ، فَقَالَ: "لَا تَطَئُوا عَقِبِي، فَوَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أُغْلِقُ عَلَيْهِ بَابِي، مَا تَبِعَنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جا رہے تھے کہ لوگ ان کے پیچھے چلنے لگے، انہوں نے فرمایا: میرے پیچھے نہ چلو، قسم الله کی اگر تم جان لو کہ میں کس وجہ سے اپنا دروازہ بند کر لیتا ہوں تو تم میں سے کوئی آدمی میرے پیچھے نہ آئے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع الحسن لم يدرك ابن مسعود. وابن عون هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 549]» اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6365]، [المستدرك 316/3]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع الحسن لم يدرك ابن مسعود. وابن عون هو: عبد الله
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن سعيد بن جبير، قال: "فتنة للمتبوع، مذلة للتابع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "فِتْنَةٌ لِلْمَتْبُوعِ، مَذَلَّةٌ لِلتَّابِعِ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لئے فتنہ اور پیچھے چلنے والے کے لئے ذلت و خواری ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 550]» اس روایت کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے، اور تخریج رقم (544) پر گذر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد