ہارون بن عنترہ سے مروی ہے ان کے والد نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ کو ایک حدیث بیان کی، میں نے عرض کیا: میں اس کو آپ سے لکھ لوں؟ انہوں نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ کو اس کی اجازت دے دی اور روکا نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 521]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6503]، [جامع بيان العلم 409]
(حديث مقطوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثني محمد بن شعيب بن شابور، اخبرنا الوليد بن سليمان بن ابي السائب، عن رجاء بن حيوة، انه حدثه، قال: كتب هشام بن عبد الملك إلى عامله ان يسالني عن حديث، قال رجاء: "فكنت قد نسيته لولا انه كان عندي مكتوبا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي السَّائِبِ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: كَتَبَ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ إِلَى عَامِلِهِ أَنْ يَسْأَلَنِي عَنْ حَدِيثٍ، قَالَ رَجَاءٌ: "فَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُهُ لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ عِنْدِي مَكْتُوبًا".
رجاء بن حیوہ نے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہشام بن عبدالملک نے اپنے گورنر کو لکھا کہ وہ مجھ سے ایک حدیث کے بارے میں دریافت کرے، رجاء نے کہا: اگر وہ میرے پاس لکھی نہ ہوتی تو میں اس کو بھول گیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 522]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 793]، [تقييد العلم ص: 108]
(حديث مرفوع) اخبرنا الحسين بن منصور، حدثنا ابو اسامة، حدثنا ابو غفار المثنى بن سعيد الطائي، حدثني عون بن عبد الله، قال: قلت لعمر بن عبد العزيز: حدثني فلان رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرفه عمر، قلت: حدثني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن الحياء والعفاف والعي عي اللسان لا عي القلب والفقه من الإيمان، وهن مما يزدن في الآخرة، وينقصن من الدنيا، وما يزدن في الآخرة اكثر، وإن البذاء والجفاء والشح من النفاق، وهن مما يزدن في الدنيا، وينقصن في الآخرة، وما ينقصن في الآخرة اكثر"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو غِفَارٍ الْمُثَنَّى بْنُ سَعْيدٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ: حَدَّثَنِي فُلَانٌ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفَهُ عُمَرُ، قُلْتُ: حَدَّثَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الْحَيَاءَ وَالْعَفَافَ وَالْعِيَّ عِيَّ اللِّسَانِ لَا عِيَّ الْقَلْبِ وَالْفِقْهَ مِنْ الْإِيمَانِ، وَهُنَّ مِمَّا يَزِدْنَ فِي الْآخِرَةِ، وَيُنْقِصْنَ مِنْ الدُّنْيَا، وَمَا يَزِدْنَ فِي الْآخِرَةِ أَكْثَرُ، وَإِنَّ الْبَذَاءَ وَالْجَفَاءَ وَالشُّحَّ مِنْ النِّفَاقِ، وَهُنَّ مِمَّا يَزِدْنَ فِي الدُّنْيَا، وَيُنْقِصْنَ فِي الْآخِرَةِ، وَمَا يُنْقِصْنَ فِي الْآخِرَةِ أَكْثَرُ"..
عون بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ سے کہا: فلاں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حدیث بیان کی، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں پہچان لیا، میں نے عرض کیا: انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”یقیناً حیا، پاکبازی اور دل کی عاجزی نہیں بلکہ زبان کی عاجزی اور فقہ و تدبر ایمان میں سے ہیں، اور یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو آخرت کے اعمال میں اضافہ کرتی ہیں، اور دنیا کے افعال میں کمی کرتی ہیں، اور آخرت میں جو اضافہ کرتی ہیں وہ بہت زیادہ ہے۔ اور یقیناً بےہودگی، بدسلوکی اور بخیلی نفاق میں سے ہیں، اور یہ سب ان چیزوں میں سے ہیں جو دنیا میں اضافہ کرتی ہیں، لیکن آخرت میں کمی کرتی ہیں، اور جو آخرت میں کمی ہوتی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 526]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور ابواسامہ کا نام حماد بن أسامۃ ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير 29/19، 63]، [التاريخ الكبير للبخاري 88/2، 181/7]، [المعرفة والتاريخ للفسوي 311/1]، [سنن البيهقي 194/10]، [حلية الأولياء 125/3]، [مكارم الأخلاق لابن أبى الدنيا 87] و [المصنف 17423 بسند ضعيف]
ابوقلابہ نے کہا: عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نماز ظہر کے لئے نکل کر آئے اور ان کے ساتھ ایک کاغذ تھا، پھر جب نماز عصر کے لئے تشریف لائے تو اس وقت بھی وہ کاغذ ان کے ساتھ تھا، لہٰذا میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! یہ کیسی کتاب ہے؟ فرمایا: یہ وہ حدیث ہے جو عون بن عبداللہ نے مجھ سے بیان کی، مجھے پسند آئی تو میں نے لکھ لی، دیکھا تو وہی حدیث لکھی تھی۔ یعنی مذکور بالا حدیث۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 527]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ لیکن کسی دوسری کتاب میں نہ مل سکی۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا مسعود، عن يونس بن عبد الله بن ابي فروة، عن شرحبيل بن ابي سعد، قال: دعا الحسن رضي الله عنه بنيه وبني اخيه، فقال:"يا بني وبني اخي، إنكم صغار قوم يوشك ان تكونوا كبار آخرين، فتعلموا العلم، فمن لم يستطع منكم ان يرويه، او قال: يحفظه فليكتبه، وليضعه في بيته".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا مَسْعُودٌ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ أَبِي سَعْدٍ، قَالَ: دَعَا الْحَسَنُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بَنِيهِ وَبَنِي أَخِيهِ، فَقَالَ:"يَا بَنِيَّ وَبَنِي أَخِي، إِنَّكُمْ صِغَارُ قَوْمٍ يُوشِكُ أَنْ تَكُونُوا كِبَارَ آخَرِينَ، فَتَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ أَنْ يَرْوِيَهُ، أَوْ قَالَ: يَحْفَظَهُ فَلْيَكْتُبْهُ، وَلْيَضَعْهُ فِي بَيْتِهِ".
شرحبیل بن سعد نے کہا کہ حسن نے اپنے بیٹے اور بھتیجوں کو بلایا اور فرمایا: میرے اور میرے بھائی کے بیٹو! تم خاندان کے چھوٹے ہو اور قریب ہی بڑوں میں شمار ہو گے، لہٰذا علم حاصل کرو، اور تم میں سے جو روایت و حفظ کی استطاعت نہ پائے وہ اس کو لکھے اور اپنے گھر میں رکھ لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد، [مكتبه الشامله نمبر: 528]» اس روایت کی سند شرحبیل بن سعد کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص:91]، [جامع بيان العلم 448]
وضاحت: (تشریح احادیث 523 سے 528) ان تمام روایات سے احادیث یا علمی باتیں لکھ لینے کی ترغیب و اجازت اور اہمیت ثابت ہوتی ہے، اور صحابہ کرام و تابعین سے کتابتِ حدیث کی کراہت یا ناپسندیدگی اس وقت کے لئے تھی جب قرآن کریم اور احادیث شریفہ کے خلط ملط ہونے کا خدشہ تھا، خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابتِ حدیث سے منع فرمایا، لیکن بعد میں اجازت دے دی تھی، جیسا کہ مختلف احادیث میں گزر چکا ہے، لہٰذا آج کے زمانے میں جب کہ قرآن و حدیث مدون ہیں حدیث لکھنے یا دروس اور نوٹس بنانے یا لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس باب کی احادیث، آثار و اقوالِ صحابہ و تابعین سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد
(حديث مرفوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثنا سفيان بن عيينة، حدثناه عاصم، عن شقيق، عن جرير رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من سن سنة حسنة عمل بها بعده، كان له مثل اجر من عمل بها من غير ان ينقص من اجره شيء، ومن سن سنة سيئة، كان عليه مثل وزر من عمل بها من غير ان ينقص من اوزارهم شيء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَاهُ عَاصِمٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ جَرِيرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً عُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ".
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اچھی بات (کتاب و سنت کی بات) رائج کرے اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو اس کے لئے اتنا ثواب ہو گا جتنا اس پر عمل کرنے والے کو ثواب ہو گا، اور عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ اور جو بری بات جاری کرے اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر اس پر گناہ ہو گا، اور عمل کرنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 529]» اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1017]، [صحيح ابن حبان 3308]، [مسند الحميدي 825] و [صحيح ابن خزيمه 2477]
وضاحت: (تشریح حدیث 528) مطلب یہ ہے کہ شرع میں جس چیز کی خوبی ثابت ہے اس کو جو کوئی رواج دے گا تو اس کو نہایت ثواب ہوگا، جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ، اور جو بری چیز رائج کرے بدعت و گمراہی وغیرہ تو اس کا گناه رائج کرنے والے پر زیادہ ہوگا۔ واضح رہے کہ «مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً» سے یہ مراد قطعاً نہیں کہ کوئی نئی بات ایجاد کرے، جیسا کہ بعض افراد کا خیال ہے اور وہ اس سے بدعتِ حسنہ کی دلیل پکڑتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب مولى الحرقة، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من دعا إلى هدى، كان له من الاجر مثل اجور من اتبعه، لا ينقص ذلك من اجورهم شيئا، ومن دعا إلى ضلالة، كان عليه من الإثم مثل آثام من اتبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى، كَانَ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ اتَّبَعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنْ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ اتَّبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنے والے کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا، اور جو شخص اپنی گمراہی کی طرف بلائے گا تو اس کے اوپر اس کی اتباع و عمل کرنے والے کا بھی گناہ ہو گا اور اتباع کرنے والوں کے گناہ سے کچھ کم نہ ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 530]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 2674]، [صحيح ابن حبان 112]، [مسند أبى يعلی 6489] و [السنة لابن أبى عاصم 112]