سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 491
Save to word اعراب
(حديث موقوف) (حديث مقطوع) قال: وقال ابن سيرين رضي الله عنه: "لا والله ما كتبت حديثا قط"، قال ابن عون: قال لي ابن سيرين: عن زيد بن ثابت رضي الله عنه ارادني مروان بن الحكم وهو امير على المدينة ان اكتبه شيئا، قال: فلم افعل، قال: فجعل سترا بين مجلسه وبين بقية داره، قال: فكان اصحابه يدخلون عليه، ويتحدثون في ذلك الموضع، فاقبل مروان على اصحابه، فقال: ما ارانا إلا قد خناه، ثم اقبل علي، قال: قلت وما ذاك؟، قال: ما ارانا إلا قد خناك، قال: قلت: وما ذاك؟، قال:"إنا امرنا رجلا يقعد خلف هذا الستر، فيكتب ما تفتي هؤلاء وما تقول". (حديث موقوف) (حديث مقطوع) قَالَ: وقَالَ ابْنُ سِيرِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "لَا وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ"، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: قَالَ لِي ابْنُ سِيرِينَ: عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَرَادَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ أَنْ أُكْتِبَهُ شَيْئًا، قَالَ: فَلَمْ أَفْعَلْ، قَالَ: فَجَعَلَ سِتْرًا بَيْنَ مَجْلِسِهِ وَبَيْنَ بَقِيَّةِ دَارِهِ، قَالَ: فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِ، وَيَتَحَدَّثُونَ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ، فَأَقْبَلَ مَرْوَانُ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ خُنَّاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، قَالَ: قُلْتُ وَمَا ذَاكَ؟، قَالَ: مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ خُنَّاكَ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ؟، قَالَ:"إِنَّا أَمَرْنَا رَجُلًا يَقْعُدُ خَلْفَ هَذَا السِّتْرِ، فَيَكْتُبُ مَا تُفْتِي هَؤُلَاءِ وَمَا تَقُولُ".
عبداللہ بن عون نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مروان بن الحکم نے جو مدینہ کے گورنر تھے، مجھ سے چاہا کہ میں انہیں کچھ لکھاؤں، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ راوی نے کہا: امیر (محترم) نے اپنے اور باقی زنان خانہ (گھر کے لوگوں) کے درمیان پردہ کرا دیا، پھر گورنر (صاحب) کے مصاحب ان کے پاس اس جگہ آئے اور باتیں کرنے لگے، پھر مروان اپنے مصاحبین کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرا خیال ہے ہم نے ان کے ساتھ خیانت کی ہے۔ پھر میری (زید بن ثابت کی) طرف متوجہ ہوئے، میں نے کہا: کیسی خیانت؟ کہا: میرے خیال میں ہم نے آپ کی خیانت کی ہے، کہا بات کیا ہے؟ کہا: ہم نے ایک آدمی کو حکم دیا تھا کہ اس پردے کے پیچھے بیٹھ جائے اور جو کچھ یہ لوگ فتویٰ دیں وہ اور جو کچھ آپ کہیں اس کو لکھ لے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 491]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [مصنف ابن أبى شيبه 6497]، [جامع بيان العلم 349] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز ابن سعد نے [الطبقات 117/2/2] اور طبری نے [المعجم الكبير 4871] میں بھی اسے ذکر کیا ہے لیکن ان کی سند ضعیف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 492
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا سفيان، عن منصور، قال: قلت لإبراهيم: إن سالما اتم منك حديثا؟ قال: "إن سالما كان يكتب".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ: إِنَّ سَالِمًا أَتَمُّ مِنْكَ حَدِيثًا؟ قَالَ: "إِنَّ سَالِمًا كَانَ يَكْتُبُ".
منصور (بن المعتمر) نے کہا: میں نے ابراہیم سے کہا کہ سالم (ابن ابی الجعد) آپ سے زیادہ حدیث میں کامل ہیں، ابراہیم نے کہا: کیونکہ سالم لکھ لیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 492]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 203/6]، [المحدث الفاصل 349]، [تقييد العلم ص: 108-109] و [جامع بيان العلم 385]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 493
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الوليد بن هشام، حدثنا الحارث بن يزيد الحمصي، عن عمرو بن قيس، قال: وفدت مع ابي إلى يزيد بن معاوية بحوارين حين توفي معاوية رضي الله عنه نعزيه، ونهنيه بالخلافة، فإذا رجل في مسجدها، يقول: "الا إن من اشراط الساعة ان ترفع الاشرار، ويوضع الاخيار، الا إن من اشراط الساعة ان يظهر القول ويخزن العمل، الا إن من اشراط الساعة ان تتلى المثناة، فلا يوجد من يغيرها، قيل له: وما المثناة؟، قال: ما استكتب من كتاب غير القرآن، فعليكم بالقرآن فبه هديتم، وبه تجزون، وعنه تسالون"، فلم ادر من الرجل، فحدثت هذا الحديث بعد ذلك بحمص، فقال لي رجل من القوم: او ما تعرفه؟، قلت: لا، قال: ذلك عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: وَفَدْتُ مَعَ أَبِي إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بِحُوَّارَيْنَ حِينَ تُوُفِّيَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نُعَزِّيهِ، وَنُهَنِّيهِ بِالْخِلَافَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ فِي مَسْجِدِهَا، يَقُولُ: "أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ، ويُوضَعُ الْأَخْيَارُ، أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَظْهَرَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ، أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُتْلَى الْمَثْنَاةُ، فَلَا يُوجَدُ مَنْ يُغَيِّرُهَا، قِيلَ لَهُ: وَمَا الْمَثْنَاةُ؟، قَالَ: مَا اسْتُكْتِبَ مِنْ كِتَابٍ غَيْرِ الْقُرْآنِ، فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَبِهِ هُدِيتُمْ، وَبِهِ تُجْزَوْنَ، وَعَنْهُ تُسْأَلُونَ"، فَلَمْ أَدْرِ مَنْ الرَّجُلُ، فَحَدَّثْتُ هذَا الْحَدِيثِ بَعْدَ ذَلِكَ بِحِمْصَ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: أَوَ مَا تَعْرِفُهُ؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا.
عمرو بن قیس نے کہا: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر میں اپنے والد کے ساتھ تعزیت اور خلافت کی مبارکباد دینے کے لئے یزید بن معاویہ کے پاس حوارّین گیا، کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی مسجد میں ایک آدمی کہہ رہا ہے: خبردار دیکھو! قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اشرار سر چڑھائے جائیں گے اور اخیار (اچھے لوگ) گرائے جائیں گے، سنو! قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ قول کا اظہار ہو گا اور عمل محفوظ رہے گا۔ سنو! اشراط ساعۃ میں سے ہے کہ مثناة (ثانوی کتاب) پڑھی جائے گی اور کوئی اس میں تغیر کرنے والا نہ ہو گا، عرض کیا گیا: یہ مثناة کیا ہے، فرمایا: قرآن کے علاوہ کسی کتاب لکھنے کی درخواست کرنا، لہٰذا تم قرآن کو ہی تھامے رکھنا، اسی کے ذریعہ تم کو ہدایت ملی ہے، اور اسی کے ذریعہ تم کو اجر ملے گا، اور اس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ میں نے نہیں پہچانا کہ یہ کون آدمی ہیں؟ پھر میں نے یہ حدیث حمص میں بیان کی تو جماعت کے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ تم انہیں پہچانتے نہیں؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 493]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 554/4]، [غريب الحديث لأبي عبيد 282/4]

وضاحت:
(تشریح احادیث 474 سے 493)
حوّارین حمص کے قریب ایک گاؤں کا نام ہے جس میں یزید بن معاویہ کا انتقال ہوا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 494
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا ابو زبيد، حدثنا حصين، عن مرة الهمداني، قال: جاء ابو قرة الكندي بكتاب من الشام، فحمله، فدفعه إلى عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، فنظر فيه، فدعا بطست، ثم دعا بماء، فمرسه فيه، وقال: "إنما هلك من كان قبلكم باتباعهم الكتب وتركهم كتابهم"، قال حصين: فقال مرة:"اما إنه لو كان من القرآن، او السنة لم يمحه، ولكن كان من كتب اهل الكتاب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، قَالَ: جَاءَ أَبُو قُرَّةَ الْكِنْدِيُّ بِكِتَابٍ مِنْ الشَّامِ، فَحَمَلَهُ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَنَظَرَ فِيهِ، فَدَعَا بِطَسْتٍ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ، فَمَرَسَهُ فِيهِ، وَقَالَ: "إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِاتِّبَاعِهِمْ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَهُمْ"، قَالَ حُصَيْنٌ: فَقَالَ مُرَّةُ:"أَمَا إِنَّهُ لَوْ كَانَ مِنْ الْقُرْآنِ، أَوْ السُّنَّةِ لَمْ يَمْحُهُ، وَلَكِنْ كَانَ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ".
مره ہمدانی نے کہا کہ ابوقره کندی شام سے ایک کتاب لے کر آئے اور اسے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا، انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ایک تھالی منگائی اور پانی طلب کیا اور اس کو رگڑ رگڑ کر دھو دیا اور فرمایا: تم سے پہلے لوگ ان کی دیگر کتاب کے پیچھے لگنے اور اپنی اصلی کتاب ترک کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ حصین سے مروی ہے: مرہ نے کہا: اگر وہ کتاب و سنت میں سے کچھ ہوتا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے نہ مٹاتے، وہ نوشتہ اہل کتاب کی کتب میں سے تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 494]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اس میں ابوزبید کا نام عبثر بن قاسم ہے اور حصین: ابن عبدالرحمٰن اور مرة: ابن شرحبیل ہیں۔تخریج کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6355]، [تقييد العلم ص: 53]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 495
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن يحيى بن جعدة، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بكتف فيه كتاب، فقال: "كفى بقوم ضلالا ان يرغبوا عما جاء به نبيهم إلى ما جاء به نبي غير نبيهم، او كتاب غير كتابهم"، فانزل الله عز وجل: اولم يكفهم انا انزلنا عليك الكتاب يتلى عليهم إن في ذلك لرحمة وذكرى لقوم يؤمنون سورة العنكبوت آية 51.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَتِفٍ فِيهِ كِتَابٌ، فَقَالَ: "كَفَى بِقَوْمٍ ضَلَالًا أَنْ يَرْغَبُوا عَمَّا جَاءَ بِهِ نَبِيُّهُمْ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ نَبِيٌّ غَيْرُ نَبِيِّهِمْ، أَوْ كِتَابٌ غَيْرُ كِتَابِهِمْ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ سورة العنكبوت آية 51.
یحییٰ بن جعدہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھی ہوئی کندھے کی ہڈی لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی قوم کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز سے بےرغبتی کریں اور اپنے نبی کو چھوڑ کر کسی اور نبی کی طرف مائل ہوں یا اپنی کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کی طرف مائل ہوں۔ اور اس کی تائید میں الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾» [عنكبوت: 51/29] کیا انہیں یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جارہی ہے اس میں رحمت بھی ہے اور نصیحت بھی ان لوگوں کے لئے جو ایمان والے ہیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 495]»
یہ روایت مرسل صحیح ہے۔ دیکھئے: [مراسيل أبى داؤد 454]، [تفسير ابن جرير 7/21] و [فتح الباري 68/9]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 496
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن الاشعث، عن ابيه، وكان من اصحاب عبد الله، قال: رايت مع رجل صحيفة فيها: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، فقلت له: انسخنيها، فكانه بخل بها، ثم وعدني ان يعطينيها، فاتيت عبد الله رضي الله عنه فإذا هي بين يديه، فقال: "إن ما في هذا الكتاب بدعة، وفتنة، وضلالة، وإنما اهلك من كان قبلكم هذا واشباه هذا، إنهم كتبوها، فاستلذتها السنتهم، واشربتها قلوبهم، فاعزم على كل امرئ يعلم بمكان كتاب إلا دل عليه، واقسم بالله، قال شعبة: فاقسم بالله؟، قال: احسبه اقسم: لو انها ذكرت له بدير الهند نراه يعني مكانا بالكوفة بعيدا، لآتيته ولو مشيا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ مَعَ رَجُلٍ صَحِيفَةً فِيهَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، فَقُلْتُ لَهً: أَنْسِخْنِيهَا، فَكَأَنَّهُ بَخِلَ بِهَا، ثُمَّ وَعَدَنِي أَنْ يُعْطِيَنِيهَا، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَإِذَا هِيَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: "إِنَّ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ بِدْعَةٌ، وَفِتْنَةٌ، وَضَلَالَةٌ، وَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ هَذَا وَأَشْبَاهُ هَذَا، إِنَّهُمْ كَتَبُوهَا، فَاسْتَلَذَّتْهَا أَلْسِنَتُهُمْ، وَأُشْرِبَتْهَا قُلُوبُهُمْ، فَأَعْزِمُ عَلَى كُلِّ امْرِئٍ يَعْلَمُ بِمَكَانِ كِتَابٍ إِلَّا دَلَّ عَلَيْهِ، وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ، قَالَ شُعْبَةُ: فَأَقْسَمَ بِاللَّهِ؟، قَالَ: أَحْسَبُهُ أَقْسَمَ: لَوْ أَنَّهَا ذُكِرَتْ لَهُ بِدَيْرٍ الْهِنْدِ نَرَاهُ يَعْنِي مَكَانًا بِالْكُوفَةِ بَعِيدًا، لآَتَيْتُهُ وَلَوْ مَشْيًا".
اشعث (ابن ابی الشعثاء) نے اپنے والد سے روایت کیا جو کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے کہ میں نے ایک آدمی کے پاس صحیفہ دیکھا جس میں مکتوب تھا: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر»، میں نے کہا: مجھے بھی لکھا دو، اس نے گویا بخل سے کام لیا، پھر مجھ سے وعدہ کیا کہ اس صحیفہ کو مجھے دیدے گا، پھر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو دیکھا وہی صحیفہ ان کے سامنے ہے۔ فرمانے لگے: اس مکتوب میں بدعت، فتنہ اور گمراہی ہے، تم سے پہلے لوگوں کو یہ اور اسی طرح کی چیزوں نے ہلاک کیا، انہوں نے اسے لکھا اور ان کی زبانوں نے اس کا چٹخارہ لیا اور وہی دلوں میں بیٹھ گیا، پس میں ہر آدمی کو تاکید کرتا ہوں کہ کسی بھی کتاب کی وہ جگہ جانتا ہو تو اسے بتا دے اور اسے قسم دیتا ہوں، شعبہ نے کہا: اور انہوں نے قسم کھلائی۔ راوی نے کہا: میرا گمان ہے کہ انہوں نے قسم کھا کر بتایا کہ اگر وہ کتاب ہند کے کسی مقام پر جو کوفہ سے دور ہو گی میں وہاں پہنچوں گا چاہے پیدل چل کر ہی جانا پڑے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 496]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالشعثاء کا نام سلیم بن اسود ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 55] و [مصنف ابن أبى شيبه 6498]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 497
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله هو ابن عمرو، عن عبد الملك بن عمير، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه: "ان بني إسرائيل كتبوا كتابا، فتبعوه وتركوا التوراة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "أَنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَتَبُوا كِتَابًا، فَتَبِعُوهُ وَتَرَكُوا التَّوْرَاةَ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی، انہوں نے اس کی پیروی کی اور توراۃ کو چھوڑ دیا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 497]»
اس روایت کی سند تو صحیح ہے لیکن موقوف ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 56] و [مجمع الزوائد 676، 940]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 498
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا إسرائيل، عن عثمان بن ابي المغيرة، عن عفاق المحاربي، عن ابيه، قال: سمعت ابن مسعود رضي الله عنه، يقول: "إن ناسا يسمعون كلامي، ثم ينطلقون فيكتبونه، وإني لا احل لاحد ان يكتب إلا كتاب الله".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَفَّاقٍ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: "إِنَّ نَاسًا يَسْمَعُونَ كَلَامِي، ثُمَّ يَنْطَلِقُونَ فَيَكْتُبُونَهُ، وَإِنِّي لَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْتُبَ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ".
عفان (بن عبداللہ بن مرداس المحاربی) نے اپنے والد (عبدالله) سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے: بیشک کچھ لوگ میرا کلام سنتے ہیں پھر جا کر اسے لکھتے ہیں اور میں کسی کے لئے حلال نہیں کرتا کہ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کے علاوہ کچھ لکھے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 498]»
اس اثر کی سند جید ہے، اور اس معنی کی روایت اثر رقم (494، 496) پرگذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 493 سے 498)
یہ سب اس خوف کی بنا پر تھا کہ کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہ خلط ملط نہ ہو جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 499
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا مالك بن إسماعيل، حدثنا محمد بن فضيل، عن ابن شبرمة، قال: سمعت الشعبي، يقول: "ما كتبت سوداء في بيضاء، ولا استعدت حديثا من إنسان".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ: "مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ، وَلَا اسْتَعَدْتُ حَدِيثًا مِنْ إِنْسَانٍ".
ابن شبرمہ نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: میں نے سوداء کو بیضاء میں کبھی نہیں لکھا، اور نہ کبھی کسی انسان سے دوبارہ کوئی حدیث سننے کی درخواست کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 499]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 365]، [العلم 28]، [تاريخ بغداد 229/12]، [الجامع لأخلاق الراوي 1832]، [جامع بيان العلم 368] و [الحلية 321/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 498)
اس سے ان کی قوّتِ حافظ کا پتہ چلتا ہے، ان تمام آثار سے یہ معلوم ہوا کہ اسلاف کرام کتابتِ حدیث سے زیادہ قوّتِ حافظہ کو ترجیح دیتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 208/1] میں لکھا ہے، اسلاف کرام نے کہا ہے: صحابہ کرام کی ایک جماعت کچھ بھی لکھنے کو ناپسند کرتی تھی، وہ یہ چاہتے تھے کہ جس طرح انہوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوں میں محفوظ رکھا ہے اسی طرح وہ بھی حفظ کریں، لکھیں نہیں، لیکن جب انہوں نے سستی و کاہلی اور طلابِ علم میں پست ہمتی دیکھی تو علمِ نبوّت کے ضائع ہو جانے سے ڈر گئے اور لکھنے کی اجازت دے دی۔
جیسا کہ اگلے باب میں آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
43. باب مَنْ رَخَّصَ في كِتَابَةِ الْعِلْمِ:
43. کتابت حدیث کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر: 500
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن وهب بن منبه، عن اخيه، سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: "ليس احد من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اكثر حديثا عن النبي صلى الله عليه وسلم مني، إلا ما كان من عبد الله بن عمرو، فإنه كان يكتب، ولا اكتب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: "لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ، وَلَا أَكْتُبُ".
وہب بن منبہ نے اپنے بھائی سے روایت کیا کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے پاس آپ کی حدیث مجھ سے زیادہ ہو سوائے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے کیونکہ وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 500]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح البخاري 113]، [صحيح ابن حبان 7152] وغيرہما۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    46    47    48    49    50    51    52    53    54    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.