ابوعبدالرحمٰن (عبداللہ بن حبیب) سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اتباع کرو گے، ابتداع سے بچو گے تو تمہارے لئے یہی کافی ہے۔
تخریج الحدیث: «في اسناده علتان: الأولى: تدليس حبيب بن أبي ثابت وقد عنعن والثانية: قول شعبة: " لم يسمع أبو عبد الرحمن: عبد الله بن حبيب من عبد الله بن مسعود ". ولكن قال الإمام أحمد: " في قول شعبة: لم يسمع من ابن مسعود شيئا أراه وهما "، [مكتبه الشامله نمبر: 211]» اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں اس لئے یہ روایت معلول ہے، لیکن دوسرے طرق سے بھی یہ روایت منقول ہے۔ دیکھئے: [الزهد للوكيع 315]، [الإبانة 175]، [البدع 54]، [السنة للمروزي 78]، [الزهد لأحمد 162]، [العلم لأبي خيثمه 54]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده علتان: الأولى: تدليس حبيب بن أبي ثابت وقد عنعن والثانية: قول شعبة: " لم يسمع أبو عبد الرحمن: عبد الله بن حبيب من عبد الله بن مسعود ". ولكن قال الإمام أحمد: " في قول شعبة: لم يسمع من ابن مسعود شيئا أراه وهما "
سیدنا جابر بن عبدالله انصاری رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیا الله تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا: ”سب سے بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور بدترین کام نئی چیزیں (بدعت) ایجاد کرنا ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل يحيى بن سليم ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه عبد الوهاب الثقفي وسليمان بن بلال وسفيان فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 212]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حوالہ دیکھئے: [مسند أبي يعلی 2111]، [البدعة لابن وضاح 53]، [الإبانة 148]، [السنة للمروزي 73]، [السنة لابن أبى عاصم 24] و [فتح الباري 511/10]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل يحيى بن سليم ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه عبد الوهاب الثقفي وسليمان بن بلال وسفيان فيصح الإسناد
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن اسلم المنقري، عن بلاد بن عصمة، قال: سمعت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، يقول: وكان إذا كان عشية الخميس ليلة الجمعة، قام فقال: "إن اصدق القول قول الله عز وجل، وإن احسن الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، والشقي من شقي في بطن امه، وإن شر الروايا روايا الكذب، وشر الامور محدثاتها، وكل ما هو آت قريب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ أَسْلَمَ الْمِنْقَرِيِّ، عَنْ بِلَادِ بْنِ عِصْمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: وَكَانَ إِذَا كَانَ عَشِيَّةَ الْخَمِيسِ لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، قَامَ فَقَالَ: "إِنَّ أَصْدَقَ الْقَوْلِ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنَّ أَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَإِنَّ شَرَّ الرَّوَايَا رَوَايَا الْكَذِبِ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مَا هُوَ آتٍ قَرِيبٌ".
بلاز بن عصمۃ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ جمعرات کی شام یعنی جمعہ والی رات کو کھڑے ہوئے اور فرمایا: سب سے سچا قول اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اور سب سے اچھا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے، اور بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی بدبخت قرار دے دیا گیا، اور سب سے بدترین سوچ و فکر (یا قول و فعل) جھوٹی سوچ و فکر ہے، اور بدترین کام بدعت ایجاد کرنا ہے، اور ہر آنے والی چیز قریب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 213]» اس اثر کی سند جید ہے۔ حوالہ دیکھئے: [بخاري 7277، 6098]، [ابن ماجه 46] و [البدع 57]
وضاحت: (تشریح احادیث 210 سے 213) ان تمام آثار و احادیث سے سنّت کی اہمیت ثابت ہوتی ہے اور بدعت کی مذمت و برائی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے بچائے۔ آمین
(حديث مقطوع) اخبرني محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن ليث، عن ايوب، عن ابن سيرين، قال: "ما اخذ رجل ببدعة فراجع سنة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "مَا أَخَذَ رَجُلٌ بِبِدْعَةٍ فَرَاجَعَ سُنَّةً".
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: کوئی آدمی بدعت کو پکڑتا ہے تو سنت سے تراجع کر لیتا ہے۔ (یعنی بدعت ایجاد ہوتی ہے تو سنت پس پشت چلی جاتی ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الليث وهو ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 214]» اس قول کی سند ضعیف ہے، لیکن حقیقت یہ ہی ہے جیسا کہ سابقہ آثار میں گزر چکا ہے، اس اثر کو ابوشامہ المقدسی نے [الباعث ص: 26] میں ذکر کیا ہے نیز دیکھئے: اثر رقم (99)
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الليث وهو ابن أبي سليم
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله ابو الوليد الهروي، حدثنا معاذ بن معاذ، عن ابن عون، عن عمرو بن سعيد، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن حية بنت ابي حية، قالت: دخل علينا رجل بالظهيرة، فقلت: يا عبد الله، من اين اقبلت؟، قال: اقبلت انا وصاحب لي في بغاء لنا، فانطلق صاحبي يبغي، ودخلت انا استظل بالظل، واشرب من الشراب، فقمت إلى لبينة حامضة، وربما قالت: فقمت إلى ضيحة حامضة، فسقيته منها، فشرب، وشربت، قالت: وتوسمته فقلت: يا عبد الله من انت؟، فقال انا ابو بكر، قلت: انت ابو بكر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي سمعت به؟، قال: نعم، قالت: فذكرت غزونا خثعما، وغزوة بعضنا بعضا في الجاهلية، وما جاء الله به من الالفة واطناب الفساطيط وشبك ابن عون اصابعه، ووصفه لنا معاذ، وشبك احمد، فقلت: يا عبد الله، حتى متى ترى امر الناس هذا؟، قال:"ما استقامت الائمة"، قلت: ما الائمة؟، قال:"اما رايت السيد يكون في الحواء فيتبعونه، ويطيعونه؟ فما استقام اولئك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو الْوَلِيدِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ حَيَّةَ بِنْتِ أَبِي حَيَّةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَجُلٌ بِالظَّهِيرَةِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ أَقْبَلْتَ؟، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي فِي بُغَاءٍ لَنَا، فَانْطَلَقَ صَاحِبِي يَبْغِي، وَدَخَلْتُ أَنَا أَسْتَظِلُّ بِالظِّلِّ، وَأَشْرَبُ مِنْ الشَّرَابِ، فَقُمْتُ إِلَى لُبَيْنَةٍ حَامِضَةٍ، ورُبَّمَا قَالَتْ: فَقُمْتُ إِلَى ضَيْحَةٍ حَامِضَةٍ، فَسَقَيْتُهُ مِنْهَا، فَشَرِبَ، وَشَرِبْتُ، قَالَتْ: وَتَوَسَّمْتُهُ فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَنْ أَنْتَ؟، فَقَالَ أَنَا أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: أَنْتَ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي سَمِعْتُ بِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَذَكَرْتُ غَزْوَنَا خَثْعَمًا، وَغَزْوَةَ بَعْضِنَا بَعْضًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْأُلْفَةِ وَأَطْنَابِ الْفَسَاطِيطِ وَشَبَّكَ ابْنُ عَوْنٍ أَصَابِعَهُ، وَوَصَفَهُ لَنَا مُعَاذٌ، وَشَبَّكَ أَحْمَدُ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، حَتَّى مَتَى تَرَى أَمْرَ النَّاسِ هَذَا؟، قَالَ:"مَا اسْتَقَامَتْ الْأَئِمَّةُ"، قُلْتُ: مَا الْأَئِمَّةُ؟، قَالَ:"أَمَا رَأَيْتِ السَّيِّدَ يَكُونُ فِي الْحِوَاءِ فَيَتَّبِعُونَهُ، وَيُطِيعُونَهُ؟ فَمَا اسْتَقَامَ أُولَئِكَ".
حیۃ بنت ابی حیۃ نے کہا: دوپہر کے وقت ہمارے پاس ایک آدمی آیا، میں نے کہا: اللہ کے بندے! تم کہاں سے آ رہے ہو؟ تو اس نے کہا: میں اور میرا ساتھی بھٹکے ہوئے کی تلاش میں آئے تھے، میرا ساتھی تلاش میں نکل گیا اور میں سائے اور پانی کی تلاش میں یہاں آ گیا، حیۃ نے کہا: میں مٹی کا مٹھا لائی اور اسے پلایا، اس نے پیا اور میں نے بھی پیا، میں نے تعارف کے لئے پوچھا: اللہ کے بندے! تم کون ہو؟ تو اس نے کہا: میں ابوبکر ہوں، میں نے کہا: وہی ابوبکر جن کے بارے میں میں نے سنا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں وہی۔ حیہ نے کہا: میں نے خثعم سے اور جاہلیت میں بعض کا بعض کے ساتھ غزوے کا ذکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو الفت و محبت پیدا کی اور ان خیموں کا ذکر کیا۔ عبداللہ بن عون نے اپنی انگلیاں انگلیوں میں داخل کیں، معاذ بن معاذ نے بھی ایسا ہی کر کے بتایا، احمد اور ان کے استاد احمد بن عبداللہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ میں نے کہا: اے عبدالله! کب تک تمہارا خیال ہے کہ ایسا ہی معاملہ چلتا رہے گا؟ کہا: جب تک ائمہ یا حکام سیدھے (راهِ مستقیم) پر رہیں گے۔ میں نے کہا: ائمہ سے مراد کیا ہے؟ کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ سید (مالک) جب گھر میں ہوتا ہے تو لوگ اس کی پیروی و اطاعت بجا لاتے ہیں، پس جب تک وہ راہ مستقیم پر رہیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 216]» اس روایت کی سند حسن ہے، اور صرف امام دارمی کی روایت ہے۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سب سے زیادہ تمہارے بارے میں جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے حکام (ائمہ) ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح يشهد له الحديث قبل السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 217]» اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ (215) میں گزر چکا ہے، اس حدیث کو امام احمد نے [مسند 441/6] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح يشهد له الحديث قبل السابق
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن بيان بن بشر، عن قيس بن ابي حازم، قال: دخل ابو بكر رضوان الله عليه على امراة من احمس يقال لها زينب، قال: فرآها لا تتكلم، فقال: "ما لها لا تتكلم؟"، قالوا: نوت حجة مصمتة، فقال لها:"تكلمي، فإن هذا لا يحل، هذا من عمل الجاهلية"، قال: فتكلمت، فقالت: من انت، قال: انا امرؤ من المهاجرين، قالت: من اي المهاجرين؟، قال: من قريش، قالت: فمن اي قريش انت؟، قال: إنك لسئول، انا ابو بكر، قالت: ما بقاؤنا على هذا الامر الصالح الذي جاء الله به بعد الجاهلية؟، فقال: بقاؤكم عليه ما استقامت بكم ائمتكم، قالت: وما الائمة؟، قال: اما كان لقومك رؤساء واشراف، يامرونهم فيطيعونهم؟، قالت: بلى، قال: فهم مثل اولئك على الناس.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بَيَانٍ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ، قَالَ: فَرَآهَا لَا تَتَكَلَّمُ، فَقَالَ: "مَا لَهَا لَا تَتَكَلَّمُ؟"، قَالُوا: نَوَتْ حَجَّةً مُصْمِتَةً، فَقَالَ لَهَا:"تَكَلَّمِي، فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ، هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ"، قَالَ: فَتَكَلَّمَتْ، فَقَالَتْ: مَنْ أَنْتَ، قَالَ: أَنَا امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، قَالَتْ: مِنْ أَيِّ الْمُهَاجِرِينَ؟، قَالَ: مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَتْ: فَمِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ؟، قَالَ: إِنَّكِ لَسَئُولٌ، أَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَتْ: مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ؟، فَقَالَ: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ، قَالَتْ: وَمَا الْأَئِمَّةُ؟، قَالَ: أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُؤَسَاءُ وَأَشْرَافٌ، يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ؟، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَهُمْ مِثْلُ أُولَئِكَ عَلَى النَّاسِ.
قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے جس کا نام زینب تھا، آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتی ہے، پوچھا: کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتی؟ کہا گیا کہ نذر مانی ہے کہ چپی لگا کر حج کرے گی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہو بات کرے، یہ جائز نہیں، یہ تو دور جاہلیت کی رسم ہے۔ راوی نے کہا: وہ بات کرنے لگی اور پوچھا: آپ کون ہیں؟ جواب دیا میں مہاجرین کا ایک فرد ہوں، عورت نے کہا: کون سے مہاجرین کے کس قبیلے سے ہیں؟ کہا: قریش میں سے ہوں، عورت نے دریافت کیا: قریش کے کس خاندان سے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم تو بڑی سوال کرنے والی ہو، میں ابوبکر ہوں، کہنے لگی، جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین عطا فرمایا ہے اس پر ہم کب تک قائم رہ سکیں گے؟ کہا: کہ اس حالت پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک تمہارے ائمہ درست رہیں گے، اس نے کہا: ائمہ سے مراد کیا ہے؟ کہا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو آ کر حکم دیں تو لوگ ان کی پیروی کریں؟ اس نے کہا: جی ہاں کیوں نہیں؟ فرمایا: لوگوں پر اس طرح کے (حاکم) ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 218]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [امام بخاري 3834] نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 215 سے 218) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایسی نذر جس میں مشقت ہو پوری کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس کا کفارہ ادا کر کے اسے توڑا جا سکتا ہے، جیسا کہ ابواسرائیل کی حدیث میں پیدل چل کر حج کرنے کی نذر تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تڑوا کر سوار ہونے کا حکم دیا۔ اس حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تواضع اور خاکساری، نیز اس بات کی نشاندہی ہے کہ ائمہ و حکام جب تک درست و صالح رہیں گے خیرات و برکات کا نزول ہوتا رہے گا، اور جب ان میں بد دیانتی، بے راہ روی آئے گی تو سب کی بربادی ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن واصل، عن امراة يقال لها عائذة، قالت: رايت ابن مسعود رضي الله عنه يوصي الرجال والنساء، ويقول: "من ادرك منكم من امراة، او رجل، فالسمت الاول، فإنكم على الفطرة"، قال عبد الله: السمت الطريق.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا عَائِذَةُ، قَالَتْ: رَأَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُوصِي الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ، وَيَقُولُ: "مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ مِنْ امْرَأَةٍ، أَوْ رَجُلٍ، فَالسَّمْتَ الْأَوَّلَ، فَإِنَّكُمْ عَلَى الْفِطْرَةِ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: السَّمْتُ الطَّرِيقُ.
واصل نے ایک عورت سے روایت کیا جس کا نام عائذہ تھا اس نے کہا: میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ عورتوں اور مردوں کو وصیت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: تم میں سے جو کوئی بھی مرد یا عورت وہ زمانہ پائے تو اسلاف کا طریقہ لازم پکڑے، انہیں کے طریق پر رہے تو تم فطرت پر رہو گے۔ عبداللہ نے کہا: «السمت» سے مراد طریقہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 219]» اس اثر کی سند صحیح ہے، اور اسے ابن ابی شیبہ نے [مصنف 17856] میں، ابن سعد نے [طبقات 358/8] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے اثر نمبر (174)
زیاد بن حدیر سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: جانتے ہو اسلام کو کون سی چیز منہدم کر دے گی؟ میں نے کہا: نہیں، فرمایا: عالم کی غلطی، منافق کا کتاب اللہ میں بحث و مباحثہ یا جدال، اور گمراہ کرنے والے ائمہ کا حکم۔ (یعنی عالم کی غلطی، منافق کا جدال، اور گمراه اماموں یا حکام کا حکم اسلام کو ڈھا دے گا، اس کی عمارت کو منہدم کر دے گا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 220]» اس اثر کی سند صحیح ہے، اور اسے دیکھئے: [الإبانة 641-643] و [الفقيه 607] اور [جامع بيان العلم 1867، 1869] میں۔